گرمی پرانے طرزِ تعمیر اور دیسی ٹوٹکوں سے ختم نہیں ہوگی: عامر خاکوانی کا کالم

image
میرا تعلق ایک چھوٹے شہراحمد پور شرقیہ سے ہے۔ ہمارا لڑکپن اور کالج کا دور (93، 92-1984) سمجھ لیں۔ پی ٹی وی کے زمانے کی نسل، جہاں رات آٹھ بجے سب گھر والے ڈرامہ، بڑے نو بجے کا خبرنامہ دیکھتے سنتے اور پھر ایک طرح سے ٹی وی آف ہو جاتا، کیونکہ آخری ایک دو گھنٹوں میں انتہائی بور پروگرام آتے۔ کبھی اسمبلی سیشن کی رپورٹ آتی یا معیشت پر کچھ کبھی کلاسیکل میوزک لگ جاتا جس کی ابھی تک خاص سمجھ نہیں، تب تو کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔

ہمارے ہاں گرمیاں بہت سخت اور مشکل ہوا کرتیں۔ جنوبی پنجاب کے بیشتر شہروں میں ٹمپریچر 45، 44 ڈگری سنٹی گریڈ ہو جایا کرتا تھا۔ آج کل تو یہ 48، 47 ڈگری تک چلا جاتا ہے۔ اے سی تب خال تھے، روم کولر بھی برائے نام۔

اکثر گھروں میں کشادہ صحن ہوتے۔ گرمیوں کی شام ڈھلتے ہی لڑکے بالے صحن میں پانی کا چھڑکاﺅ کر کے چارپائیاں باہر نکال کر بچھا دیتے۔ پائنتی کی طرف جسے ہم سرائیکی میں پراندھی کہتے ہیں، وہاں دوہری چادر یا کھیس بچھا دیا جاتا تاکہ چبھ نہ سکے۔ ہفتے میں ایک دو بار ہمیں اپنا زور اسی ادھوانڑی پر صرف کر کے چارپائی کو کسنا پڑتا ورنہ وہ جھلنگا بن جاتی۔ بچے ویسے اسی طرح کی جھلنگا سی جھولا بنی چارپائی پسند کرتے۔ بہت بعد میں کسی رسالے میں پڑھا کہ اردو کی نامور افسانہ نگار عصمت چغتائی ایسے جھلنگا پلنگ پر لیٹ کر لکھنا پسند کرتی تھیں۔

اکثر قطار میں چارپائیاں بچھائی جاتیں اور ایک پیڈسٹل فین ہی سے گرمی کا توڑ کیا جاتا۔ بچوں میں لڑائی ہوتی کہ پنکھے کے قریب کون سوئے گا؟ جس کی چارپائی آخر میں ہوتی وہ بے چارہ تنگ ہوتا۔ اکثر گھرانوں میں ماں باپ ہی یہ قربانی دیتے۔ جب تک گھروں میں فریج عام نہیں ہوئے تھے تب تک ٹھنڈے پانی کا واحد ذریعہ مٹی کا گھڑا تھا۔ کچھ صاحبانِ ذوق ہر گرمیوں میں نئے کورے گھڑے خریدتے کہ ان کی ٹھنڈک بہتر ہوتی، باقی جگہوں پر پرانے گھڑوں کو ہی مانجھ کر کام چلا لیا جاتا۔

لاہور اور سینٹرل پنجاب کاعلم نہیں البتہ جنوبی پنجاب کے اکثر شہروں میں رات نسبتاً خنک اور خوشگوار ہوتی ہے۔ شاید ریتلے صحرائی علاقے کی مناسبت سے۔ تاہم سخت گرمیوں کی راتیں بھی کتنی خنک ہوں گی؟ پھر ساون، بھادوں کے خوفناک حبس والے مہینے بھی آتے جب سانس لینا تک دوبھر ہو جاتا۔ پڑھائی کرنے والے بچوں کا یہ مسئلہ ہوتا کہ صحن میں بتی جلانے سے باقیوں کی نیند خراب ہو گی تو اندر حبس آلود گرم کمروں میں پنکھا چلا کر پڑھائی کرنا پڑتی، تب گھڑوں پسینہ بہتا۔

مئی کی شدید جھلسا دینے والی لو میں فالسے، کیری کے شربت، پتلی لسی، ستو وغیرہ پی کر اور ٹھنڈی سبزیاں کھا کر ہم سمجھتے کہ گرمی کا توڑ کر لیا۔ (فوٹو: این ڈی ٹی وی)گرمی کے توڑ کے لیے ہی گھروں میں ناشتہ اور دوپہر کے کھانے میں دہی کی پتلی لسی عام ہوتی جسے ہمارے ہاں کنگا لسی کہا جاتا۔ ہمارے بزرگوں کا خیال تھا کہ لسی جتنی زیادہ پتلی یعنی کنگا ہو گی، اتنی ہی زیادہ مفید ہے۔ (اس افادیت کے چکر میں بے شک ذائقے اور لذت کا بیڑہ غرق ہو جائے۔) رات کو البتہ دودھ کی میٹھی لسی یا اگر آم کھانے میں استعمال ہوئے تو دودھ کی کچی لسی پی جاتی۔ ہمارے گھر میں ستو کے شربت کا بھی عام رواج تھا۔ گرمیوں میں اکثر عصر کے بعد یا رمضان کے دنوں میں افطار میں فالسے کا شربت یا باداموں کی سردائی کا بھی رواج تھا، جس میں اہتمام سے ٹھنڈک کے لیے خشخاس ڈالا جاتا۔ وہی تصور کہ ٹھنڈے مشروبات ہیں اور گرمی کی شدت کم ہو گی۔

گرمیوں میں گوشت کے ساتھ کدو، ٹینڈے جیسی سبزی بطور التزام ڈالی جاتی اور شوربہ پتلا ہوتا۔ پھر وہی فلسفہ کہ یہ ٹھنڈی سبزیاں ہیں۔ گھیا توری البتہ سادہ بنتی۔ ہمارے پٹھان گھروں میں بینگن کا سالن بھی دہی کے ساتھ بنتا، اسے ہم بُریانی کہتے، یہ لاہور میں کبھی نہیں کھائی، البتہ ترکی میں ایک جگہ ملی تھی۔ دہی اس لیے کہ تصور تھا بینگن گرم ہیں۔ میری والدہ کا خیال تھا کہ مسر بھی گرم ہوتے ہیں۔ اس لیے دالوں کی یہ قسم ہمارے گھر شاذ ہی بنی۔ البتہ لاہور آیا تو پتہ چلا کہ ہوٹلوں وغیرہ میں ابلے چاول کے ساتھ مسر عام ہیں، تب سے یہ میرے فیورٹ بن گئے۔

ہمارے سرائیکی پٹھان گھرانوں میں تڑکے والی دہی بنا کرتی تھی۔ کبھی اس میں سبز مرچیں بھی توے پر گھی میں تل کر شامل کر دی جاتیں۔ بہت بعد میں ایک خٹک دوست کی فیملی میں اسے ’دہی سرا‘ کے نام سے پکارتے سنا۔ ہم تو تڑکے والی دہی کہتے۔ جی ہاں سرائیکی میں دہی مذکر نہیں مونث ہے۔ دہی میں پیاز ڈال دیے جاتے تو اسے مٹھہ یا مٹھا کہا جاتا۔ سرائیکیوں میں سادہ دہی کے بجائے اس میں پیاز ڈال کر مٹھا بنانے کا عام رواج ہے۔

یہ سب ٹوٹکے اور پرانی دیسی چیزوں کے ہتھکنڈے اس بے پناہ تپش یا اگست، ستمبر کی شدید حبس والی گرمیوں کے لیے زیادہ کارآمد نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)یہ سب گرمی بھگانے کے نسخے تھے۔ مئی کی شدید جھلسا دینے والی لو میں فالسے، کیری کے شربت، پتلی لسی، ستو وغیرہ پی کر اور ٹھنڈی سبزیاں کھا کر ہم سمجھتے کہ گرمی کا توڑ کر لیا۔ کیا واقعی ایسا ہو جاتا؟ تب تو ہم لڑکے تھے، کھیل کود میں مست رہتے، رسالے کتابیں پڑھتے رہتے، کبھی ان چیزوں پر غور نہیں کیا تھا۔ آج البتہ ماضی کی طرف دیکھوں تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ نہیں یار، گرمی ختم نہیں ہوتی تھی، بس دل کچھ بہل جاتا تھا۔

ان تمام چیزوں کی اپنی افادیت ہو گی، میں ہرگز انکار نہیں کرتا۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ گرمی کی شدت نے ہر ایک کو بری طرح متاثر کر رکھا تھا۔ ہر ایک بولائے بولائے پھرتا۔ میرے والد مرحوم سرخ وسفید آدمی تھے، گرمیوں میں ان کی کمر سرخ گرمی دانوں سے بھر جاتی، اسے ہم سرائیکی میں پِت کہتے ہیں۔ یوں لگتا جیسے انہیں دہکتے انگاروں پر لیٹنا پڑا تھا۔ گھر میں ململ کا کرتا پہنتے اور بہت بار صرف تہمد پہن کر سو جاتے۔ کسی دوست کے مشورے سے ایک خاص قسم کا کھجور کی چھال سے بنا مصلا یا پڑچھا منگوایا تھا، اسے ان کی چارپائی پر بچھا دیا جاتا اور سونے سے پہلے ہم لڑکے گھڑے کے ٹھنڈے پانی سے اس پڑچھے پر ترکاﺅ لگا دیتے۔ یوں وہ پیڈسٹل فین کی قدرے تپش والی ہوا میں سو پاتے۔

گرمی دانوں یا پِت کا مسئلہ میرے ساتھ بھی شدید تھا۔ لاہور صحافت کرنے آیا تو یہاں یہ مسئلہ کہ بیشتر کرایے کے گھروں میں صحن نہ ہوتا اور اوپر کا پورشن چھت کے لیے لیا جائے تو دھوپ کی تپش بے پناہ ہوتی۔ یوں مجبور ہو کر بغیر صحن کے گھروں میں کمرے میں ہی سونا پڑتا۔ کولر لگا لیتے مگر جولائی اگست کے حبس میں یہ حال ہو جاتا کہ آدھی رات کو اٹھ کر نہانا پڑ جائے۔ کمر گرمی دانوں سے بھری ہوتی۔ اس کے لیے تب تو ایک خاص ہیٹ پاﺅڈر تھا بعد میں ایک عدد کریم بھی آ گئی۔ اسے کمر پر لگایا جاتا تو پہلے جلن اور پھر ٹھنڈک سی محسوس ہوتی، مگر کب تک؟

متحدہ عرب امارات کے لوگوں نے خوفناک گرمی میں آرام اور سکون سے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا۔ (فوٹو: سکائی نیوز)میں نے ایئر کنڈیشنر 2005 میں لیا، تب شوکت عزیز نے بنکوں کی لیزنگ سکیمیں شروع کرائیں تو ہمارے جیسے صحافیوں کو بھی ایئر کنڈیشنر، مائیکرو ویو اوون اور ڈرائیر والی واشنگ مشین قسطوں پر خریدنے کا موقع ملا۔ تب مغلپورہ، گنج بازار کے ایک مکان میں نچلا پورشن لے رکھا تھا۔ ایک کمرہ بیٹھک کی طرز پر تھا، یعنی اس کا ایک دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا۔ ہم نے اسے اپنا ڈرائنگ روم قرار دیا اور گرمیوں میں وہاں فرشی نشست بنا دیتے۔ وہاں پر اے سی لگا دیا۔ بڑے دونوں بچے چھوٹے تھے، سب وہیں پر سو جاتے۔ مجھے پانچ سات دن کے بعد کسی بچے نے شائد توجہ دلائی کہ بابا آپ کے کمر پر دانے تو غائب ہو گئے ہیں۔ ہیں، واقعی؟ بات درست نکلی۔ معلوم ہوا کہ وہ گرمی دانے جو زندگی کے 30 31 سال ہر گرمی میں زندگی کا لازمی جز ہوتے تھے، اے سی میں گزری پانچ سات راتوں نے ان سرخ دہکتے ہوئے گرمی دانوں کا نشان تک مٹا دیا۔

جی حضور والا! یہ ہوتا ہے گرمی کا خاتمہ۔ باقی سب باتیں ہیں، جتنی مرضی کرا لو۔

آج ایک بڑی ویب سائٹ پر پرانے طرز تعمیر اور گرمی کے توڑ کے حوالے سے مضمون پڑھ کر یہ سب یاد آیا۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ ہمارا پرانا طرز تعمیر بہتر تھا۔ بے شک کھلے ہوادار گھر ہونے چاہییں، صحن، دالان، روشن دان والے کمرے، دونوں سائیڈوں میں گیلری ہو۔ کپڑے ڈھیلے ڈھالے ہوں، ململ کے کرتے بغیر آستین والی بنیان کے ساتھ پہنے جائیں، پاﺅں میں کھلی سینڈل نما جوتی ہو، بوٹ اور جرابوں سے گرمی بڑھتی ہے۔ یہ بھی درست کہ گرمیوں میں ٹھنڈی سبزیاں کھانی چاہییں، لسی، ستو، فالسے، کیری اور املی آلو بخارہ، صندل کے شربت ہوں، تخم بالنگا ہو، سردائی وغیرہ بھی۔ سب سے بڑھ کر درخت لگائے جائیں، ہر جگہ ہریالی ہو۔

سرائیکی پٹھان گھرانوں میں تڑکے والی دہی بنا کرتی تھی۔ (فائل فوٹو: کک پیڈ)یہ سب اپنی جگہ اہم اور مفید ہیں اور ہوں گے، یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ 44، 45، 46 یا 49 50 ڈگری سینٹی گریڈ ٹمپریچر خوفناک اور ناقابل برداشت ہے۔ یہ سب ٹوٹکے اور پرانی دیسی چیزوں کے ہتھکنڈے اس بے پناہ تپش یا اگست، ستمبر کی شدید حبس والی گرمیوں کے لیے زیادہ کارآمد نہیں۔ پہلے اگر لوگ یہ کرتے تھے تو اس لیے کہ ان کے پاس آپشن نہیں تھی۔ وہ جی تو رہے تھے کہ انسان ہر حال میں جی لیتا ہے، مگر ان کی زندگیاں بڑی کٹھن اور تکلیف دہ تھیں۔

عرب امارات ہم سے بہت زیادہ دور نہیں۔ بہت سوں کو وہاں جانے کا موقع ملا ہو گا۔ وہاں گرمی یہاں سے بہت زیادہ پڑتی ہے اور اس کا عرصہ بھی طویل ہے۔ صحرا جو ہوا۔ دوبئی، ابوظہبی کے لوگوں کا طرززندگی مگر کیسا ہے؟ اس خوفناک گرمی میں انہوں نے آرام اور سکون سے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا۔ سستی بجلی کے ذرائع وہ استعمال کر رہے ہیں، ہر جگہ ایرکنڈیشنڈ عمارتیں۔ گھروں، دفاتر، دکانوں، بزنس ٹاورز غرض ہر جگہ آپ کو ائیرکنڈیشنر ملے گا، پبلک ٹرانسپورٹ، بس، ٹرین ہر جگہ ایک سا ٹھنڈا یخ ٹمپریچر۔

میری باتیں ممکن ہے آپ میں سے بہت سوں کو ناگوار گزریں، مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر علاقوں کا ٹمپریچر چھ مہینے ایسا رہتا ہے کہ وہاں رہنا شدید تکلیف دہ ہے۔ جب جدید چیزیں نہیں آئی تھیں، تب مجبوری تھی۔ سہولت آ گئی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ہمیں پچھلے 20 25 برسوں سے اس پر فوکس کرنا چاہیے تھا کہ کس طرح سستی بجلی پیدا ہو سکتی ہے اور کیسے لوگ سستے داموں ایرکنڈیشنر خرید کر اپنی اور اپنی معصوم بچوں کی زندگی گلزار بنا سکیں۔ بڑے ڈیم بنانے چاہیے تھے تاکہ ہزاروں میگا واٹ بجلی سستی بن سکے۔ کالا باغ ڈیم اگر متنازع ہو چکا تھا تو اس منصوبے کو بیس تیس سال کے لیے فریز کر دیتے اور تب تک بھاشا ڈیم بنا لیتے۔ اگر جنرل مشرف کے دور میں یہ شروع ہو جاتا تو کب کا بن چکا ہوتا۔ اس سے ہمیں 4500 میگاواٹ بجلی مل جاتی۔

ہمیں سولر اور ونڈ انرجی پر بھی فوکس کرنا چاہیے تھا۔ (فائل فوٹو: جسٹ انرجی)بھاشا کے بننے کے بعد بونجی کا ’رن آف ریور‘ ڈیم آسانی سے بن جائے گا، جس سے سات ہزار میگاواٹ نہایت سستی بجلی ملنی ہے۔ یہ داسو، مہمند ڈیم وغیرہ بھی بیس سال پہلے بننے چاہیے تھے جب پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور باہر سے امداد بھی آ رہی تھی۔

ہمیں سولر اور ونڈ انرجی پر بھی فوکس کرنا چاہیے تھا۔ اب ہم نے آزما کر دیکھ لیا ہے کہ اگر کسی طرح کچھ بیچ کر، قرض لے کر درمیانہ سا سولر سیٹ اپ لگا لیا جائے تو بڑی حد تک بجلی کے بل سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور اے سی عیاشی نہیں بلکہ روٹین بن جائے گا۔ افسوس کہ حکومتیں اب اس پر بھی ٹیکس لگانے کے درپے ہیں۔

اس وقت ضرورت اس کی ہے کہ فرنس آئل پر چلنے والے مہنگے پلانٹس سے کسی طرح جان چھڑائی جائے اور کیپسیٹی چارجز والے معاہدوں پر نظرثانی ہو۔ اس کے بعد حکومتیں سولر سیٹ اپ کے لیے آسان قرضے دیں یا اس کی لیز پر سہولت ملے۔ اس کے ساتھ درخت بھی لگیں اور ہر نئی سوسائٹی کے ساتھ پارک بھی لازمی ہو۔ ہماری آنے والی نسل کے لیے گرمیوں کے معنی ہی بدل جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.