اگر پاکستان میں مہنگائی واقعی کم ہوئی ہے تو عام آدمی کے لیے صورتحال اب بھی پریشان کن کیوں؟

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون کے رہائشی منیر احمد نے حال ہی میں اپنا ایک کاروبار بند کر کے ایک دوست کے ساتھ مل کر دوسرا کام شروع کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں ابھی بھی مہنگائی کا سامنا ہے اور ان کی آمدن سکڑنے کے بعد ان کے لیے ابھی بھی گھریلو اخراجات چلانا مشکل ہے۔
پاکستان، مہنگائی
EPA

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون کے رہائشی منیر احمد نے حال ہی میں اپنا ایک کاروبار بند کر کے ایک دوست کے ساتھ مل کر دوسرا کام شروع کیا ہے۔

پانچ افراد کے کنبے کے واحد کفیل منیر شہر کے ایک معروف کاروباری علاقے شیر شاہ میں محدود پیمانے پر کاروبار کرتے تھے تاہم دو سال قبل ڈالر کی قدر میں اضافے اور بجلی کی قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ سے انھوں نے یہ کاروبار بند کر دیا تھا۔

منیر احمد کہتے ہیں کہ پہلے کاروبار کی نسبت نئے کاروبار میں ان کی آمدن کم ہے کیونکہ اس میں ان کے دوست بھی پارٹنر ہیں لیکن منیر احمد آمدن میں کمی کے ساتھ ساتھ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے بھی بہت زیادہ فکر مند ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس مہینے ان کا بجلی کا بل بیس ہزار روپے آیا جو گذشتہ برس کے اس مہینے میں گیارہ سے بارہ ہزار روپے کے درمیان تھا۔

وہ گذشتہ چند مہینوں سے گیس کے بل میں بہت زیادہ اضافے کی وجہ سے بھی پریشان ہیں، جو پہلے چند سو آتا تھا لیکن اب ڈھائی سے تین ہزار تک پہنچ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند مہینوں میں صرف انھیں گندم کی قیمت میں کمی دیکھنے کو ملی ورنہ دودھ، دہی، سبزیوں کے ساتھ بچوں کے سکول کی فیس اور علاج کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا۔

ان کے مطابق انھیں ابھی بھی مہنگائی کا سامنا ہے اور ان کی آمدن سکڑنے کے بعد ان کے لیے ابھی بھی گھریلو اخراجات چلانا مشکل ہوتا ہے۔

منیر احمد جیسے لاکھوں شہری مہنگائی سے پریشان ہیں لیکن دوسری ہی جانب پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ملک میں مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 11.8 فیصد تک گر گئی جو گذشتہ سال 38 فیصد تھی۔

یہ اعداد و شمار جاری ہونے سے پہلے اور بعد میں حکومتی وزیروں کی جانب سے بھی یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے جس میں تازہ ترین دعویٰ وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی جانب سے کیا گیا کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی۔

تو کیا پاکستان میں مہنگائی واقعی کم ہوئی، جس کی بنیاد پر ایک عام پاکستانی کو کوئی ریلیف ملا ہو؟

اس سلسلے میں ہم نے حکومتی اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین معیشت سے اس بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی۔

پاکستان میں مہنگائی
Getty Images

مہنگائی کی شرح میں کمی کا دعویٰ کن بنیادوں پر کیا گیا؟

پاکستان میں اشیائے ضرورت اور اجناس کی قیمتوں کا جائزہ وفاقی ادارہ شماریات لیتا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کی قیمتوں میں کمی یا اضافے کا تعین کرتا ہے۔

مئی کے مہینے میں اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے ادارے نے کہا کہ ملک میں کنزیومر پرائس انڈیکس (مہنگائی کی شرح ناپنے کا پیمانہ) مئی کے مہینے میں 11.8 فیصد رہا جبکہ گذشتہ سال مئی کے مہینے میں یہ 38 فیصد پر تھا۔

اس کے مطابق فوڈ انفلیشن (غذائی اشیا کی مہنگائی کا انڈیکس) میں سالانہ بنیادوں پر 0.2 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تاہم ہاؤسنگ اخراجات کے انڈیکس میں 33 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس کے علاوہ کپڑوں اور جوتوں پر ہونے والے اخراجات میں 18 فیصد، ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں 10.4، تعلیمی اخراجات میں 16 فیصد اور صحت پر اٹھنے والے اخراجات کے انڈیکس میں 19.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ پاشا نے بتایا کہ گذشتہ سال مئی کے مہینے میں کیونکہ مہنگائی بڑھنے کی شرح بہت اوپر تھی اور جب اس سے موازنہ کیا جاتا ہے، جسے ’ہائی بیسڈ ایفکٹ‘ کہتے ہیں تو اب مہنگائی بڑھنے کی شرح کم نظر آ رہی ہے۔

ایک سال میں بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں کیا فرق آیا؟

پاکستان میں وفاقی ادارہ شماریات نے مئی کے مہینے میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے روزمرہ کی 51 اشیا کی قیمتوں کا انڈیکس بھی جاری کیا گیا۔

ان 51 چیزوں میں دس کے قریب چیزوں کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی جبکہ چالیس کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس میں کھانے پینے اور گھر میں استعمال ہونے والی دوسری چیزوں کے علاوہ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں کا اس سال مئی کے مقابلے میں گذشتہ سال مئی سے موازنہ بھی کیا گیا۔

پچاس یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے گذشتہ سال مئی میں بجلی کی قیمت 6.15 روپے فی یونٹ تھی جو اس سال 6.87 روپے فی یونٹ تھی۔ (واضح رہے کہ پچاس یونٹ کی قیمت سب سے کم ہے تاہم 100 یونٹ، 200 یونٹ، 300 یونٹ اور اس سے اوپر بجلی کی قیمت فی یونٹ بڑھتی رہتی ہے۔)

گیس کی قیمت گذشتہ سال مئی میں 295 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تھی جو اس مئی میں 1976 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گئی اور ایسے یہ اضافہ 570 فیصد رہا۔

پیٹرول کی فی لیٹر قیمت گذشتہ سال مئی میں 276 روپے تھی جو اس سال مئی میں 280 روپے رہی، ڈیزل کی قیمت 273 روپے فی لیٹر تھی جو اس سال مئی میں 278 روپے فی لیٹر تھی تاہم ایل پی جی کی قیمت گذشتہ سال مئی میں 3277 روپے فی 11.8 کلو سیلنڈر تھی جو اس سال کم ہو کر 2877 رہی۔

پاکستان میں مہنگائی، بجلی کے بل
Getty Images

آٹے، دودھ، گوشت اور کھانے پینے کی دیگر اشیا میں کیا رجحان رہا؟

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گوشت (بیف) فی کلو کی قیمت گذشتہ سال مئی میں 752 روپے کلو تھی جو اس سال مئی میں 933 روپے فی کلو ہو گئی۔

بکرے کے گوشت کی قیمت گذشتہ سال مئی کے مئی میں 1595 روپے فی کلو تھی جو اس سال مئی میں 1877 روپے فی کلو ہو گئی تاہم چکن کی قیمت میں کمی دیکھی گئی جو گذشتہ سال مئی میں 435 روپے فی کلو تھی اور اس سال 347 روپے فیکلو ہو گئی۔

دودھ کی فی کلو قیمت گذشتہ سال 169 روہے تھی جو اس سال مئی میں 187 روپے ہو گئی جبکہ چینی کی قیمت گذشتہ سال مئی میں 119 روپے فی کلو سے بڑھ کر اس سال 143 روپے فی کلو ہو گئی۔

پیاز کی قیمت گذشتہ سال مئی میں 56 روپے کلو تھی جو اس سال 113 روپے کلو رہی جبکہ ٹماٹر گذشتہ سال مئی میں 42 روپے فی کلو تھے، جو اس سال 67 روپے فی کلو ہو گئے۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ سال مئی میں بیس کلو کے آٹے کے تھیلے کی قیمت 2696 تھی جو اس سال مئی میں 1907 ہو گئی۔ اس کے علاوہ گھی و تیل کے مختلف برانڈ کی قیمتوں میں اوسطاً ایک سال میں 10 فیصد کمی دیکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

تو کیا ملک میں واقعی مہنگائی کم ہوئی؟

مالیاتی امورکے ماہر یوسف سعید نے اس سلسلے میں بتایا کہ وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی ابھی بھی ہو رہی ہے تاہم جس طرح گذشتہ سال دیکھا گیا تھا کہ مہنگائی بہت تیزی سے اوپر گئی تھی اب ایسا نہیں ہوا۔

یوسف سعید نے بتایا کہ مہنگائی ہر دور میں بڑھتی رہی ہے اور معیشت کے اصولوں کے تحت اس میں اضافہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ مارکیٹ میں چیزوں کی ڈیمانڈ موجود ہے اور ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے چیزیں تیار کرنا پڑتی ہیں، جو معیشت میں گروتھ کو فروغ دیتی ہیں۔

’اگر انفلیشن نہ ہو تو اس کی مخالف چیز ’ڈی فلیشن‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ ڈیمانڈ ہی ختم ہو گئی تو گروتھ کہاں سے آئے گی۔‘

ماہر معیشت علی خضر نے بتایا کہ مہنگائی اگر پچھلے سال پچیس تیس فیصد کے حساب سے بڑھ رہی تھی تو اب اس کی رفتار 11.8 فیصد ہو گئی اور اب اس کا زور ٹوٹ گیا۔

پاکستان میں مہنگائی
Getty Images

عام آدمی کے لیے صورتحال ابھی بھی پریشان کن کیوں؟

ماہرین معیشت کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ابھی بھی عام فرد کے لیے صورتحال بہت پریشان کن ہے۔

اس بارے میں علی خضر نے بتایا کہ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ اگرچہ مہنگائی بڑھنے کی شرح میں تو کمی ہوئی تاہم دوسری جانب لوگوں کی آمدن میں اضافہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے موجودہ مہنگائی کی شرح بھی ان کے لیے پریشان کن ہے۔

پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اضافہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

علی خضر نے کہا کہ کیونکہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ نہیں ہوا اس لیے لوگوں کی آمدن بھی نہیں بڑھی جس کی وجہ سے مہنگائی کی رفتار میں کمی کے باوجود لوگ اب بھی فکر مند ہیں۔

ان کے مطابق اگلے ایک دو سال میں مشکل لگتا ہے کہ لوگوں کے معاشی مسائل حل ہو پائیں گے۔

یوسف سعید نے کہا کہ ملک میں گذشتہ دو سال میں غربت بڑھی، دوسری جانب جی ڈی پی گروتھ بھی کچھ خاص نہیں ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں کی آمدن بھی نہیں بڑھ پائی جبکہ دوسری جانب مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ پاشا نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں مارکیٹ میں پرائس کنٹرول نظام بھی کمزور ہو چکا اور اب مارکیٹ میں جا کر نرخوں پر عملدرآمد کے لیے حکومتی نظام غیر موثر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے اگر چیزوں کی قیمت میں کمی ہو بھی تو اس کا فائدہ عام آدمی کو نہیں پہنچ پاتا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.