پاکستانی ائیر لائنز کے یورپ جانے پر پابندی: کیا ملکی ائیر سیفٹی بین الاقوامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے؟

یورپی یونین کی ائیر سیفٹی کمیٹی کی جانب پاکستانی ائیر لائنز پر پابندی سے سب سے زیادہ نقصان پی آئی اے کو ہوا ہے کیونکہ دیگر پاکستانی ائیر لائنز کے یورپ تک آپریشن نہیں۔

گذشتہ چند برسوں سے پاکستانی ائیر لائنز کے یورپ جانے پر پابندی عائد ہے اور فی الحال اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے کیونکہ تازہ ترین پیشرفت میں یورپی یونین کی ائیر سیفٹی کمیٹی کی رپورٹ میں پاکستانی ائیر لائنز پر سے یورپ جانے پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ فی الحالپاکستانی ائیر لائنز یورپ نہیں جا سکتیں۔ اس پابندی سے ملک کی سرکاری پاکستان ائیر لائن (پی آئی اے) ہی متاثرہ ہے کیونکہ پابندی لگنے سے پہلےپاکستان کی دوسری ائیر لائنز کی یورپ کے لیے کوئی سروس نہیں تھی۔

پی آئی اے ہی واحد ائیر لائن تھی جو یورپ میں پاکستان سے آپریٹ کر رہی تھی۔

یورپی یونین کی کمیٹی کی جانب سے پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے کردار کا جائزہ لیا گیا جس میں ائیر ٹریول میں حفاظتی پہلوؤں اور اس سے منسلک امور کو دیکھا گیا۔

اگرچہ یورپی یونین کمیٹی کی جانب سے سی اے اے کے کچھ اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا تاہم کچھ پہلوؤں پر تشویش کا اظہار کیا گیا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی ائیر لائنز کے لیے یورپ میں آپریٹ کرنے پر پابندی کا فیصلہ برقرار رہے گا۔

یورپی یونین نے کن بنیادوں پر پابندی عائد کی تھی ؟

یورپی یونین کی جانب سے پاکستانی ائیر لائنز پر پابندی کا فیصلہ یکم جولائی 2020 کو لیا گیا تھا۔

یوریی یونین کی جانب سے پابندی کے فیصلے کے پس پردہ اس وقت کے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا قومی اسمبلی میں دیا جانے والا بیان تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے پائلٹوں کو جاری کیے جانے والے لائسنس میں سے زیادہ تر لائسنس جعلی ہیں۔

یاد رہے اس وقت کے وزیر ہوا بازینے کراچی میں طیارے کے حادثے کے بعد یہ بیان دیا تھا۔

یوریی یونین کی جانب سے پابندی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سی اے اے کی جانب سے موثر نگرانی کے نظام میں کمزوری کی وجہ سے پاکستانی ائیر لائنز کے یورپ جانے پر پابندی عائد کی گئی۔

ایوی ایشن شعبے کے امور کے ماہر، افسر ملک نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’یورپی یونین کی جانب سے اس وقت کے وزیر ہوا بازی کے بیان کو سنجیدہ لیا گیا تھا اور پابندی لگا دی گئی تھی تاہم یہ ابتدا تھی کیونکہ اس کے بعد کہا گیا کہ ہم آڈٹ کریں گے۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی حکام اب تک یورپی یونین کے ادارے کو قائل نہیں کر پائے اس لیے اب تک پابندی نہیں اٹھ سکی۔‘

یورپی یونین نے کن اقدامات کے لیے کہا تھا؟

یورپی یونین کی جانب سے پاکستانی ائیر لائنز پر پابندی کے بعد اس کے ائیر سیفٹی کمیٹی کے حکام نے پاکستانی سی اے اے سے گذشتہ چند سالوں میں مختلف اوقات میں ملاقاتیں کیں اور آخری مرتبہ 14 مئی کو برسلز میں ائیر سیفٹی کمیٹی کے حکام سے ملاقات ہوئی تھی جس میں یورپ کے لیے پاکستانی ائیر لائنز کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔

یورپی یونین کی کمیٹی کے حکام نے گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں پاکستان میں ایوی ایشن کے شعبے میں حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

یورپی یونین کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ائیر لائنز کے حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

سنہ 2022 میں یوریی یونین کی کمیٹی کی جانب پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جہاز کے دوسرے عملے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہاں بھی ایسی صورتحال تو نہیں جیسا وزیر ہوا بازی نے پائلٹوں کے بارے میں کہا تھا۔ یوریی یونین کی جانب سے کیبن کریو، انجینیئرز اور ایئرکیرئیرز کے لائسنس کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یورپی کمیٹی کی جانب سے سی اے اے سے کہا گیا کہ وہ پائلٹ کے لائسنس کے لیے رہنما اصول اور طریقہ کار میں ترمیم کرے اور قانون سازی میں ایسی تبدیلی کی جائے جس میں نگرانی کرنے والوں کو کسی رکاوٹ کے بغیر کام کرنے کی آزادی حاصل ہو۔

کمیٹی نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق ائیر سیفٹیکے لیے مشاورت کے طریقہ کار میں بہتری کے لیے کام کیا جائے گا۔

پابندی اب تک کیوں نہیں ختم ہو سکی؟

یورپی یونین ائیر سیفٹی کمیٹی کے تازہ ترین فیصلے کے تحت پاکستانی ائیر لائنز پر یورپ جانے پر پابندی برقرار رہے گی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یہ پابندی کیوں برقرار رہے گی جب کہ پوریی یونین کمیٹی اور پاکستانی سی اے اے گذشتہ چند سالوں سے ائیر سیفٹی کے امور پر باہمی مشاورت اور کام کر رہے تھے۔

مئی 2024 میں سی اے اے نے ایک ایکشن پلان بھی جمع کرایا تھا جس میں ائیر سیفٹی کے اقدامات کا ذکر کیا گیا جو اس کی جانب سے لیے گئے ہیں۔ اس حوالے سےپاکستان سی اے اے کے ترجمان سے ان کا مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا، جن کا کہنا تھا کہ ’فی الحال قیاس آرائیوں پر توجہ نہ دی جائے اور اس سلسلے میں مستقبل میں اچھی خبر سننے کو ملے گی۔‘

سی اے اے کا یہ مختصر موقف صورتحال کو واضح نہیں کرتا تاہم یورپی کمشین کا آفیشل جرنل اس کے بارے میں کافی وضاحت بیان کرتا ہے۔

پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے بارے میں دستاویز کہتی ہے کہ نومبر 2023 میں پاکستان کے دورے کے دوران سی اے اے کی حفاظتی نگرانی کے کردار اور ذمہ داری پر توجہ دی گئی۔ سی اے اے عالمی حفاظتی اصولوں کو اپنانے کے بارے میں پرعزم ہے اور اس کے پاس تکنیکی اور پیشہ وارانہ عملہ موجود ہے۔

تاہم ادارے میں بہت سارے نقائص بھی پائے جاتے ہیں جیسے کہ ایگریمنٹ کے برخلاف جبری اور داخلی طور پر تصدیقی طریقہ کار میں خامیاں ہیں۔ سی اے اے کے نگرانی کے کردار میں سکروٹنی کرنے کے طریقہ کار میں کافی کمیاں پائی گئیں۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے دورے کے دوران فلائٹ سٹینڈرز ڈائریکٹوریٹ میں عملے کی بہت زیادہ کمی تھی جو سرٹیفکیشن اور حفاظتی اقدامات کی نگرانی کر سکے۔

کمیٹی نے کہا کہ پاکستان میں ائیر سیفٹی کی صورتحال پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے اور یہ کہ ممکنہ طور پر سی اے اے کو مستقبل میں ائیر سیفٹی کمیٹی کے برسلز میں اجلاس میں دعوت دی جائے۔

اس کی جانب سے حکومت پاکستان کی مسلسل حمایت کے لیے بھی کہا گیا ہے تاکہ سی اے اے کے اندر ایک قیادت کا استحکام آ سکے۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں فی الحال ایسی کوئی وجہ نہیں کہ اس پابندی کو اٹھایا جائے۔

پابندی سے پاکستانی ائیر لائنز کو کیسے نقصان ہوا؟

یورپی یونین ائیر سیفٹی کمیٹی کی جانب سے پاکستانی ائیر لائنز پر پابندی اور اس سے ان کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ایوی ایشن شعبے کے ماہر مبارک شاہ نے بتایا کہ ’اس پابندی کا نقصان پی آئی اے کو ہوا کیونکہ دوسری ائیر لائنز کے یورپ تک آپریشن نہیں تھے۔ باقی ائیر لائنز مشرق وسطیٰ تک آپریٹ کرتی ہیں تاہم پی آئی اے کے لیے یورپ کی فلائٹس ان کا بہت نفع بخش بزنس تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پی آئی اے کی پاکستان سے لندن کی براہ راست فلائٹ تھی جب کہ دوسری ائیر لائنز دوسرے ممالک سے ہو کر یورپ سے پاکستان آتی تھیں۔‘

انھوں نے کہ ’اسی طرح پی آئی اے کی فرانس اور جرمنی کے لیے بھی فلائٹس تھی جو اس کے منافع بخش روٹس تھے۔ یورپ اور برطانیہ میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد بستی ہے جو ڈائریکٹ فلائٹ کی وجہ سے پی آئی اے پر سفر کرنا پسند کرتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یورپی یونین کی پابندی کی وجہ سے پی آئی اے کو ان نفع بخش روٹ سے محرومی کے بعد کئی اربوں کا نقصان ہوا جو وہ ہر سال ان روٹس سے کماتی تھی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.