پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی رعایت کو ختم کیوں کرنا پڑا؟

پاکستان میں رواں مالی سال کے بجٹ میں گذشتہ ادوار میں ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی رعایت واپس لینے کی تجویز دی گئی ہے جس سے آٹو سیکٹر کے بعض مبصرین کی نظر میں کئی برسوں تک ’ایک مخصوص کلاس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔‘
پاکستان، گاڑیاں
Getty Images

پاکستان میں رواں مالی سال کے بجٹ میں گذشتہ ادوار میں ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی گئی رعایت واپس لینے کی تجویز دی گئی ہے جس سے آٹو سیکٹر کے بعض مبصرین کی نظر میں کئی برسوں تک ’ایک مخصوص کلاس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔‘

اپنی بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ جو لوگ 50 ہزار ڈالر کی گاڑی درآمد کر سکتے ہیں تو وہ اس پر واجد الادا ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

پاکستان میں 2013-14 کے بجٹ میں 1200 سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں کو امپورٹ ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جبکہ 1200 سے 1800 سی سی تک کی ہائبرڈ گاڑیوں کی امپورٹ ڈیوٹی میں 50 فیصد رعایت دی گئی تھی۔

اگرچہ اس وقت اس کا مقصد آئل امپورٹ بِل کو کم کرنا تھا تاہم اب وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ چونکہ ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع ہوچکی ہے لہذا مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر رعایت ختم کی جا رہی ہے۔

اسی طرح انھوں نے ’لگژری‘ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت کو بھی واپس لینے کے تجویز دی ہے۔

بجٹ 2024-25 میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے کیا ہے؟

بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ گاڑیوں کی ’مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے‘ ہائبرڈ گاڑیوں اور لگژری الیکٹرک کاروں پر دی گئی رعایت واپس لی جا رہی ہے۔

ہائبرڈ کاروں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں 2013 کے دوران رعایت دی گئی تھی مگر اب وزیر خزانہ کے بقول مقامی طور پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع ہوچکی ہے۔

حکومت کی جانب سے لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت کا بھی خاتمہ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ’50 ہزار ڈالر اور اس سے زائد قیمت کی گاڑیاں درآمد کرنے کی استطاعت رکھنے والے لوگ واجب الادا ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی ادا کر سکتے ہیں۔‘

حکومت نے موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کپیسٹی کی بجائے قیمت کی بنیاد پر تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔

اپنی تقریر کے دوران محمد اورنگزیب نے تسلیم کیا کہ ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہوچکا ہے لہذا ’ٹیکس کی اصل پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ تمام موٹر گاڑیوں کے لیے ٹیکس وصولی کی بنیاد انجن کپیسٹی (یعنی کار کی سی سی) سے تبدیل کر کے قیمت کے تناسب پر کر دیا جائے۔‘

اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس گاڑی کی قیمت جتنی زیادہ ہوگی، اس کی رجسٹریشن کے لیے ادا کیے جانے والا ود ہولڈنگ ٹیکس اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

دریں اثنا بجٹ میں مقامی سطح پر اسمبل (تیار) کی جانے والی ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بھی تجویز کی گئی ہے جو کہ اس سے قبل ساڑھے آٹھ فیصد تھی۔ پاکستان میں مقامی سطح پر ٹویوٹا (آئی ایم سی)، ہوال اور ہنڈائی نشاط کی جانب سے ہائبرڈ ایس یو وی گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔

’ماحول کے نام پر ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر رعایت دی گئی تھی‘

آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے ہائبرڈ کاروں کی درآمد پر رعایت ختم کرنے کے قدم کو سراہا ہے جسے ان کے مطابق لگژری گاڑیوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں گاڑیوں کی مقامی پیداوار بڑھانی ہے تو ’سی بی یو گاڑیاں امپورٹ نہیں ہونی چاہییں۔ ان پر ڈیوٹی بڑھانا مثبت قدم ہے کیونکہ پاکستان کے پاس غیر ملکی زر مبادلہ نہیں ہے۔‘

ان کی رائے ہے کہ اس میں ٹرک اور بسوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا۔

تاہم مشہود علی خان کہتے ہیں کہ بجٹ میں مڈل کلاس کے استعمال میں آنے والی چھوٹی گاڑیوں کی پیداوار اور خریداری میں رعایت دینے کی ضرورت تھی جو کہ نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس اسی صورت زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوسکے گا اگر ان کی خریداری بڑھے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹیکس کم ہونے سے شعبے کا پہیہ چلے گا، روزگار کے بھی مواقع پیدا ہوں گے۔‘

انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے بسوں کی درآمد روکی جائے اور بس بنانے والے لوکل پلانٹس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مقامی ضرورت کو پورا کریں۔

انھوں نے مثال دی کہ درآمد شدہ بسوں کے پارٹس اور مرمت میں مشکلات پیش آتی ہیں ’اگر بسیں یہاں بنیں گی تو ان کی مرمت کے لیے حکومتی اخراجات بھی کم ہوں گے۔‘

پاکستان، گاڑیاں
Getty Images

’جو الیکٹرک گاڑیاں ماحول کے نام پر منگوائی گئیں، اس سے صرف ایلیٹ کلاس مستفید ہوئی‘

آٹو سیکٹر کے ماہر نے بتایا کہ گذشتہ ادوار میں ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی کے نام پر مہنگی ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ دی گئی جو کہ اُس وقت کی حکومت کی ’دور اندیشی نہیں تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ایلیٹ کلاس، 20 سے 25 ہزار لوگوں، کے لیے آپ نے یہ رعایت دی تھی۔ کیا ملک میں عام آدمی کے لیے سستی الیکٹرک گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، رکشے، ٹرک اور بسیں آئیں؟‘

ان کے مطابق اس وقت جو مہنگی الیکٹرک یا ہائبرڈ گاڑیاں ملک میں بھی بن رہی ہیں وہ مڈل کلاس کے لیے نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کے لیے ہیں۔

مشہود علی خان مزید کہتے ہیں کہ جو الیکٹرک گاڑیاں ’ماحول کے نام پر منگوائی گئیں، اس سے صرف ایلیٹ کلاس مستفید ہوئی۔۔۔ گنتی کی ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیاں صرف اپر کلاس میں گئیں، یہ بیان کہ اس سے ماحول بہتر ہوگا، یہ غلط تھا۔۔۔ اگر یہ مراعات اتنی ہی ضروری تھیں کہ انھیں ختم کیوں کیا گیا؟‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کا ہر اسمبلر اب الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کی طرف چل پڑا ہے تو ایسے میں ان کمپنیوں کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ مقامی ضرورت پوری کریں۔

آٹو ماہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی، گیس سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ گاڑیاں بنانے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے مگر رواں سال کے بجٹ میں اس بات کو نظر انداز کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ ایک سال میں آٹو سیکٹر میں واحد ٹریکٹر انڈسٹری بہتر کارکردگی دکھا رہی تھی مگر اب ٹریکٹر پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جس سے زرعی شعبے کی پیداوار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

’ہمارے ملک میں کوئی میڈ ان پاکستان گاڑی نہیں‘

ہائبرڈ اور الیکٹرک کاروں پر درآمدی ڈیوٹی کی رعایت کے خاتمے پر آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف سے قرض ان ’لوکل اسمبلروں کے لیے لے رہا ہے؟‘

’ہمارے ملک میں کوئی میڈ ان پاکستان گاڑی نہیں۔۔۔ میں وزیر خزانہ صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہائبرڈ تو دور کی بات، آج تک یہ اسمبلر مینوفیکچرر نہیں بن سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب ہمارے ملک میں پیٹرول سے چلنے والی عام گاڑی نہیں بن سکی تو پتا نہیں وزیر خزانہ کو یہ کون سمجھا رہا ہے کہ ہائبرڈ کاروں کی تیاری شروع ہوگئی ہے.‘

اس سوال پر کہ آیا ماضی میں ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیوں پر رعایت سے محض ایک مخصوص طبقے نے فائدہ اٹھایا، ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ ’ہائبرڈ گاڑیوں کو 2013 میں اس وقت کی حکومت نے آئل امپورٹ بل میں کمی لانے کے لیے رعایت دی تھی۔۔۔ (لیکن) اگر لوگوں نے پانچ، دس کروڑ کی الیکٹرک گاڑیاں منگوائیں تو حکومت کو اس چیز پر توجہ دینی چاہیے تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ ماحول دوست کاروں کے فروغ کے لیے دی گئی مراعات ’لینے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔‘

ان کے مطابق اب کل اگر کوئی شخص چھوٹی، سستی اور ماحول دوست گاڑی لانا چاہے گا تو اس کی درآمدی ڈیوٹی بڑھنے سے حوصلہ شکنی ہوگی۔

ایچ ایم شہزاد کی رائے ہے کہ یہ ملک میں کاروں کی صنعت کے لیے ایک اچھا بجٹ نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی ڈالروں میں ادا کی جاتی ہے جس میں اب مزید اضافہ کر کے انھیں فائدہ پہنچایا گیا جو ’40 سال سے صرف گاڑیوں کو اسمبل کر رہے ہیں جس سے ہمارے ملک کا ڈالر باہر جاتا ہے.‘

مقامی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے پر صنعتکار برہم

پاکستان میں مقامی طور پر ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے والی ایک کمپنی کے عہدیدار نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ کم لوکل انڈسٹری کو فروغ دینا چاہتے ہیں مگر جو (جن لوکل کاروں پر) سیلز ٹیکس ساڑھے آٹھ فیصد تھا، اسے 25 فیصد کر دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف رجسٹریشن کی مد میں قیمتیں بڑھائی گئی ہیں جن سے لوکل ہائبرڈ کار کی قیمت میں قریب ڈھائی لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف سیلز ٹیکس بڑھنے سے گاڑی کی قیمت میں ’18 لاکھ روپے کا فرق آ جائے گا۔‘

وہ پوچھتے ہیں کہ اگر مقامی سطح پر تیار کی گئی گاڑی کی قیمت ’ڈیڑھ کروڑ روپے تک چلی جائے گی تو اسے کون خریدے گا؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ ٹیکسز ہر بجٹ میں بڑھائے جاتے ہیں، بات وہاں تک ٹھیک تھی۔ مگر دو ملین روپے کا فرق ڈالنے کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کو فروغ دینا چاہتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.