روس کے ضبط شدہ اثاثوں سے یوکرین کے لیے 50 ارب ڈالر کی امداد، ماسکو کی ’انتہائی تکلیف دہ‘ اقدامات کی دھمکی

جی سیون ممالک کی تنظیم نے یوکرین کی مدد کے لیے روس کے 50 ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کو استعمال کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ اسے روسی افواج کے خلاف لڑائی میں استعمال کیا جا سکے۔ ماسکو نے اس کے جواب میں ’انتہائی تکلیف دہ‘ جوابی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔

جی سیون ممالک کی تنظیم نے یوکرین کی مدد کے لیے روس کے 50 ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں کو استعمال کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ اسے روسی افواج کے خلاف لڑائی میں استعمال کیا جا سکے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ یہ روس کو ایک اور یاد دہانی ہے کہ ’ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے‘ لیکن ماسکو نے اس کے جواب میں ’انتہائی تکلیف دہ‘ جوابی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔

یہ رقم شاید رواں سال میں نہ مل سکے تاہم اسے یوکرین کی جنگ اور معیشت کی بحالی کے لیے ایک طویل مدتی حل قرار دیا جا رہا ہے۔

اٹلی میں ہونے والے جی سیون سربراہ اجلاس میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر بائیڈن نے یوکرین اور امریکہ کے درمیان 10 سالہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے، جسے کیئو نے ’تاریخی‘ قرار دیا۔

اس معاہدے میں یوکرین کو امریکی فوجی اور تربیتی امداد دینے کا ارادہ کیا گیا ہے لیکن اس میں واشنگٹن کی جانب سےلڑنے کے لیے فوج بھیجنے کا وعدہ شامل نہیں ہے۔

سنہ 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد جی سیون نے یورپی یونین کے ساتھ مل کر 325 ارب ڈالر مالیت کے اثاثے منجمد کر دیے تھے۔ اثاثوں کے ذخیرے سے سالانہ تقریباً تین ارب ڈالر کی شرح سود حاصل ہو رہی ہے۔

جی سیون منصوبے کے تحت یہ تین ارب ڈالر یوکرین کے شہریوں کے لیے بین الاقوامی منڈیوں سے لیے گئے 50 ارب ڈالر کے قرض پر سالانہ سود کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ ’یہ رقم یوکرین کے لیے کام آئے گی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کو ایک اور یاد دہانی کرائی جائے گی کہ ہم پیچھے نہیں ہٹ رہے۔‘

امریکی صدر نے زور دے کر کہا کہ’ہم محض تماشا نہیں دیکھ سکتے، وہ ہمیں تقسیم نہیں کر سکتے اور ہم اس وقت تک یوکرین کے ساتھ رہیں گے جب تک وہ اس جنگ میں کامیاب نہیں ہو جاتے‘۔

صدر زیلنسکی نے غیر متزلزل حمایت کے لیےامریکہ اور دیگر اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا۔

نئے سکیورٹی معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا: کہ ’یہ واقعی ایک تاریخی دن ہے اور ہم نے اپنی آزادی (1991) کے بعد سے یوکرین اور امریکہ کے درمیان سب سے ٹھوس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔‘

دنیا کے سب سے طاقتور سات ممالک پر مشتمل جی سیون گروپ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ یوکرین کے اہم مالی اور عسکری حامی رہے ہیں کیونکہ وہ روسی افواجکے قبضے کے خلاف لڑ رہا ہے۔

جی سیون کے دیگر رہنماؤں نے بھی 50 ارب ڈالر کے قرضے کے معاہدے کو سراہا اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے اسے’گیم چینجنگ‘ قرار دیا۔

50 ارب ڈالر کا یہ قرض ایک بڑی رقم ہے۔ اس سے پہلے 61 ارب ڈالر مالیت کی امریکی فوجی امداد پر مئی میں اتفاق کیا گیا تھا۔

یوکرین کے لیے 61 ارب ڈالر امداد کیا معنی رکھتی ہے؟

کیئو میں موجود کچھ لوگ جو اس نقد رقم کے حصول پر زور دے رہے تھے، وہ یہ چاہتے تھے کہ جی سیون 300 ارب ڈالر کا پورا منجمد فنڈ جاری کرے۔ تاہم یورپی مرکزی بینک نے اس سے انکار کیا تھا۔

امریکی امدادی پیکج کے برعکس، جسسے فرنٹ لائن پر بھیجے جانے والے مزید میزائل فراہم ہوتے یہ رقم ممکنہ طور رواں سال نہیں ملے گی جس کا مطلب ہے کہ اس کا جنگ کی موجودہصورتحال پر بہت کم اثر پڑے گا۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ اسے اب بھی مزید ہتھیاروں کی اشد ضرورت ہے جن میں بنیادی طور پر فضائی دفاعی نظام شامل ہے تاکہ اس کے شہروں اور بجلی گھروں پر روس کے میزائل اور ڈرون حملوں کو روکا جا سکے۔

جی سیون سربراہ اجلاس کے موقع پر زیلنسکی نے کہا کہ نئے سکیورٹی معاہدے میں ان جنگی طیاروں کی امریکی کھیپ بھی شامل ہے۔

قرض کا معاہدہ یوکرین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسپر حملہ کرنے والے ملک کو اب نہ صرف اس تباہی کی مرمت کے لیے بلکہ یوکرین کو اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

زیلنسکی کے قریبی مشیروں میں سے ایک نے کہا ہے کہ مغرب کا روس کو اس طرح سزا دینے کا فیصلہ ایک لحاظ سے جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔

تاہم، اس قرض سے یہ امکان ہر گز نہیں کہ روس یوکرین کی جنگ سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ روس کے مرکزی بینک کے منجمد کیے گئے زیادہ تر اثاثے بیلجیئم میں رکھے گئے ہیں۔

بین الاقوامی قانون کے تحت یہ ممالک روس سے ان اثاثوں کو ضبط کرکے یوکرین کو نہیں دے سکتے۔ جی سیون کے فیصلے کے اعلان سے چند گھنٹے قبل روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے خبردار کیا تھا کہ جوابی اقدامات ’انتہائی تکلیف دہ‘ ہوں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.