آبِ زم زم کیا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ اتنا مقدس کیوں ہے؟

آبِ زم زم کو خاندان والوں اور دوست احباب میں تقسیم کرنے کا بھی رواج ہے۔ یہ سب اس یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اس کو پینے سے کوئی بھیبیماری یا برائی سے بچا سکتا ہے۔ آبِ زم زم کی لامتناہی فراہمی کی وجہ کی سے یہ بھی مانا جاتا ہے کہ پانی اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔
آب زم زم
AFP
سعودی عرب میں عازمین کو آبِ زم زم پیش کیا جا رہا ہے

آبِ زم زم کا کنواں سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے اندر واقع ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے اور مذہبِ اسلام کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ کے ارد گرد واقع ہے۔ کنویں سے نکلنے والے پانی کو دنیا بھر کے مسلمان مقدس سمجھتے ہیں اور ان کا اس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ یہ ’آبِ شفا‘ یعنی اس پانی میں شفا ہے۔

حج اور عمرے پر آنے والے تقریباً تمام مسلمان ہی اس کنویں سے پانی لے کر اپنی گھروں کو لوٹتے ہیں۔ آپ کو شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جو حج یا عمرے کی ادائیگی کے بعد اپنے ساتھ آبِ زم زم لے کر نہ آئے۔

اس کے علاوہ لوگوں میں آبِ زم زم کو خاندان والوں اور دوست احباب میں تقسیم کرنے کا بھی رواج ہے۔ یہ سب اس یقین کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ اس کو پینے سے کوئی بھیبیماری یا برائی سے بچا سکتا ہے۔ آبِ زم زم کی لامتناہی فراہمی کی وجہ کی سے یہ بھی مانا جاتا ہے کہ پانی اپنے آپ میں ایک معجزہ ہے۔

Officials provide Zamzam water to prospective pilgrims at Masjid al-Haram (Grand Mosque), where the Islam's holiest site the Kaaba is located
Getty Images
حجاج خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کے بعد آبِ زم زم پیتے ہیں

مسلمانوں کے لیے آبِ زم زم کیوں اہم ہے؟

مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ کنواں خدا نے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم کی اہلیہ بی بی ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لیے بنایا تھا۔

یہ واقعہ قرآن میں درج ہے اور اسلامی تاریخ کی مختلف کتابوں میں اس کی توسیع اور تفصیل بھی ملتی ہے۔

عالم امام بخاری ابو عبداللہ بن اسماعیل نے 860 عیسوی میں صحیح البخاری کے نام سے احادیث کی مشہور کتاب مرتب کی۔ صحیح البخاری کی چھ جلدیں ہیں۔

امام بخاری نے اس کنویں کی تاریخ صحیح بخاری میں بیان کی ہے۔

روایت ہے کہ حضرت ابراہیماللہ کے حکم سے اپنی اہلیہ اور بیٹے کو مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے قریب لے گئے۔ اس وقت مکہ مکمل صحرا تھا اور یہاں شہر آباد نہ تھا اور نہ ہی یہاں پانی دستیاب تھا۔

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم نے انھیں کچھ کھجوریں اور پانی دے کر صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اس کتاب میں حضرت ابراہیم اور ان کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو بیان کیا گیا ہے۔

بی بی ہاجرہ نے اپنے شوہر سے پوچھا آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟

’ہمیں ایسے میدان میں چھوڑ کر جہاں نہ کوئی مددگار ہے اور نہ کوئی رزق۔ لیکن حضـرت ابراہیم نے ان کی طرف نہیں دیکھا۔‘

آخر بی بی حاجرہ نے پوچھا کیا آپ کو یہ حکماللہ نے دیا ہے؟ جب حضرت ابراہیم نے ہاں میں جواب دیا تو بی بی ہاجرہ واپس آگئیں۔

لیکن چند ہی دنوں میں ان کا کھانا پانی ختم ہو گیا اورحضرت اسماعیل پیاس کی وجہ سے رونے لگے۔ ان کی والدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگنے لگی اور ساتھ ہی خدا سے مدد کے لیے دعائیں کرنے لگیں۔

پانی کی تلاش میں انھوں نے صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سات مرتبہ چکر لگائے۔

صحیح بخاری کی حدیث میں درج ہے کہ آپ کو کوہِ مروہ پر فرشتہ جبرائیل دکھے۔ جب انھوں نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو وہاں سے پانی چشمے کی طرح بہنے لگا۔

ایک اور فارسی مفکر اور اسلامی اسکالر امام ابن جریر الطبری نے اپنی تصنیف ’تاریخ طبری‘ کی پہلی جلد میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔

امام ابن جریر الطبری لکھتے ہیں کہ جب بی بی حاجرہ حضرت اسمٰعیل کے پاس پہنچیں تو وہ پیاس کی شدت سے اپنے پاؤں زمین پر مار رہے تھے۔ جب فرشتہ جبرائیل نے بی بی ہاجرہ سے ان کی شناخت پوچھی تو انھوں نے اپنی شناخت حضرت ابراہیم کے بچے کی ماں کے طور پر کروائی۔

فرشتہ جبرائیل نے سوال کیا، ’انھوں نے آپ کو کس کے بھروسے پر چھوڑا؟‘ حاجرہ نے جواب دیا: ’انھوں نے اللہ پر بھروسہ کرکے ہمیں چھوڑ دیا۔‘ پھر فرشتہ جبرائیل نے فرمایا کہ پھر انھوں نے آپ اسی پر چھوڑ دیا جو کافی ہے۔ اس کے بعد جب حضرت اسماعیل نے پاؤں زمین پر مارے تو وہاں سے آبِ زمزم بہنے لگا۔

امام ابن جریر الطبری بیان کرتے ہیں کہ ’بی بی حاجرہ نے دیکھا کہ اس جگہ سے پانی نکل رہا ہے جہاں حضرت اسماعیل پاؤں مار رہے تھے، انھوں نے اسے جمع کیا اور اپنے بیٹے کو پانی پلایا۔‘

بی بی حاجرہ کو پھر ڈر پیدا ہوا کہ کہیں پانی ختم نہ ہو جائے۔ اس کے خوف سے انھوں نے اس کے گرد ریت اور پتھروں سے ڈیم بنا دیا۔

روایت ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی اہلیہ اور بیٹا صحرا میں پیاسے اور بے یارومددگار پڑے تھے، تو اس پانی نے ان کی جان بچائی۔

صحیح البخاری کے مطابق، پانی ختم ہونے کے خوف سے بی بی حاجرہ نے کئی بار ’زم زم‘ (جو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’بہاؤ کو روکنا‘) کی صدا بلند کی۔ اسی مناسبت اس چشمے کو آج بھی زم زم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

سعودی عرب کے جیولوجیکل سروے کے تحت زمزم اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر بھی قائم ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد زم زم کے اس چشمے کو دیکھ کر قبیلہ جرہم کے لوگوں کا ایک گروہ وہاں آباد ہوگیا۔ یہ کنواں اپنے اردگرد کے صحرا میں سفر کرنے والے قافلوں کے لیے آرام گاہ بن گیا۔

بعد میں حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لیے واپس آئے جسے اللہ کا گھر کہا جاتا ہے۔ اس کو پہلی مرتبہحضرت آدم نے تعمیر کیا تھا۔

اس کنویں کے وجود میں آنے کے بعد مکہ کا بنجر صحرا آہستہ آہستہ تجارتی شہر بن گیا۔

A pilgrim drinks Zamzam water at the Grand Mosque in the holy city of Mecca on June 25, 2023
AFP
اس کے بعد ٹینکرز کی مدد سے روزانہ لاکھوں لیٹر زم زم کا پانی مدینہ منورہ میں شاہ عبدالعزیز سبیل ریزروائر تک پہنچاتا ہے۔

زم زم کا حج سے کیا تعلق ہے؟

آب زم زم اور حج کے درمیان تاریخی تعلق بہت گہرا ہے۔ مسلمانوں کے لیے حج اسلام کا پانچواں اور آخری ستون ہے۔ یہ فریضہ اسلامی قمری کیلنڈر کے بارہویں مہینے ذی الحجہ کے مہینے میں ادا کیا جاتا ہے۔

ہر بالغ مسلمان جو اس کی استطاعت رکھتا ہے اور جسمانی اور ذہنی طور پر ایسا کرنے کے قابل ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار یہ سفر کرے اور حج کا یہ فریضہ ادا کرے۔

عمرہ ایک مختصر دورہ ہے، جس میں مختصر اور کم مذہبی فرائص و عبادات ادا کی جاتی ہیں اور سال کے کسی بھی وقت یعنی کسی بھی مہینے میں ادا کیا جا سکتا ہے۔

اسلامک عریبک یونیورسٹی آف بنگلہ دیش کے وائس چانسلر محمد عبدالرشید کے مطابق خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے بعد حضرت ابراہیم نے لوگوں کو اللہ کے حکم سے حج کی دعوت دی۔ مناسک حج میں خانہ کعبہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگانا شامل ہیں جنھیں سائیں کہا جاتا ہے۔

یہ رسومات حضرت حاجرہ اور آبِ زم زم کے کنویں کی کہانی سے جڑی ہوئی ہیں، کیونکہ وہ ان کے تجربے کی نقل کرتی ہیں۔

اگرچہ حج کی ادائیگی کے لیے زم زم کا پانی پینا واجب نہیں ہے، لیکن یہ پیغمبرِ اسلام کی سنت سمجھا جاتا ہے۔ حجاج خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانے کے بعد اور صفا اور مروہ کے پہاڑوں کے درمیان سات چکر لگانے سے پہلے پانی پیتے ہیں۔

A Saudi worker loads carboys of
AFP
سعودی عرب کا جیولوجیکل سروے زم زم سٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر چلاتا ہے

زم زم کا پانی دوسرے ممالک تک کیسے پہنچتا ہے؟

اگرچہ سیاحوں کو اپنے ساتھ آب زم زم واپس لے جانے کی اجازت ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے، لیکن سعودی حکام کی طرف سے اسے تجارتی استعمال کے لیے برآمد کرنے پر پابندی ہے۔ اس کے باوجود برطانیہ میں آب زم زم کو غیر قانونی طور پر فروخت کیے جانے کے واقعات سامنے آ چُکے ہیں۔

مئی 2011 میں بی بی سی کی ایک تحقیق میں برطانیہ میں دکانوں میں آبِ زم زم کے نام سے فروخت ہونے والے بوتل بند پانی میں آرسینک کی بڑی مقدار کا انکشاف ہوا تھا۔

اس کے نتیجے میں اس کی غیر قانونی فروخت کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تھا۔ سعودی حکام نے پانی کو صاف اور استعمال کے لیے محفوظ بنانے کے لیے سخت کوالٹی کنٹرول نافذ کیا ہوا ہے۔

سعودی عرب کا جیولوجیکل سروے زم زم سٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر چلاتا ہے جو کنویں کے پانی کے معیار کا انتظام کرتا ہے۔ اسے کنویں سے زیرِ زمین پائپوں کے ذریعے صاف کرنے والے پلانٹ میں پمپ کیا جاتا ہے۔

اس کی صفائی پلانٹ میں کی جاتی ہے اورپھر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ٹینکرز کی مدد سے روزانہ لاکھوں لیٹر آبِ زم زم کا پانی مدینہ منورہ میں شاہ عبدالعزیز سبیل ریزروائر تک پہنچاتا ہے، جس سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے لیے مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.