خیبر پختونخوا میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ کیوں ہے اور کیا اس کی وجوہات سیاسی ہیں؟

پاکستان کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، گرمی کی اس شدت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اچانک اضافے نے عوام کو مزید پریشان کر رکھا ہے۔ یہ اضافہ سب سے زیادہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں دیکھنے میں آ رہا ہے جہاں اس وقت پاکستان تحریک انصاف برسرِ اقتدار ہے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا یہ ایک نئی بات ہے یا گذشتہ ادوار میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا تھا۔
بجلی
Getty Images

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی تحصیل نیو دربند کے رہائشی شاہنواز بدر نے اس عید پر قربانی کا جانور لینے سے قبل ایک ڈیپ فریزز خریدا کہ اس شدید گرم موسم میں گوشت کو محفوظ بنایا جا سکے۔ شاہنواز نے بی بی سی کو بتایا کہ قربانی کے گوشت کو انھوں نے ڈیپ فریزز تک تو ضرور پہنچایا مگر اس کا انھیں فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق ’طویل لوڈ شیڈنگ اور پھر بہت کم وولٹیج والی بجلی کی وجہ سے گوشت کو محفوظ نہیں بنایا جا سکا۔‘

شاہنواز ہی وہ واحد شخص نہیں ہیں جو اس طویل لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں، گرمی کی اس شدت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں اچانک اضافے نے عوام کو مزید پریشان کر رکھا ہے۔ یہ اضافہ سب سے زیادہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں دیکھنے میں آ رہا ہے جہاں اس وقت پاکستان تحریک انصاف برسرِ اقتدار ہے۔

عید کی چھٹیوں میں بھی خیبر پختونخوا کے عوام متعدد علاقوں میں سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئے۔ عوامی نمائندوں کی بات کی جائے تو کبھی وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور خود گرڈ سٹیشن کے اندر بٹن آن آف والی جگہ پر پہنچ کر وفاق کو سخت سے سخت پیغام دیتے ہیں اور کبھی صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی بجلی بحال کروانے کے لیے سڑکوں پر نظر آتے ہیں اور بجلی کو یعنی ’تقسیم اور ترسیل‘ کے نظام کو ہی اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں؟

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا موقف جاننے سے قبل پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کیا خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہے یا پورے صوبے میں ہی صورتحال ایک جیسی ہے اور اگر کچھ علاقوں میں زیادہ ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ ایک نئی بات ہے کہ گذشتہ ادوار میں بھی ایسا ہی ہو رہا تھا یعنی ایسا کہیں سیاسی بنیادوں پر تو نہیں ہو رہا ہے؟

کیا خیبر پختونخوا میں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہے یا صوبے کے کچھ علاقوں میں؟

خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کو کم نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں کے مکین باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔

ان علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نسبتاً کم ہوتی ہے مگر ایسے علاقے جہاں زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہاں بجلی چوری اور لائن لاسز جیسے نقصانات بڑھ جاتے ہیں تو ایسے میں صوبے میں بجلی کی فراہمی کی ذمہ دار کمپنی لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ کر دیتی ہے اور یوں جو لوگ ان علاقوں میں باقاعدگی سے بل ادا بھی کرتے ہیں وہ بھی سخت گرم موسم میں اس انتقام کی ’چکی میں پِس‘ جاتے ہیں۔

ان کے گھر 22، 22 گھنٹے تک اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ وہ بل تو 24 گھنٹوں کا ادا کرتے ہیں مگر انھیں بجلی دو گھنٹے ہی دی جاتی ہے۔

صوبے کے دیہی علاقوں جیسے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، بنوں، قبائلی علاقے، بڈا بیر، متنی، کوہاٹ، ہنگو اور کرک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہے۔

پیسکو کے ایک اہلکار کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان سمیت قبائلی علاقوں اور صوبے کے جنوبی اضلاع میں امن عامہ کا مسئلہ بھی ہے۔ ان علاقوں میں واپڈا اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام شام کے بعد ادھر کا رخ بھی نہیں کر سکتے۔

ترجمان پیسکو کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چار سے چھ گھنٹے ہے جبکہ مضافاتی علاقوں میں 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ ترجمان کے مطابقبجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث لاسز زیادہ ہیں اور ایسے فیڈرزپر زیادہ لوڈ مینجمنٹ کرنا ناگزیر ہے۔

پیسکو حکام مطابقصوبے میں پیسکو کے 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں، جن میں سے 156 فیڈرزپر صرف دو گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔

حکام کے مطابق 135 فیڈرزپر 20 سے 30 فیصد لاسز ہیں، جہاں چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ 96 فیڈرز ایسے ہیں، جن پر لاسز 30 سے 40 فیصد ہیں اور وہاں سات گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔

پیسکو کے مطابق 143 فیڈرزپر 40 سے 60 فیصد تک لاسز ہیں اور وہاں 12 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ 157 فیڈرزپرلاسز 60 سے 80 فیصد ہیں اور وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہے۔ حکام کے مطابق 159 فیڈرز پر لاسز 80 فیصد سے زیادہ ہیں جس بنا پر 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاری ہے۔

بجلی خیبرپختونخوا
BBC

خیبر پختونخوا میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سیاسی یا تکنیکی؟

نیپرا کی تازہ ترین رپورٹ سال 2022-23 کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا نقصانات کے حوالے سے باقی تمام صوبوں سے آگے ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس صوبے میں بجلی چوری بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں نادہندگان یعنی بجلی کے بل ادا نہ کرنے والے بھی زیادہ بستے ہیں۔

اس سالانہ رپورٹ کے مطابق پیسکو یعنی پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کو سالانہ 77 ارب کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جہاں تک بجلی کے بلوں کی ریکوری کا معاملہ ہے تو یہ کمپنی سات فیصد اپنے ہدف سے کم ریکوریاں کرتی ہے، جس سے 24 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

نیپرا نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی وضاحت سے لکھا ہے کہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کرنے والی کمپنیاں (ڈسکوز) نقصانات کم کرنے اور دیگر تکنیکی مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے سے گریزاں ہیں۔ اس رپورٹ میں صارفین کو نہیں بلکہ متعلقہ کمپنیوں کو نظام میں بہتری نہ لانے کا ذمہ ٹھہرایا گیا ہے۔

وفاقی وزیر توانائی اویس احمد لغاری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی وزارت اب اس حوالے سے اقدامات اٹھا رہی ہے اور نظام میں بہتری لائی جا رہی ہے۔ نئے بورڈز کی تشکیل ہو رہی ہے اور غیر سیاسی بنیادوں پر اہل افراد کو ان بورڈز کا حصہ بنایاجا رہا ہے۔

اویس لغاری کے مطابق حکومت کی پالیسی بہت واضح ہے کہ جہاں بجلی کی چوری ہو گی وہاں لوڈ شیڈنگ ہو گی۔ ان کے مطابق صرف خیبر پختونخوا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں بجلی چوری ہو رہی ہے اور جن علاقوں میں یہ نقصانات زیادہ ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ کی جاتی ہے۔

لائن لاسز
BBC

کیا حکومت کو لوڈشیڈنگ کے لامحدود اختیارات حاصل ہیں؟

اگر بجلی کے نظام کے ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے قانون پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام آدمی تک بجلی کی تقسیم اور ترسیل والی کمپنیوں کو نقصانات کے بدلے لوڈ شیڈنگ کے کوئی قانونی اختیارات حاصل نہیں۔ پھر بھی اگر یہ کمپنیاں ایسا کرتی ہیں تو پھر نیپرا باقاعدہ ان پر جرمانے عائد کرتا ہے۔

اس کی تصدیق خود حکومت اور نیپرا کے حکام نے بھی کی۔

پشاور میں مقیم صحافی منظور علی اور اسلام آباد میں وزارت توانائی کی کوریج کرنے والے سینئیر صحافی سیف الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ نیپرا ان بجلی کی تقسیم والی کمپنیوں جنھیں ’ڈسکوز‘ کہا جاتا ہے کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ ایسے انتطامی اور قانونی اقدامات اٹھائیں جس سے ریکوریاں یقینی بنائی جا سکیں اور لائن لاسز جیسے نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔

چیئرمین نیپرا نے چند روز قبل سیف الرحمان کے ایک سوال پر یہ وضاحت کی تھی کہ بجلی کی تقسیم والی کمپنیوں کو نقصانات کی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ کرنے کا قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔

جب یہی سوال صحافی نے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے حکومت کے پاس گردشی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔

مگر چیئرمین نیپرا کے مطابق اگر حکومت نے نقصانات کے بدلے لوڈ شیڈنگ کو ہی حل سمجھ لیا ہے تو پھر اس کے لیے نیپرا کے قانون میں تبدیلی کرنا ہوگی بصورت دیگر اس طرح کے اقدامات کی سرے سے اجازت نہیں ہے۔

نیپرا کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک آپریشنل اور پالیسی کا مسئلہ ہے اور لوڈ شیڈنگ سے متعلق اس پالیسی پر گذشتہ چھ سات برس سے اسی فارمولے کے تحت عمل کیا جا رہا ہے یعنی یہ کوئی پہلی بار ایسا نہیں ہو رہا ہے۔

لوڈ شیڈنگ سے متعلق نیپراکے ردعمل سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا بہتر جواب متعلقہ وزارت ہی دے سکتی ہے۔‘

بی بی سی نے نیپرا کو اس کے ریگولیٹر کے اختیارات نہ استعمال کرنے سے متعلق رابطہ کیا مگر نیپرا نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

جب بی بی سی نے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری سے یہی سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت جلد نیپرا کے قانون میں تبدیلی بھی کرنے جا رہی ہے۔

ان کے مطابق چار نئے بورڈ بنائے جا رہے ہیں، جن میں غیر سیاسی بنیادوں پر ماہرین شامل کیے جا رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت جو لوڈ شیڈنگ جاری ہے اس پالیسی کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے لی گئی ہے۔

گذشتہ روز وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین نے 19 جون (بُدھ) کو پریس کانفرنسسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’بجلی کی مد میں وفاق کے ذمے خیبر پختونخوا کے 1600 ارب روپے واجب الادا ہیں جو مشترکہ مفادات کونسل سے منظور شدہ ہیں مگر وفاق وہ واجبات ادا نہیں کر رہا ہے۔

بی بی سی کے سوال پر وزیر توانائی نے بتایا کہ جب تک نقصانات ختم نہیں کیے جاتے اور وفاق کو چھ سو ارب روپے تک نقصانات کا سامنا رہتا ہے اور ایسے میں بجلی چوری روکی نہیں جاتی تو پھر واجبات کہاں سے ادا کیے جا سکیں گے۔

کیا یہ سیاسی تنازع ہے؟

وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ یہ قطعاً ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جس طرح ’گورننس سٹرکچر‘ میں اہم لوگ قانون کے خلاف جا کر ایسا کرتے ہیں تو پھر وہ ایک بری مثال بن رہے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے عید کی چھٹیوں کے دوران لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے صوبے میں تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ ہدایات دیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں بجلی کی تقسیم والی کمپنیوں سے رابطے میں اور ہیں اور یہ یقینی بنائیں کہ صوبے میں کہیں بغیر شیڈول کے لوڈ شیڈنگ نہ ہو اور اگر کوئی تکنیکی مسئلہ ہو جائے تو اسے جلد سے جلد حل کر لیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی ہدایات دی کہ صوبے میں کہیں بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹوں سے زیادہ نہ ہوں۔

انھوں نے کہا کہ وفاق کی طرف سے 22 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کم کرکے 18 گھنٹے کرنے کے وعدے پر عمل نہیں ہوا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’معاملات طے کرنے کے لئے ہم نے وفاق کو 15 دن کی ڈیڈلائن دی تھی اور وفاق نے ڈیڑھ مہینے کا وقت اور تعاون مانگا تھا اور ہم نے بھر پور تعاون کیا۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’میں اعلان کرتا ہوں کہ صوبے کے کسی بھی فیڈر پر 12 گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی اور تمام پارلیمنٹیرینز اپنے اپنے علاقوں میں اس شیڈول کی خود نگرانی کرکے اس کو یقینی بنائیں۔

وفاقی وزیر اویس لغاری نے خیبرپختونخوا میں گرڈ سٹیشن پر حملہ آور ہونے والے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے وزیر داخلہ کو خط بھی لکھا۔ خط کے مندرجات کے مطابق ایم این ایز، ایم پی ایز گرڈ سٹیشنز پر چڑھائی کرنے والوں کو لیڈ کرتے رہے۔‘

علی امین گنڈاپور نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’میں پولیس کے آئی جی پولیس کو واضح احکامات دیے ہیں کہ واپڈا اہلکاروں کے کہنے پر صوبے کے کسی شہری کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوگی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ خیبرپختونخوا پولیس ہے اور یہ واپڈا کے ماتحت نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم اگلے اقدام کے طور پر نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی بند کر سکتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ علی امین نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’میں وزیر اعظم شہباز شریف سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے فون کرکے ائی ایم ایف کے حوالے سے سپورٹ مانگی، مجھے پہلے صوبے کا پیسہ چاہیے جو آپ نے دینا ہے۔ ورنہ میں آئی ایم ایف کو بتادوں گا کہ آپ پیسے ہمارے نام پر لیتے ہیں، ہم پر ٹیکس لگاتے ہیں اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔‘

وزیر اعلیٰ علی امین نے کہا کہ ’واپڈا سے جڑے تمام حل طلب معاملات طے کرنے کے لیے ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ بات چیت کی۔ لائن لاسز کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ہم نے بھر پور تعاون کیا۔

ان کے مطابق ’جن علاقوں میں بہت ذیادہ لاسز ہیں وہاں لوگوں کو سولر سسٹم دینے کے لیے ہم نے 10 ارب روپے مختص کئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وفاقی حکومت مینڈیٹ چوری کرکے جھوٹ کی بنیاد پر حکومت میں بیٹھی ہے اور اس حکومت نے اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کی۔‘

’اب جب ڈیڑھ مہینے کا وقت ختم ہوا تو میں نے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو مسیج اور کال کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا جس کا مطلب ہے کہ وہ آزاد اور ہم آزاد۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’میں اپنے تمام پارلیمنٹرینز اور پارٹی ذمہ داران سے کہتا ہوں کہ اب وہ بحیثیت سب کا نمائندہ میری پالیسی پر عمل کریں گے۔‘

عید کے چھٹیوں میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور ڈیرہ اسمعیل خان کے گرڈ سٹیشن پہنچ گئے تھے اور لوڈشیڈنگ کا نیا شیڈول جاری کردیا تھا۔

تاہم وزیر اعلیٰ نے نو مئی جیسے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے کارکنان سے کہا کہ ’میں اپنے لوگوں کو پیغام دیتا ہوں کہ کسی نے بھی واپڈا کے اثاثوں کو نقصان نہیں پہنچانا۔ یہ ہمارا اثاثہ ہیں کیونکہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے بنے ہیں۔

صحافی منظور علی کے مطابق خیبرپختونخوا میں ہمیشہ یہ سوچ رہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے بجلی سستی خریدی جاتی ہے اور پھر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے اور نہ ہمیں گذشتہ عرصے کے واجبات ادا کیے گئے ہیں۔

ان کے مطابق صوبائی حکومت نے یہ عزم بھی ظاہر کیا تھا کہ وہ دیہی علاقوں میں جا کر لوگوں کو رضامند کریں گے کہ وہ میٹرز لگوائیں اور اپنے دو برس کے بقایا جات قسطوں میں ادا کریں۔ ان کے مطابق صوبائی حکومت کا یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہو سکا ہے۔

منظور علی کے مطابق صوبائی حکومت اس معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔

ان کے مطابق پشاور سے ایک رکن صوبائی اسمبلی ہر دور میں بجلی کے مسئلے میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ واپڈا سے لڑائی کرتے ہیں، گرڈ خود اپنے کنٹرول میں لے لیتے ہیں۔ ان کے مطابق وزیر اعلیٰ پر تحریک انصاف کے اندر سے بھی بہت دباؤ ہے، جس کے بعد وہ عوام میں جا کر اس طرح بیان دیتے ہیں۔

’خیبر پختونخوا میں لوڈ شیڈنگ زیادہ نہیں ہو رہی‘

بی بی سی نے توانائی کے شعبے کے ماہر اور پیپکو کے سابق ایم ڈی اور پاکستان میں پہلے انرجی مینجمنٹ بورڈ کے سربراہ طاہر بشارت چیمہ سے تفصیل سے بات کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں جو ریونیو بیسڈ فارمولا بنا ہوا ہے خیبر پختونخوا میں اس سے زیادہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی ہے۔

اس فارمولے کے مطابق جہاں بجلی کی چوری ہو اور ناہندگان یعنی بل ادا نہ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو تو پھر وہاں بجلی کم دی جائے گی۔

ان کے مطابق پورے ملک میں اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہ کہتے کہ کے الیکٹرک نے سب سے پہلے یہ فارمولا کراچی میں متعارف کروایا۔ کے الیکٹرک کراچی سمیت بلوچستان کے چار شہروں، حب، بیلا، اُتھل اور وندر، میں بھی بجلی کی ترسیل کی ذمہ دار کمپنی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح لوڈشیڈنگ کرنا درست عمل ہے؟

طاہر بشارت چیمہ کا کہنا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق اگر ایک آدمی بھی قانون پر عمل پیرا ہے تو اسے دوسروں کی غلطی کی سزا کیوں دی جا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا مختصر وقت کے لیے کیا جائے اور اس عرصے میں وہاں عوام میں آگاہی پیدا کی جائے۔ تاہم ان کے مطابق یہ کام حکومت کا ہے۔

طاہر بشارت کے مطابق یہ پوری کوشش کرنی چاہیے کہ جہاں بجلی کی چوری ذیادہ ہے اور نادہندگان زیادہ ہیں تو وہاں ان لوگوں کو ’مین سٹریم‘ کیا جائے۔ ان کی رائے میں ریگولیٹر کے طور پر نیپرا کو صارفین، پیداواری اور ترسیل کار والی کمپنیوں کے درمیان انصاف کرنا چاہیے اور حکومت کی متنازع پالیسی کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔

وہ یہ تجویز دیتے ہیں کہ پورے ملک میں قابل عمل فارمولا بنایا جائے۔ ان کے مطابق ماضی میں علما سے بجلی چوری اور بل نہ ادا کرنے کے خلاف فتوے تک لیے گئے۔ ان کے مطابق اب بجلی کے نرخ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ ہر آدمی گھر میں تمام ایسی سہولیات رکھنا چاہتا ہے جس سے بجلی کے استعمال میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق اب وفاقی حکومت اور خیبرپختونخوا کو مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.