مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت: ’سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق تھا، اسے بلے کے نشان سے کنفیوز نہ کیا جائے‘

منگل کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ اپیل کی سماعت کر رہا تھا تو اس دوران ججز قانونی نکات اور آئین کی تشریح پر ایک دوسرے سے مختلف آرارکھتے دکھائی دیے۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی بینچ اپیل کی سماعت کر رہا تھا تو اس دوران ججز قانونی نکات اور آئین کی تشریح پر ایک دوسرے سے مختلف آرارکھتے دکھائی دیے۔

منگل کو سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور پاکستان تحریک انصاف کی رہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا ذکر نہیں کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی 14 مارچ کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔

منگل کو سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے ریمارکس میں سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن بھی ایک آئینی ادارہ ہیں اورعدالتیں بھی آئینی ادارہ ہی ہیں۔ لیکن یہ دونوں وکلا صرف الیکشن کمیشن کو ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

ایک موقع پر سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے یہ اعتراف کیا کہ ’بادی النظر میں پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الحاق کر کے غلطی کی ہے۔‘

سپریم کورٹ
Reuters

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت ’کسی سیاسی جماعت کی غلطیوں کو سدھارنے یا اس کی غلطیوں کے تدارک کے لیے نہیں بیٹھی بلکہ یہ عدالت آئین کے مطابق اپنے امور سر انجام دے رہی ہے۔‘

اس 13 رکنی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نعیم افغان نے بھی اپیل کندگان کے سامنے اسی نوعیت کے سوال رکھے جو چیف جسٹس سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجہ سے پوچھ رہے تھے۔ جبکہ جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر سوالات اٹھائے۔

واضح رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا اور جسٹس اطہر من اللہ بھی اس تین رکنی بینچ کا حصہ تھے۔

منگل کو ہونے والی سماعت میں 13 رکنی بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے متعدد بار اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’ساری کنفیوژن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق ہے اور اگر عدالت چاہے تو اس کنفیوژن کو دور کرسکتی ہے۔‘

جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ’انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے سے متعلق تھا اور اس کا بلے کے نشان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ جب وہ وزیر اعظم تھے تو انھوں نے ’الیکشن کمیشن سے وقت مانگا تھا کہ انھیں انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے لیے ایک سال کی مہلت دی جائے‘ اور اب وہ شاید ’الیکشن کمیشن کے دشمن ہو گئے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’جمہوریت کی بات ضرور کی جاتی ہے لیکن اپنی جماعت میں انتخابات نہیں کرواتے۔‘ انھوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ذریعے ہی سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت آئی ہے۔ ’اس سے پہلے تمام اختیارات صرف چیف جسٹس کے پاس ہوتے تھے جبکہ اب ایسا نہیں ہے۔‘

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ’انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق تھا لہذا اسے بلے کے نشان سے کنفیوز نہ کیا جائے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنا بڑا فرق ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے جب دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا الیکشن کمیشن کو ان پریس کانفرنسز پر نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا جو کہ انتخابات سے قبل مختلف امیدواروں سے کروائی گئیں اور ان محرکات کو نہیں دیکھنا چاہیے تھا؟‘

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ’انھیں نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے پریس کانفرنسز کیوں کیں اور وہ اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ محض مفروضوں کی بنیاد پر پوچھے گئے سوالوں کا جواب دیں۔‘

بینچ میں موجود جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’جواب دینے کا طریقہ مناسب نہیں ہے۔‘ اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’اگر بینچ ان سے اپنی مرضی کی بات نکلوانا چاہتا ہے تو وہ ایسا نہیں کریں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کے حوالے سے ’کوئی فہرست جمع نہیں کروائی گئی تھی۔ اس لیے آئین کے مطابق جو جماعتیں نشستیں لینے کی اہل تھیں انھی کو ہی (مخصوص نشستیں) دی گئی ہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ملک آئین اور قانون کے مطابق نہیں چل رہا اور سنہ 2018 میں ہونے والے انتحابات میں جو الزامات لگے تھے وہی الزامات رواں سال آٹھ فروری کے انتخابات پر لگائے جا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ جب نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ان کی نظر میں یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، اس لیے دوسرے کیسز کی سماعت کی طرح اس کی بھی لائیو سٹریمنگ کی جائے۔ تاہم اس پانچ رکنی بینچ میں دیگر چار ججز نے جسٹس اطہر من اللہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آٹھ فروری کے انتخابات سے متعلق ایک درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اور سپریم کورٹ کے پاس ’نہ صرف اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا یہ بہترین موقع ہے بلکہ اس سے لوگوں کے ووٹ کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے گا۔‘

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جو معاملہ اس بینچ کے سامنے موجود ہی نہیں، اس کو زیر بحث کیوں لایا جائے؟‘

عدالت نے ان اپیلوں کی سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.