انڈیا کے مزدور استحصال کے باوجود کام کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کیوں کرتے ہیں؟

گذشتہ ہفتے کویت میں ایک کثیر المنزلہ عمارت میں آگ لگنے کے باعث 45 انڈین مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ اس واقعے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اکثر خلیجی ممالک میں حادثات رونما ہونے کے بعد مزدوروں کے خراب حالات زیرِ بحث آتے ہیں۔ لیکن اتنے نامناسب حالات کے باوجود انڈین مزدوروں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک کیوں جاتی ہے؟
انڈین مزدور
Getty Images

گذشتہ ہفتے کویت میں ایک کثیر المنزلہ عمارت میں آگ لگنے کے باعث 45 انڈین مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ اس واقعے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

اکثر خلیجی ممالک میں حادثات رونما ہونے کے بعد مزدوروں کے خراب حالات زیرِ بحث آتے ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے نامناسب حالات کے باوجود انڈین مزدوروں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک کیوں جاتی ہے؟

انڈیا اور خلیجی ممالک (خلیج تعاون کونسل جی سی سی) کے درمیان تعلقات گذشتہ کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔

سنہ 1981 میں قائم ہونے والے جی سی سی گروپ میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین، قطر اور کویت شامل ہیں۔

بڑی تعداد میں لوگ ملازمت کے لیے ان چھ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابقسنہ 2022 میں تقریباً 90 لاکھ انڈین شہری جی سی سی ممالک میں رہائش پذیر تھے۔

ان میں سب سے زیادہ یعنی 35 لاکھ سے زیادہ متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے جبکہ 25 لاکھ کے قریب سعودی عرب میں رہتے تھے۔

Getty Images
Getty Images

اس کے علاوہ نو لاکھ سے زائد انڈین شہری کویت میں، آٹھ لاکھ قطر، ساڑھے چھ لاکھ عمان جبکہ بحرین میں تین لاکھ سے زائد انڈین آباد تھے۔

خلیجی ممالک میں انڈین شہریوں کے علاوہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق خلیجی ممالک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ جنوبی ایشیائی شہری مقیم ہیں۔

انڈیا کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال سے بھی لوگ کام کی تلاش میں یہاں آتے ہیں۔

کویت میں لگنے والی آگ میں ہلاک ہونے والے انڈین شہریوں میں سے اکثریت کا تعلق انڈیا کی ریاست کیرالہ سے تھا۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انڈیا سے سب سے زیادہ کیرالہ اور گوا سے لوگ کام کی غرض سے جی سی سی ممالک جاتے ہیں۔

انڈین ویٹر
Getty Images

بلیو کالر نوکریاں

متحدہ عرب امارات میں تارکین وطن کارکنوں کے لیے قائم جاب پورٹل ہنٹر کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق کیرالہ سے بڑی تعداد میں لوگ ’بلیو کالر نوکریوں‘ کے لیے خلیجی ممالک جاتے ہیں۔

بلیو کالر جاب سے مراد وہ ملازمتیں ہیں جس میں جسمانی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے جیسے فیکٹری یا تعمیراتی شعبے میں کی جانے والی مزدوری۔

تاہم پچھلے کچھ سالوں میں ملازمتوں کے لیے کیرالہ سے خلیجی ممالک کا رخ کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ اتر پردیش اور بہار سے جانے والے مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

سروے کے مطابق جی سی سی ممالک کے تعمیراتی شعبے میں اتر پردیش، بہار، راجستھان اور تمل ناڈو سے آنے والے مزدوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ہنٹر کے ایک اور سروے میں کہا گیا ہے کہ صحت کے شعبے میں ملازمتوں کے لیے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (MENA) علاقوں میں کام کرنے جانے والے لوگوں میں سب سے زیادہ تعداد کیرالہ سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔

جی سی سی ممالک میں دستیاب ملازمتوں میں زیادہ تعداد بلیو کالر نوکریاں ہیں۔ ان ملازمتوں کے لیے کسی خاص قابلیت یا کورس کی تکمیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

لوگ تعمیرات، صحت، مینوفیکچرنگ، نقل و حمل، مہمان نوازی اور خدمات کے شعبوں میں ملازمتوں کے لیے خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

تاہم خلیجی ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے وہاں طویل عرصے تک رہنا پڑتا ہے۔ یہ مدت 20 سے 25 سال ہے۔

جو لوگ کام کی غرض سے ان ممالک کا رخ کرتے ہیں وہ مخصوص ورک ویزا پر جاتے ہیں۔

اکثر ان تارکین وطن مزدوروں کو جی سی سی ممالک میں رائج کفالہ نظام کے مطابق بھرتی کیا جاتا ہے۔

اس نظام کے تحت مزدور اور آجر (کفیل)کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوتا ہے جس کے مطابق ملازم کے ویزا، سفر، رہائش اور کھانے کے اخراجات کفیل کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

کیا کفالہ نظام تارکین وطن مزدوروں کے استحصال کا باعث بن رہا ہے؟

کئی سالوں سے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کفالہ نظام تارکین وطن مزدوروں کے استحصال کا باعث بن رہا ہے۔

اس نظام کے تحت، مزدوروں کے پاسپورٹ اور دیگر اہم دستاویزات اکثر آجر اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔

اسی وجہ سے یہ مزدور نہ تو اپنی مرضی سے انڈیا واپس جاسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی خواہش کے مطابق کوئی دوسری ملازمت لے سکتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے کارکنوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے۔

اکثر و بیشتر ان کے رہنے کے لیے کیے جانے انتظامات بھی خاطر خواہ نہیں ہوتے ہیں۔

کفالہ نظام تمام خلیجی ممالک کے علاوہ اردن اور لبنان میں بھی رائج ہے۔

قطر نے سنہ 2020 کے اوائل میں کفالہ نظام کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور غیر ملکی کارکنوں کو ملازمتیں تبدیل کرنے یا اپنی مرضی سے ملک چھوڑنے کی آزادی دی تھی۔

لیکن اس کے باوجود قطر میں منعقد ہونے والے 2022 فیفا ورلڈ کپ کے دوران سٹیڈیم کی تعمیر میں حصہ لینے والے کارکنوں کے استحصال اور کام کے حالات کے بارے میں متعدد رپورٹس سامنے آئیں۔

مزدوروں کے استحصال کو روکنے کے لیے انڈین وزارت خارجہ بھی وقتاً فوقتاً معلومات اور رہنما خطوط جاری کرتی رہتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی بھی ملک میں مقیم مزدور کو کسی قسم کے دھوکے کا سامنا کرنا پڑے تو وہ وہاں کے انڈین سفارت خانے سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔

انڈین لیبر، انڈین ورکرز دنئی
Getty Images

استحصال کے باوجود انڈین ورکرز خلیجی ممالک کیوں جاتے ہیں؟

بہت سے مزدروں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر انھیں بیرون ملک ملازمت مل جائے تو اس سے ان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ ان میں سے کچھ اپنا خواب پورا کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔

اکثر لوگوں کو ان ملازمتوں کے بارے میں اپنے جاننے والوں کے ذریعے معلومات ملتی ہیں اور وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

ان جی سی سی ممالک میں بڑی تعداد میں ملازمتیں دستیاب ہونا بھی نقل مکانی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

سنہ 2022 کا فٹ بال ورلڈ کپ قطر میں منعقد ہوا۔ اس ورلڈ کپ کے لیے سات سٹیڈیم، نئے ایئرپورٹ، میٹرو سروس، سڑکیں اور تقریباً 100 ہوٹل تعمیر کیے گئے تھے۔

جس سٹیڈیم میں ورلڈ کپ کا فائنل منعقد ہونا تھا اس کے اردگرد ایک پورا شہر بسایا گیا تھا۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق ورلڈ کپ کے لیے پانچ سے دس لاکھ افراد کام کی غرض سے قطر منتقل ہوئے۔

تاہم قطر کی حکومت کا کہنا تھا کہ صرف ان سٹیڈیمز کی تعمیر کے لیے 30 ہزار غیر ملکی کارکنوں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

جی سی سی ممالک میں اب مزدوروں کے لیے قوائد و ضوابط رائج ہیں اور انڈین حکومت بھی خلیجی ممالک جا کر مزدوری کرنے والوں کے لیے پالیسیاں جیسے کہ کم از کم اجرتوغیرہ طے کرتی ہے۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خلیجی ممالک کی کرنسیاں انڈین روپے کے مقابلے بہت مضبوط ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے مزدوروں کو فائدہ ہوتا ہے۔

ایک بحرینی دینار تقریباً 221 انڈین روپے کا ہے جبکہ عمان کے ایک ریال کی قیمت 217 انڈین روپے کے لگ بھگ ہے۔

اس ہی طرح ایک کویتی دینار کی قیمت تقریباً 272 روپے ہے۔ جبکہ قطری ریال، سعودی ریال اور یو اے ای ریال کی قدر 22 سے 23 انڈین روپے کے قریب ہے۔

انڈین ورکرز
Getty Images

مزدوروں کے خلیجی ممالک جانے سے انڈیا کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟

جی سی سی ممالک انڈیا کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری میں شراکت دار ہیں۔ مزید یہ کہ ان ممالک کے پاس موجود تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر انڈیا کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔

مئی 2014 سے دسمبر 2023 کے درمیان انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 بار خلیجی ممالک کا دورہ کیا تھا۔

سال 2021 میں جی سی سی ممالک سے 87 ارب امریکی ڈالر انڈیا بھیجے گئے۔ سنہ 2022 میں یہ رقم بڑھ کر 115 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔

انڈین وزارت خارجہ کی طرف سے 17ویں لوک سبھا میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک سے انڈیا کو دسمبر 2023 تک 120 ارب امریکی ڈالر موصول ہو چکے ہیں۔

خلیجی ممالک سے سب سے زیادہ رقوم انڈیا بھیجی جاتی ہیں۔

اس کے بعد جی سی سی ممالک میں مقیم مزدوروں کی جانب سے پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا بھیجی جانے والی رقوم آتی ہے۔

ان چھ جی سی سی ممالک میں سب سے زیادہ متحدہ عرب امارات سے رقم انڈیا بھیجی جاتی ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب، عمان، کویت، قطر اور بحرین کا نمبر آتا ہے۔

برطانوی راج کے بعد سے انڈیا سے لوگ کام کی غرض سے خلیجی ممالک جا رہے ہیں۔

چنمے تمبے عالمی امیگریشن کے مشہور سکالر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جی سی سی ممالک میں 1970 کی دہائی سے شروع ہونے والی نقل مکانی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ابتدائی دنوں میں خلیجی ممالک میں کام کے لیے جانے والوں کی تعداد کم تھی، لیکن 1930 کی دہائی تک برطانوی حکومت والے شہر عدن (جو اب یمن میں ہے) میں تقریباً 10000 انڈین تھے۔

انڈیا میں ریلائنس انڈسٹریز کی بنیاد رکھنے والے دھیرو بھائی امبانی نے بھی ایک دہائی تک اس عدن بندرگاہ پر کام کیا تھا۔

تیل کی دریافت کے بعد خلیجی ممالک میں کام کے لیے آنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

کتاب انڈیا موونگ اے ہسٹری آف مائیگریشن کے مطابق اس عرصے کے دوران اینگلو پرشین آئل کمپنی (APOC) کی جانب سے بڑی تعداد میں انڈین کارکنوں کو بھرتی کیا گیا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.