گھڑی میں چھپا کیمرہ اور دو ہزار ڈالر کا ’ڈیزائنر بیگ‘ جس نے جنوبی کوریا میں ہلچل مچا دی

ویسے تو اس ویڈیو میں کوئی خاص بات نہیں لیکن جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو نے ملکی سیاست میں کھلبلی مچا دی ہے۔
Getty Images
Getty Images

خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو کا میعار اتنی اچھا نہیں مگر ایک گھنٹے کی اس ویڈیو نے جنوبی کوریا کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی اس ویڈیو میں ایک مرد ایک عورت کو مہنگا بیگ دیتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو سے ملک کے پارلیمانی انتخابات بھی متاثر ہوئے ہیں کیوں کہ اس ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون ملک کے صدر کی اہلیہ کم کیون ہیں۔ 51 سالہ کم کیون کئی کاروبار کی مالک بھی ہیں۔

تو آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کس طرح ایک ڈیزائنر ہینڈ بیگ نے جنوبی کوریا کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔

دو ہزار ڈالر کا ڈیزائنر ہینڈ بیگ

Getty Images
Getty Images

ستمبر 2022 میں پادری چوئی جائی جنگ نے جنوبی کوریا کے صدر کی اہلیہ خاتون اول کم کیون سے ان کی نجی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

وہ چرچ کے ممتاز رہنما تھے اور خاتون اول کو پہلے سے جانتے تھے۔ سیئول میں مقیم آزاد صحافی رافیل کا خیال ہے کہ چوئی جے اینگ ایک مذہبی رہنما ہیں اور جنوبی کوریا کی سیاست پر مذہب کا گہرا اثر ہے۔

اگرچہ جنوبی کوریا کا سرکاری مذہب مسیحیت نہیں ہے لیکن مذہبی رہنما سیاست میں کافی اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں۔ یہ پادری ایک میسجنگ سروس کے ذریعے خاتون اول سے رابطے میں تھے۔ ان کے دوستانہ تعلقات تھے اور کئی مہینوں سے ایک دوسرے کو پیغامات بھیج رہے تھے۔

خاتون اول سے اس پادری کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی، وہ اس سے پہلے بھی کئی بار مل چکے تھے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ایک ملاقات کے دوران انھوں نے خاتون اول کو سینئر سرکاری عہدوں پر تقرریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا۔

خاتون اول کا حکومت میں کوئی باضابطہ کردار نہیں ہے، اس لیے اس پادری کو ان کے الفاظ نامناسب لگے۔

رافیل نے بتایا کہ جب پادری نے خاتون اول کو سرکاری تقرریوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا یا دیکھا تو انھیں لگا کہ یہ حکومت میں غیر ضروری اثر و رسوخ ہے اور انھوں نے محسوس کیا کہ خاتون اول کی مبینہ مداخلت کے بارے میں لوگوں کو بتانا عوامی مفاد میں ہے۔

اس لیے جب خاتون اول سے اگلی ملاقات طے ہوئی تو وہ خفیہ کیمرہ لے کر وہاں گئے۔

یہ کیمرہ ان کی کلائی پر بندھی گھڑی میں چھپا ہوا تھا اور ان کا مقصد خاتون اول کو سرکاری تقرریوں میں مداخلت کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑنا تھا۔

جنوبی کوریا میں سیاسی طوفان

Getty Images
Getty Images

لیکن جب ایک سال بعد یہ ویڈیو منظر عام پر آئی تو بحث کا موضوع خاتون اول کی سرکاری تقرریوں میں مداخلت نہیں بلکہ دو ہزار ڈالر مالیت کا ایک ڈیزائنر ہینڈ بیگ بن گیا۔

رافیل نے بتایا کہ پادری کا کہنا تھا کہ وہ یہ ہینڈ بیگ خاتون اول کو بطور تحفہ دینا چاہتے تھے، اس کا مقصد انھیں رشوت دینا یا رشوت لیتے ہوئے دکھانا نہیں تھا بلکہ وہ صرف حکومتی تقرریوں میں ان کا کردار سب کے سامنے لانا چاہتے تھے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ویڈیو میں یہ نظر نہیں آتا کہ خاتون اول نے ہینڈ بیگ کا تحفہ قبول کیا یا نہیں۔

رافیل نے کہا کہ ویڈیو میں انھیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ وہ خاتون اول کو ہینڈ بیگ دینا چاہتے ہیں لیکن دیتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔

اس میں خاتون اول کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ’آپ ہمیشہ مہنگے تحائف کیوں لاتے ہیں؟ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

ویڈیو میں ایک ہینڈ بیگ میز پر رکھا ہوا دیکھا گیا ہے لیکن یہ خاتون اول کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا اور نہ ہی وہ اسے گھر لے جاتے ہوئے دیکھی گئی۔

اس معاملے میں ابہام کے باوجود یہ تنازعہ پیچیدگی اختیار کر رہا ہے۔ اس ملاقات کی ریکارڈنگ کے تقریباً ایک سال بعد نومبر 2023 میں ’میڈیا وائس آف سول‘ نامی تنظیم نے غیر ملکی میڈیا کے لیے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔

اسی تنظیم نے ریکارڈنگ کے لیے پادری کو ایک خفیہ کیمرہ دیا تھا جبکہ چند ماہ بعد ملک میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے تھے۔

رافیل کا کہنا ہے کہ وہ پادری اس پریس کانفرنس میں آئے تھے لیکن وہ پروگرام میڈیا سرکس میں بدل گیا۔ اس کے بعد تمام غیر ملکی میڈیا میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور جنوبی کوریا میں سیاسی طوفان کھڑا ہو گیا۔

’تحفہ رشوت میں کب بدلتا ہے‘

Getty Images
Getty Images

برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی کے سینیٹر فار ساؤتھ کورین سٹڈیز کی ڈائریکٹر سارہ سون کا کہنا ہے کہ ’جنوبی کوریا میں عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان اپنے عہدوں کا استعمال عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے کرتے ہیں جبکہ عام لوگ عام زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔‘

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’تحائف کا تبادلہ جنوبی کوریا میں سماجی رسم و رواج کا حصہ ہے۔‘

سارہ سون کا کہنا ہے کہ ’آپ کے لیے کسی بڑے یا سینیئر کی جانب سے تحفہ دینے سے انکار کرنا بہت مشکل ہے، لیکن تحفے کے لین دین سے بدعنوانی کا راستہ بھی کھل جاتا ہے کیونکہ یہ بتانا مشکل ہے کہ تحفے کو اب صرف تحفہ ہی سمجھا جائے اور یہ کب رشوت میں بدل جاتا ہے؟‘

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 2016 میں جنوبی کوریا میں انسداد رشوت کا قانون نافذ کیا گیا تھا۔

اس قانون کے تحت یہ طے کیا گیا تھا کہ کوئی سرکاری اہلکار یا اس کی بیوی کتنے تحائف قبول کر سکتے ہیں۔ مبینہ طور پر خاتون اول کو جو ہینڈ بیگ دیا گیا تھا وہ مقررہ حد سے کہیں زیادہ مہنگا تھا۔ لیکن قانون نے سرکاری افسران کو دی جانے والی آسائشوں یا مراعات کے مسئلے کا کوئی حل فراہم نہیں کیا۔

اس تنازعے نے عام لوگوں کے غصے کو بھڑکا دیا ہے۔ جنوبی کوریا کے معاشرے کی اس عدم مساوات کو آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’پیرا سائیٹ‘ اور ٹی وی سیریز’سکویڈ گیم‘ میں بھی دکھایا گیا ہے۔

سارہ سن کہتی ہیں کہ ’دی پیراسائیٹ اور سکوئڈ گیم معاشرے کے اندرونی عدم توازن پر ایک تبصرہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عام لوگوں کو اپنی زندگی میں تھوڑی سی بہتری لانے کے لیے بھی کتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور وہ اچھی زندگی کا خواب دیکھنے کے لیے کس طرح اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کو تیار ہیں جبکہ اعلیٰ طبقے کے لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔‘

شوہر کی مقبولیت میں کمی

Getty Images
Getty Images

خاتون اول کی فیشن ایبل اور مہنگے کپڑے پہننے کی متنازع ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا تھا وہ پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔

سارہ سون کا خیال ہے کہ ’اس کی وجہ سے لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اقتدار میں آنے والے سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے بلکہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں بھی خاتون اول پر کئی الزامات لگائے گئے ہیں۔

سارہ کا کہنا ہے کہ ’یا تو یہ الزامات ثابت نہیں ہو سکے یا حصص کی قیمتوں کو متاثر کرنے کے الزامات کی تحقیقات نہیں ہو سکیں۔‘

سارہ سون کا کہنا ہے کہ ’ان کے شوہر صدر یون سک کیول نے کچھ کیسز کی تفتیش روک دی جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔‘

اپنی صدارت کے دو سال بعد صدر یون امید کر رہے تھے کہ ان کی پارٹی پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کر لے گی لیکن ان کی پیپلز پاور پارٹی کو انتخابات میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.