پی ٹی آئی کا مذاکرات سے انکار اور پھر اقرار: یُو ٹرن یا نئی حکمت عملی

image
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے گذشتہ کئی روز سے پی ٹی آئی کی حکومت سے مذاکرات پر آمادگی کے بارے میں اطلاعات کی بالآخر تصدیق کر دی ہے۔

منگل کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی ہے۔

گوہر خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران نے اتحاد کی بنیاد پر محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ  ڈائیلاگ کرنے کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کرنے کو تیار ہیں اور وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو معاف کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے بھی گوہر خان کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ ’عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا، لیکن مذاکرات معنی خیز ہونے چاہیئں، ہمارے مذاکرات میں دو بنیادی نکات کے علاوہ کوئی اور چیز شامل نہیں ہے جس میں پہلا اسیران کی رہائی اور دوسرا مینڈیٹ کی واپسی۔‘

پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق عمران خان نے محمود اچکزئی کی دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے بات چیت کر سکتے ہیں چاہے وہ نواز شریف کی مسلم لیگ ن ہو یا کوئی اور۔

ان کی گفتگو کے بعد پھر جائزہ لیں گے کہ کیا بات چیت ہوئی ہے اور اس پر آگے کیا ہو گا۔

اگرچہ گذشتہ کئی دنوں سے یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ عمران خان مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے مشورے کے بعد گفتگو کا دروازہ کھولنے اور اس بارے میں سپریم کورٹ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم پی ٹی آئی کی قیادت اور ترجمان اس بات کی تردید کر رہے تھے۔

حقیقت یا افواہیں؟پیر کے روز بھی جب اس بارے میں معلومات سامنے آئیں تو پی ٹی آئی کے ترجمان روف حسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ مذاکرات کی باتیں من گھڑت افواہیں ہیں اور پی ٹی آئی نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی اس نوعیت کا کوئی فیصلہ ہو گا، اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے بات چیت پر آمادہ ہو گئی ہے۔ (فوٹو: گوہر خان ایکس) بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ رابطے کے لیے قائم کیے گئے ایک واٹس ایپ گروپ میں کچھ صحافیوں کے استفسار پر بھی پی ٹی آئی کی جانب سے ایک پیغام بھیجا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’جب اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان آئے گا تو ہم جاری کریں گے، تاہم اس بارے میں یہ بات بیان کرنا اہم ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ جائز سلوک کی یقین دہانی کے بغیر سیاسی مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘

’پی ٹی آئی کے رہنماوں اور کارکنوں کو ابھی بھی اغوا اور ہراساں کیا جا رہا ہے اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم بطور سیاسی جماعت اس طرح کے کسی عمل کو اس وقت تک معاف نہیں کر سکتے جب تک کہ اس طرح کے قانونی روئیے کو ختم نہ کیا جائے۔‘

پی ٹی آئی کے اندر مختلف آراتو کیا پاکستان تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر ’یو ٹرن‘ لے لیا ہے یا پھر اس کے رہنما پس پردہ ہونے والی پیشرفت پر پردہ ڈالنے کے لیے مذاکرات نہ کرنے کے بارے میں جھوٹی بیان بازی کر رہے تھے؟ یا کیا پی ٹی آئی آج محمود اچکزئی کی مذاکرات پر آمادگی سے بھی جلد پیچھے ہٹ جائے گی؟

اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز سے بار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے بات چیت پر آمادہ ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے اس بارے میں متضاد آرا ٗ اس لیے آتی رہی ہیں کیونکہ اس پارٹی کے اندر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے کہ مذاکرات کرنے ہیں یا نہیں اور کس سے کرنے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر مختلف طبقے مختلف موقف کے حامی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ بیرسٹر گوہر نے ڈیل نہ کرنے کی بات کر کے اشارہ دیا ہے کہ یہ بات چیت حکومت سے ہو سکتی ہے، تاہم یہ تاحال واضح نہیں ہے اور ہمیں اس کی وضاحت کے لیے مزید انتظار کی ضرورت ہے۔‘

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’محمود اچکزئی کے دوست ن لیگ اور پی پی پی دنوں میں ہیں اور وہ ان سے انتخابات کے متعلق بات چیت کر سکتے ہیں۔ ابھی دیکھنا ہے کہ اس معاملے پر مزید کیا سامنے آتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.