سعودی عرب میں حج کے دوران ہلاک ہونے والے ایک امریکی جوڑے کی بیٹی نے بتایا کہ کس طرح ان کے والدین شدید گرمی میں دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک پیدل چلتے رہے اور ہیٹ سٹروک کا شکار ہوئے
سعودی عرب میں حج کے دوران ہلاک ہونے والے ایک امریکی جوڑے کی بیٹی نے بتایا ہے کہ کس طرح ان کے والدین شدید گرمی میں دو گھنٹے سے زیادہ تک پیدل چلتے رہے یہاں تک کہ وہ ہیٹ سٹروک کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
امریکہ کی وسطی ریاست میری لینڈ میں بووی کے رہائشی 71 سالہ الحاج علیو دوسی ووری اور ان کی 65 سالہ اہلیہ ایساتو ووری رواں سال حج کے دوران ہلاک ہونے والے تقریباً 1300 حجاج میں شامل ہیں۔
رواں سال کے حج کے اجتماع کے دوران شدید گرمی تھی اور درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔
مرنے والے حاجی علیو دوسی کی بیٹی سعیدہ ووری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والدین کو حج پر لے جانے والے ٹوئر گروپ نے مبینہ طور پر مناسب مقدار میں کھانے، پانی سمیت بہت سی ضروی اشیا فراہم نہیں کیں، حالانکہ انھوں نے اپنے پیکیج میں ان سب کا وعدہ کر رکھا تھا۔
سیئیرا لیون میں پیدا ہونے والا یہ امریکی جوڑا 16 جون بروز اتوار سعودی عرب پہنچنے کے دو ہفتے بعد لاپتا ہو گیا تھا۔
کچھ دنوں کے بعد ان کی بیٹی کو اطلاع دی گئی کہ ان کے والدین ہلاک ہو گئے ہیں۔
غمزدہ بیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے والدین کے لیے حج ’انتہائی اہمیت‘ کا حامل فریضہ تھا اور انھوں نے حج پر جانے کے لیے فی کس 11 ہزار 500 امریکی ڈالر ادا کیے تھے۔
والدین کا آخری ٹیکسٹ میسیج
انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے والدین کی حج کرنے کی شدید خواہش تھی اور اس سفر کے لیے وہ بہت پرجوش تھے۔‘
اس جوڑے نے میری لینڈ سے باہر سروسز فراہم کرنے والی ایک امریکی ٹوئر کمپنی کے ذریعے تقریباً 100 دیگر حاجیوں کے ایک گروپ کے ساتھ سعودی عرب کا سفر کیا۔
سعدیہ ووری کا کہنا ہے کہ ’انھیں بہت سی وہ چیزیں فراہم نہیں کی گئیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والدین کو اس شدید گرمی میں کھانے اور پینے کے پانی کی کمی کی شکایت تھی اور انھوں نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ ’وہ دن میں ایک ہی وقت کھانا کھا رہے ہیں‘ اور اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کے جسم میں پانی رہے۔
بی بی سی نے تبصرے کے لیے اس ٹور کمپنی سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
سعیدہ ووری نے بتایا کہ کئی مسڈ کالز کے بعد ان کے والدین نے اپنے آخری ٹیکسٹ میسیج میں لکھا تھا کہ وہ ’دو گھنٹے سے زیادہ دیر سے پیدل چلے جا رہے ہیں۔‘
اس کے کچھ دیر بعد ہی قونصلر حکام اور ان کے ٹور گروپ کے ایک رکن نے تصدیق کی کہ ان کے والدین کی موت ہو گئی ہے۔
قبرستان کی نشاندہی
سعیدہ ووری قونصلر حکام کی مدد سے اس بات کا پتا چلانے میں کامیاب ہوئیں کہ ان کے والدین کو کس قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ بہر حال ابھی تک تدفین کے مقام کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کے ذاتی تاثرات نہیں ہیں لیکن ’بہت سارے سوالات ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ووری نے کہا کہ ان کا سعودی عرب جانے کا ارادہ ہے تاکہ انھیں یہ معلوم ہو سکے کہ ان کے والدین کی تدفین کہاں ہوئی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ ٹوئر کمپنی نے کہا تھا کہ وہ سفر کے لیے مناسب ویزا اور رجسٹریشن فراہم کرے گی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق زیادہ تر مکہ آنے والے زائرین کے پاس سرکاری اجازت نامے نہیں تھے۔ بہر حال سرکاری حج پرمٹ حاصل کرنے کا عمل مہنگا یا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب تنقید کی زد میں
سعودی عرب نے کہا ہے کہ رواں سال تقریباً 18 لاکھ افراد نے حج کی سعادت حاصل کی۔ ملک کے وزیر صحت فہد بن عبدالرحمان الجلاجل نے کہا کہ حکام نے حال ہی میں گرمی کی شدت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔
سعودی عرب حج کو محفوظ نہ بنانے اور غیر رجسٹرڈ عازمین کے حوالے سے ان دنوں تنقید کی زد میں ہے۔