یوکرین جنگ: کیا جدید مغربی ہتھیاروں کا ’روس کے اندر‘ استعمال جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے؟

اب تک مغربی ممالک نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں اپنے ہتھیاروں کا استعمال یوکرین کے اندر واقع فوجی اہداف تک محدود رکھا ہوا تھا لیکن اب یوکرین مغربی ممالک کے ہتھیاروں سے روس کے اندر اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
ہیمارس
Getty Images

اب تک مغربی ممالک نے یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ یوکرین ان کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاریوں کا روس کے خلاف استعمال صرف یوکرین کے اندر اور کریمیا سمیت مقبوضہ علاقوں میں ہی کر سکتا ہے۔

انھیں خدشہ تھا کہ نیٹو ممالک کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ساتھ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد کے پار اہداف پر حملہ تنازع کو بڑھا دے گا۔

لیکن شمال مشرقی خارکیو کے علاقے میں تازہ ترین روسی پیش قدمی نے یوکرین کے مغربی اتحادیوں کو اس بات پر قائل کر دیا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے یوکرین کو سرحد کے دوسری جانب براہ راست روسی فوجی اہداف کو بھی تباہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

گذشتہ ماہ روس نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر زمینی حملہ کرتے ہوئے ایک نیا محاذ کھولا اور کئی دیہات پر قبضہ کر لیا۔ روسی پیش قدمی نے یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیو کو شدید خطرہ سے دوچار کر دیا جو سرحد سے صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

اس مقام پر سرحد ہی محاذ جنگ ہے اور چونکہ اب تک یوکرین سے باہر کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے مغربی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی تھی اس لیے روسی فوج ایک محفوظ ماحول میں نئے آپریشن اور حملے کی تیاری کر سکتی تھی۔

روسی حملے کی زد میں خارکیو کے مختلف مقامات
Getty Images
روسی حملے کی زد میں خارکیو کے مختلف مقامات آئے

یوکرین اور دیگر یورپی ممالک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کرنے اور کیئو کو مغربی ہتھیاروں سے روس پر حملہ کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعہ کو پراگ میں نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ہمارے تعلقات کی خاصیت یہ ہے کہ ہم ضرورت کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں تاکہ میدان جنگ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقابلہ کر سکیں اور اس بات کو یقینی بنائيں کہ یوکرین کو جب کسی چیز کی ضرورت ہو وہ اس کے پاس ہو۔‘

اس اعلان سے صرف چند روز قبل روسی صدر ولادیمیر پوتن نے دھمکی دی تھی کہ اگر روسی علاقے پر حملہ کرنے کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے مغربی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو وہ ’سینیٹری زونز‘ کو وسیع کریں گے۔

انھوں نے کہا تھا کہ یورپ کے نیٹو ممالک کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ’چھوٹے علاقوں پر مبنی گنجان آبادی والی ریاستیں ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’انھیں روسی سرزمین کے اندر دور تک حملہ کرنے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اس عنصر کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔‘

کشیدگی سے بچنا ہی شاید وہ وجہ ہے جس نے امریکہ کو روس پر حملہ کرنے کے لیے ٹیکٹیکل میزائل جیسے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دینے سے باز رکھا ہوا ہے۔ ان میزائلوں کی رینج 300 کلومیٹر تک کی ہے اور یہ روسی حدود میں فوجی اڈوں اور ہوائی اڈوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

پابندیوں کے ساتھ یوکرین کے پاس صرف یہ راستہ باقی تھا کہ وہ اپنی سرحد کے قریب موجود اہداف پر ہی توجہ مرکوز کرے۔ لیکن حالیہ اعلان کیئو کے اہم اتحادیوں کی طرف سے ایک بڑی پالیسی تبدیلی ہے۔

یوکرین
Getty Images

یہاں تک کہ 70 کلومیٹر تک مار کرنے والے کم رینج والے ہیمارس راکٹ لانچر بھی روسی نقل و حرکت میں نمایاں خلل ڈال سکتے ہیں اور کسی بھی روسی جارحانہ منصوبے کو سست کرنے کا کام کر سکتے ہیں۔

خارکیو ٹیکٹیکل گروپ سے تعلق رکھنے والے یوری پوو کہتے ہیں کہ اب یوکرین ’ان جگہوں پر حملہ کر سکتا ہے جہاں دشمن نے اپنی فوجیں، سازوسامان اور دوسرے ذخائر یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔‘

رواں ہفتے کے شروع میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس ایک اور حملے کے لیے خارکیو سے صرف 90 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنی فوجیں جمع کر رہا ہے۔

انسٹیٹیوٹ فار سٹڈی آف وار نے سیٹلائٹ تصاویر کا تجزیہ کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس علاقے میں ’اسلحہ اور گوداموں میں توسیعی سرگرمیاں‘ دیکھی گئی ہیں۔ ایسے میں یوکرین کی فوج کی جانب سے ان تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نئے حملوں کو پسپا کرنے میں مددگار ہو گی۔

تاہم یوکرین کو روسی گلائیڈ بموں، جنھیں مقامی طور پر ’کے اے بی‘ کہا جاتا ہے، سے بچنے میں مدد ملنے کا امکان کم ہے جو باقاعدگی سے خارکیو اور دیگر سرحدی شہروں پر بمباری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

لیکن اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے یوکرین کی فوج کے پاس ایسے طیاروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ضروری ہے جو ان بموں کو گراتے ہیں۔

ان طیاروں کو روکنے کے قابل واحد ہتھیار جو اس وقت یوکرین کے پاس ہے وہ امریکی فضائی دفاعی نظام ’پیٹریاٹ‘ ہے۔ لیکن اس نظام کو خارکیو کے قریب لے کر جانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جاسوس ڈرون کی مدد سے اسے دیکھ کر ماسکو اس مہنگے نظام کو تباہ کرنے کے لیے اسکندر جیسے میزائل داغ سکتا ہے۔

ہمارس
BBC

دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس، جو یوکرین کو سٹورم شیڈو ایئر لانچ کروز میزائل فراہم کرتے ہیں، نے واضح طور پر ان کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی ہے اور یہ 250 کلومیٹر تک پہنچ سکتے ہیں۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے گذشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’ہمیں (یوکرین کو) ان فوجی مقامات کو بے اثر کرنے کی اجازت دینی چاہیے جہاں سے میزائل فائر کیے جا رہے ہیں، یعنی بنیادی طور پر وہ فوجی مقامات جہاں سے یوکرین پر حملہ کیا گیا ہے۔‘

ایک فوجی افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کے بیانات کو دراصل سٹورم شیڈو کے استعمال کی اجازت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یوکرین چند علاقوں میں روسی ہوائی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

بہرحال اس طرح کی کارروائیاں نتائج کے لحاظ سے محدود ہوں گی کیونکہ یوکرین کے ایس یو-24 طیاروں کو، جو ان کروز میزائلوں سے لیس ہیں، انھیں لانچ کرنے کے لیے روسی سرحد کے قریب جانا پڑے گا اور ان کو روسی فضائی دفاعی نظام نشانہ بنا سکتا ہے۔

رواں سال کے آخر تک یوکرین کو ایف-16 طیارے ملنے کی توقع ہے اور یہ طیارے ایسے کاموں کے لیے بہتر طریقے سے لیس ہیں۔ تاہم صدر زیلنسکی نے اعتراف کیا ہے کہ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا یوکرین کو ان جیٹ طیاروں کے ذریعے براہ راست روس میں اہداف پر حملہ کرنے کی اجازت ملے گی یا نہیں۔

چیلنجر ٹینک
BBC

انھوں نے جمعے کو سٹاک ہوم میں نارڈک سربراہی اجلاس میں کہا کہ ’میرے خیال میں روس کی سرزمین پر کسی بھی ہتھیار - بطور خاص مغربی ہتھیار - کا استعمال کب ہوگا، یہ اہم بات ہے۔‘

یوکرین کی فوج روس کے اندر دور تک اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے خود بھی ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کے کچھ ڈرونز نے سرحد سے سینکڑوں کلومیٹر دور روسی تیل ڈپو اور فوجی تنصیبات پر حملہ بھی کیا ہے۔

تازہ ترین حملہ یوکرین کی سرحد سے 1800 کلومیٹر دور اورسک شہر کے ایک طویل فاصلے کے ریڈار سٹیشن پر کیا گیا۔

اس تنازع کے دوران ’ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹمز‘ نے یوکرین کی میدانِ جنگ میں کافی مدد کی ہے۔ یہ سسٹم موبائل پلیٹ فارم یا بڑی گاڑیوں پر نصب کیے جاتے ہیں۔

’ہائی موبیلیٹی آرٹلری راکٹ سسٹمز‘ کا کمال یہ ہے کہ انھیں مخصوص مقام پر نصب کیا جاتا ہے، گولے داغے جاتے ہیں اور روسی فوج کے ردعمل سے قبل ان سسٹمز کو کہیں اور منتقل کر دیا جاتا ہے۔

یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کے ’آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹمز‘ بھی ان ہتھیاروں میں شامل ہیں جنھیں یوکرین بھیجا جانا ہے۔

امریکہ فروری 2022 سے لے کر اب تک یوکرین کو 20 لاکھ گولے فراہم کر چکا ہے اور امکان ہے کہ نئے عسکری پیکچ کے ذریعے مزید گولے یوکرین بھیجے جائیں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.