ہمیں مل کر اسٹیبلشمنٹ اور اس کی مداخلت سے جان چھڑانی ہے: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

image
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا ہے کہ ’ہمیں مل کر اسٹیبلشمنٹ اور اس کی مداخلت سے جان چھڑانی ہے۔‘

جمعے کو راولپنڈی بار میں تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس ملک شہزاد احمد کا کہنا تھا ہماری عدلیہ بغیر کسی ڈر، خوف اور لالچ کے فرائض انجام دے رہی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ عدلیہ سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ جلد ہو گا۔

’ہماری عدلیہ جو آج جدوجہد کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے جان چھڑانی ہے۔ اسٹیبشلمنٹ کی مداخلت سے جان چھڑانی ہے اس کا مقابلہ ہم سب نے دلیری سے کرنا ہے، جرات اور بغیر کسی خوف کے کرنا ہے اور اس ایمان کے ساتھ کرنا ہے کہ یہ مداخلت جلد ختم ہو کر رہے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کسی سے بھی ڈرنا نہیں چاہیے۔  ’وقتی پریشانیاں ضرور آتی ہیں لیکن آپ نے ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنا کرنا ہے۔ ان کی کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہونا۔‘

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ وہ سنہ 2007 میں اپنے گھر سے اکیلے نکلے تھے اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ آٹھ اکتوبر 1958 کے بعد کسی بھی سول حکومت کا اتنا طویل دور نہیں رہا اور عدلیہ تحریک اور وکیلوں کی جدوجہد نے مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔  

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ مولوی تمیزالدین کے کیس سے شروع ہوا اور آج تک یہ جاری ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آج بھی عدلیہ میں مداخلت سے متعلق شکایات آتی ہیں جس میں مختلف ادارے ملوث ہیں۔

جج جسٹس بابر ستار نے عدالتی عمل میں مداخلت سے متعلق چیف جسٹس عامر فاروق کے نام خط لکھا تھا۔ (فوٹو: آئی ایچ سی)

مبینہ مداخلت پر جسٹس بابر ستار کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط

اس سے قبل بھی عدلیہ میں مبینہ مداخلت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے عدالتی عمل میں مداخلت سے متعلق چیف جسٹس عامر فاروق کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے ایک کیس کے سلسلے میں پیغام دیا گیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔‘

تاہم جسٹس بابر ستار کا خط سامنے آنے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا تھا کہ ’حکومت یا کوئی بھی ریاستی ادارہ عدلیہ کے عمل میں مداخلت کر سکتا ہے اور نہ کرتا ہے۔‘

26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت چھ ججز نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ ڈال کر اثرانداز ہونے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ نے چھ ججز کے خط پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ 

سپریم کورٹ نے سٹیک ہولڈرز اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے رائے مانگی تھی اور جوابات جمع کرانے کا کہا تھا۔

متعلقہ سٹیک ہولڈرز نے سپریم کو اپنے جوابات جمع کرا دیے ہیں اور اب کیس کی مزید سماعت کا انتظار ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.