ساہیوال ہسپتال میں آتشزدگی سے 11 بچوں کی ہلاکت: انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے ڈاکٹروں کی ’گرفتاری اور پھر رہائی‘

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں آتشزدگی کے واقعے میں نومولود بچوں کی ہلاکت کی انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے ڈاکٹروں کو کوتاہی برتنے پر ملازمتوں سے برخاست کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم دیا تاہم انھیں گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد رہا کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں آتشزدگی کے واقعے میں نومولود بچوں کی ہلاکت کی انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے ڈاکٹروں کو کوتاہی برتنے پر ملازمتوں سے برخاست کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم دیا تاہم انھیں گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد رہا کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے جمعے کے روز ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کا دورہ کیا اور اس واقعے سے متعلق ایک طویل اجلاس کی سربراہی کی جس کے بعد انھوں نے ٹیچنگ ہسپتال کے پرنسپل، ایم ایس، اے ایم ایس اور ایڈمن افسر کو ملازمتوں سے برخاست کرنے اور گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔

پنجاب حکومت کی ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری کے مطابق ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں آتشزدگی کے واقعے کی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 11 بچے ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ آٹھ جون کو ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ کی نرسری میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں بچوں کی مبینہ ہلاکت کی خبریں سامنے آئی تھی۔ اس وقت ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر فرخ شہزاد نے موقف اپنایا تھا کہ’نرسری وارڈ میں لگے ایئر کنڈیشنر میں شارٹ سرکٹ‘ کی وجہ سہ آگ لگی تھی جس کے بعد وارڈ میں موجود بچوں کو پہلے ہسپتال کی ایمرجنسی اور پھر بچوں کے سرجری وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔ ہسپتال انتظامیہ نے اس واقعے پر بچوں کی مبینہ ہلاکت کی خبروں کی تردید کی تھی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے دورے پر انکوائری رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’بچوں کی اموات دم گھٹنے سے ہوئی اور رپورٹ میں سب اچھا لکھا گیا۔‘

پنجاب حکومت کی ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ہسپتال کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کیا ہے اور اپنی انکوائری کروائی ہے۔ جس میں انھوں نے حکم دیا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کے تین افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔‘

عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعلیٰ پنجاب نے حکم دیا ہے کہ نااہلی کے مرتکب ڈاکٹروں کے لائنس بھی منسوخ کیے جائیں اور اس کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔‘

عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ مریم نواز شریف نے ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین سے خود معذرت کی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’آگ لگی تو آگ بجھانے والے آلات کیوں نہیں لائے گئے۔‘

انکوائری رپورٹ میں کیا ہے؟

عظمی بخاری کے مطابق ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال میں بچوں کے وارڈ میں آتشزدگی کی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آگ بجھانے والے آلات اپریل سے زائد المعیاد ہو چکے تھے جن کو حکام کو مطلع کیے جانے کے باوجود تبدیل نہیں کیا گیا۔‘

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’ہسپتال میں آگ بجھانے والے آلات ڈیکوریشن پیس کے طور پر لگائے گئے۔ ان کو ہنگامی صورتحال میں استعمال کرنے کوئی مشق نہیں ہوئی اور ہسپتال عملے میں سے کسی کو ان آلات کو استعمال کرنا نہیں آتا۔‘

’ڈاکٹروں کی گرفتاری اور رہائی‘

ساہیوال پولیس ترجمان کے مطابق انھوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر واقعے کے چاروں ذمہ داران کو حراست میں لیا تھا مگر بعدازاں ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ مذاکرات اور چاروں افسران کی جانب سے تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے۔

ساہیوال پولیس ترجمان کے مطابق انکوائری رپورٹ کے نتیجے میں مقدمہ درج کیا جائے گا جس کی ہدایات وزیر اعلیٰ ہاوس سے آنا ہیں۔

صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے مطابق بھی ہسپتال ایم ایس اور دیگر کو صرف انکوائری کے لیے کچھ دیر حراست میں رکھا گیا تھا جس کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے۔

ہسپتال انتظامیہ کا کیا کہنا تھا؟

ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس پروفسیر ڈاکٹر اختر محبوب رانا نے واقعہ کے فوری بعد بی بی سی کب بتایا تھا کہ ’جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا بچوں کو فوری طور پر گائنی، بچوں کے سرجری وارڈ اور ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کرکے ان کو آکسیجن فراہم کی گئی تھی۔‘

ڈاکٹر اختر محبوب رانا کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال اور وارڈ میں آگ بجھانے کے آلات موجود تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان آگ بجھانے کے آلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا شاید افراتفری میں یہ کسی کو خیال ہی نہیں آیا ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدرت کی طرف سے تھا کہ موقع پر ایک ریسیکو اہلکار موجود تھا جبکہ ہمارے اپنے سٹاف اورریسیکو اہلکار نے فی الفور ایکشن لیا اوربچوں کو محفوظ کیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’شور شرابہ سُن کر میں وارڈ کی جانب بھاگا‘

ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں سنیچر کے روز جب یہ آگ لگی اُس وقت ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار محمد ارسلان ایک مریض بچے کو وہاں سے لاہور منتقل کرنے کے لیے نرسری وارڈ کے باہر موجود تھے۔

محمد ارسلان کہتے ہیں کہ ’میں نرسری وارڈ کے مرکزی دروازے پر کھڑا تھا کہ اچانک سے لوگوں کے چیخنے اور مدد کے لیے پکارنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگ وارڈ سے باہر کی جانب بھاگ رہے تھے اور میں وارڈ کی جانب سے دکھائی دینے والے دھوئیں کو دیکھ کر اُس جانب بھاگا۔‘

محمد ارسلان کا کہنا تھا کہ ’وارڈ کے اندر چیخ و پکار تھی لوگ افراتفری کے عالم میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے جبکہ میں اپنے موبائل کی روشنی میں بچوں کو وارڈ سے باہر نکال رہا تھا۔ ابھی یہ سب جاری تھا کہ ریسکیو 1122 کے مزید اہلکار بھی پہنچ گئی اور آگ بجھانے اور بچوں کو بچانے میں مصروف ہو گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وارڈ میں دھواں اس قدر شدید تھا کہ اندر کھڑا رہنا نامُمکن دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے موبائل کی لائٹ جلائی اور بچوں کی جانب بڑھا۔۔۔ بڑی کوشش کے بعد میں نے اُس وارڈ سے اینکیوبیٹرز کو گھسیٹ کر باہر نکالنا شروع کیا اسی دوران میرے کُچھ اور ساتھیوں نے بھی بچوں کے چھوٹے بیڈز کو وارڈ سے باہر کا جانب دھکیلا۔‘

محمد ارسلان کے مطابق ’ریسکیو اہلکاروں نے بیڈز اور اینکیوبیٹرز کو چھوڑ کر تین تین بچوں کو ایک ہی وقت میں اُٹھا کر دھوئیں سے بھرے وارڈ سے باہر نکالنا شروع کیا۔

’بچوں کی مدد اور ریسکیو کے اس کام میں ایک وقت ایسا آیا کہ یوں لگنے لگا کہ کہ بس اب میں گُھٹن کے باعث کسی بھی وقت گر جاؤں گا اور اپنے حواس کھو بیٹھوں گا۔‘

ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے ادارے ریسیکو 1122 کے مطابق نرسری وارڈ میں 75 سے زیادہ بچے موجود تھے۔ جن میں سے 41 کو ریسیکو اہلکاروں جبکہ باقی بچوں کو یا تو اُن کے والدین یا پھر ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود وارڈ بوائزنے محفوظ مقام پر منتقل کیا تھا۔

’میرے بیٹے کو آکسیجن تو لگائی مگر وہ اُسے بچا نہ سکے‘

محمد جاویداقبال ساہیوال کے علاقے نور شاہ کوٹ کے رہائشی ہیں اور ان کا بچہ بھی اسی وارڈ میں داخل تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا بچہ بھی اُسی نرسری وارڈ میں تھا کہ جہاں آگ لگنے کا یہ واقعہ پیش آیا، وارڈ میں آگ لگنے کا سُن کر میں اُس جانب بھاگا۔

’اس وارڈ سے نکالے جانے والے بچوں کو ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹر طبی امداد دینے میں مصروف تھے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اطمینان یہ دیکھ کر ہوا کہ اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے اور وارڈ سے نکالے جانے والے بچوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عجیب لمحہ تھا مجھے لگا کہ میرا بیٹا مدد کے لیے مُجھے بلا رہا ہے۔ میں نرسری وارڈ پہنچا تو وہاں پر پہلے سے ہی لوگ جمع تھے جو اندر جانا اور اپنے بچوں کو بچانا چاہتے تھے مگر سکیورٹی گارڈ نے ہمیں اندر جانے سے روک دیا۔‘

محمد جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’میں کسی نہ کسی طرح وارڈ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وارڈ میں ہر جانب دھواں بھرا ہوا تھا۔ جہاں سانس لینا دشوار تھا۔ ایک ایک بیڈ پر تین تین بچے تھے۔ موبائل کی روشنی میں میں اپنے بچے کو انتہائی مُشکل سے ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور وارڈ سے باہر کی جانب بھاگا۔ وارڈ میں موجود دھوئیں کی وجہ سے مجھے لگ رہا تھا کہ میں باہر نہںی نکل پاؤں گا مگر میں اپنے بچے کو وارڈ سے نکالنے میں کامیاب رہا، باہر نکلا تو سب نے شور مچایا کہ بچے کو ایمرجنسی وارلا کی جانب لے جاؤ۔ ایمرجنسی میں پہنچا تو وہاں پہلے ہی بڑی تعداد میں بچوں کی دیکھ بھال ڈاکٹر کر رہے تھے۔ میرے بیٹے کو بھی دوبارہ آکسیجن تو لگائی مگر وہ اُسے بچا نہ سکے۔‘

محمد جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’مُجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں شاید یہ سب اللہ کی طرف سے تھا۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.