فضل الرحمان کی سربراہی میں چھ جماعتوں کا اتحاد حکومت کے خلاف کتنا مؤثر؟

image
پاکستان میں حزب اختلاف کی چھ جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپنا الگ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح جمعیت علماء اسلام  اور پاکستان تحریک انصاف کے مل کر گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ 

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی تقسیم  کی صورت میں فائدہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف سے ہٹ کر یہ نیا اتحاد حکومت کے خلاف کوئی مؤثر تحریک چلا سکے گا؟

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کے رواں مہینے بلوچستان کے دورے کے موقع پر صوبے کی سیاسی و قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں میں اس سیاسی اتحاد کی تشکیل میں پیش رفت ہوئی ہے۔

مولانا فضل الرحمان سے پیر کو کوئٹہ میں نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، عوامی  نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خوشحال خان کاکڑ، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے صوبائی صدر احمد جان نے ملاقات کیں۔

پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین سابق سینیٹر رضا محمد رضا کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان کے حالیہ دورہ کوئٹہ کے موقع پر ملاقاتوں میں پیش رفت ہوئی ہے اور چھ جماعتیں  اصولی طور پر اتحاد کی تشکیل پر متفق  ہوگئی ہیں۔

اس اتحاد میں جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل  پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ شامل ہو گی۔

اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت اتحاد کے بنیادی خدوخال پر گفتگو ہورہی ہے، ہر جماعت اپنی اپنی تجاویز مرتب کررہی ہے اس کے بعد مشترکہ نکات طے پائیں گے جسے بنیاد بنا کر ہم اس تحریک کو چلائیں گے۔‘

رضا محمد رضا نے بتایا کہ ’بنیادی طور پر یہ تحریک انٹی اسٹیبلشمنٹ ہو گی۔ ہمارے اہداف اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ، اٹھارہویں ترمیم سمیت وفاقی اکائیوں کے حقوق، خود مختاری، قوموں کے وسائل کا دفاع، پارلیمنٹ کی بالادستی ہوں گے۔ اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمان کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی ٹی آئی  بھی ان نکات کو اپنائے گی تو ہم ان کے ساتھ بھی اتحاد بنا سکتے ہیں تاہم  ماضی میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہمارے تجربات اچھے نہیں رہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے جمہوری اہداف سے انحراف کرلیتی ہیں۔‘

دسمبر 2022 میں محمود خان اچکزئی کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے  سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ مرحوم کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کی سربراہی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ناراض رہنماؤں نے ’پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی‘ سے نام سے الگ جماعت بنائی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی تقسیم  کی صورت میں فائدہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ہو گا (فوٹو: ایکس جے یو آئی)2024 کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اتحاد کرنے پر پشتونخوا نیپ کے قائدین نے اپنی سابق جماعت پر کڑی تنقید کی۔  پارٹی نے ژوب قلعہ سیف اللہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر خوشحال کاکڑ کوشکست اور جے یو آئی کے امیدوار کی کامیابی کو دھاندلی قرار دیا تھا۔

تاہم اب خود مولانا فضل الرحمان کے ساتھ اتحاد  کرنے پر اس جماعت کو تنقید کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے پشتونخوا نیپ کے رہنما رضا محمد رضا کا کہنا تھا کہ ’ہم ہمیشہ سے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اتحاد کا حصہ رہے ہیں اور فعال کردار ادا کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کا اکٹھا ہونا مجبوری بن گئی ہے۔ موجودہ حالات ہمیں مولانا فضل الرحمان اور مولانا فضل الرحمان کو ہمارے قریب لے آئے ہیں۔‘

رضا محمد رضا سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا سیاسی سٹیک بھی  پشتونخوا اور بلوچستان کے پشتون بلوچ علاقوں میں زیادہ ہے ’اس لیے قوموں کے وسائل اور صوبائی خود مختاری کے مسائل مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت سے جڑے ہیں۔‘

نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ اس اتحاد کے لیے نیشنل پارٹی نے کوششیں شروع کیں۔ سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے۔

’اس وقت ایک حکومتی اور ایک اپوزیشن اتحاد ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خود کو تیسری سیاسی قوت کے طور پر منظم اور فعال کریں۔ ہمارے ساتھ اتحاد میں اس وقت سندھ اور پنجاب کی کوئی بڑی جماعت نہیں لیکن جے یو آئی  بڑی جماعت ہے ہم مل کر مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘

جان بلیدی کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے دوسرے اتحاد میں شامل محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل کی جماعتوں کے ساتھ انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔

’ہم نے پی ڈی ایم  میں بڑی جماعتوں کے ساتھ مل کر بڑی جدوجہد کی لیکن بڑی جماعتوں نے ہمیں مایوس کیا۔ ہمارا ایک ہی نعرہ  شفاف انتخابات تھا جس پر بڑی جماعتوں نے سمجھوتہ کرلیا، اپنے مفادات حاصل کر لیے اور باقی جماعتوں کو چھوڑ دیا۔‘

جان بلیدی کا کہنا تھا کہ ’ماضی کے تجربات کی وجہ سے ہم خود کو ان بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں باندھنا چاہتے جو اپنے مفادات پر سمجھوتہ کرکے ہمیں بیچ میں چھوڑ دیں۔ ہماری کوشش ہے کہ قوم پرست اور حقیقی جمہوری جماعتوں کے ساتھ مل کر اس عہد کی بنیاد پر سیاست کریں  کہ انتخابات صاف و شفاف ہو، عوام اور ان کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو ہی فیصلے کا اختیار ہو۔‘

جان محمد بلیدی نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی نے اتحاد کے لیے بات کی تھی لیکن ہم نے ان پر واضح کیا کہ آپ ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات  کریں گے۔ سیاست ،جمہوریت اور عوام پر آپ کو یقین نہیں تو آپ کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟‘

نیشنل پارٹی کے رہنما کے بقول پی ٹی آئی اپنے معاملات میں کلیئر نہیں کہ اس نے کس طرز کی سیاست کرنی ہے۔ ’ہم قوم پرست ہیں۔ آئین، پارلیمان کی بالادستی، قومی حقوق اور اٹھارہویں ترمیم کی بات کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی اس حوالے سے سوچ بڑی منفی ہے۔‘

مستقبل میں گرینڈ اپوزیشن الائنس کی تشکیل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’بات سب سے ہو سکتی ہے، کچھ نکات پر مشترکہ جدوجہد بھی ہوسکتی ہے لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کی ہماری کوئی سوچ نہیں۔‘

جان بلیدی کا کہنا تھا کہ۔وسیع تر مفاد کے لیے سیاسی ڈائیلاگ ہونا چاہیے اور مسلسل ہونا چاہیے تاکہ آئندہ فارم 47 جیسے ڈراموں کا تدارک ہو۔

جے یو آئی بلوچستان کے سابق رکن صوبائی اسمبلی حاجی عین اللہ شمس  پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر تحریک چلانے کے امکانات کو روشن سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ممکنہ نئے اتحاد اور حزب اختلاف کی باقی جماعتوں کے درمیان کوئی مشکلات نہیں ہوں گی۔ ہم  مشترکہ نکات پر یکجا ہوسکتے ہیں۔‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حزب اختلاف کا ایک اتحاد پہلے سے ہی موجود ہے جو انتخابات کے دو مہینے بعد اپریل میں  تشکیل دیا گیا تھا۔

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے اس اتحاد میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین شامل ہیں۔

ابتدائی طور پر جماعت اسلامی بھی اس اتحاد کا حصہ بننے پر رضا مند تھی لیکن بعد میں اس نے انکار کردیا۔ اس اتحاد کی سربراہی پشتونخوا ملی عوامی  پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کر رہے ہیں۔

اپوزیشن کے دونوں اتحاد کے مطالبات اور نعروں میں مطابقت کے باوجود گرینڈ الائنس تشکیل کیوں نہیں پایا، اس بارے میں تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ مشترکہ جدوجہد کے بغیر حزب اختلاف حکومت پر مؤثر دباؤ نہیں ڈال سکتی۔ اس تقسیم کا فائدہ حکومت اُٹھائے گی۔

کوئٹہ کے سینیئر صحافی تجزیہ کار سید علی شاہ سمجھتے ہیں کہ اس نئے اتحاد میں جے یو آئی کے علاوہ باقی تمام بلوچ پشتون اور ہزارہ قوم پرست جماعتیں ہیں جن کا اثر و نفوذ خیبر پشتونخوا اور بلوچستان تک محدود ہے کسی حد تک یہ کراچی میں بھی اثر انداز ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں زیادہ تر ایک ہی اور بڑا اتحاد بنا اس طرح کے دو اتحاد بننا اپوزیشن کی تقسیم  ہے۔ ’میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کی تلخیاں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان آج بھی رکاوٹ ہیں۔ اپوزیشن تقسیم کی صورت میں حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دے سکتی۔‘

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئرتجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ بظاہر یہ ایسا اتحاد ہے جو نہ حکومت کے ساتھ ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کے ساتھ۔

’اس میں شامل جماعتیں خاص طور پر نیشنل پارٹی اور اے این پی پیپلز پارٹی کے قریب ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اے این پی کے سربراہ ایمل ولی اور نیشنل پارٹی کے جان بلیدی کو بلوچستان سے سینیٹر منتخب کرایا ہے۔ یہ جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں جاسکتیں۔ پیپلز پارٹی اس سے اپنا فائدہ لے سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کا زیادہ مضبوط اتحاد پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کےمجوزہ اتحاد میں شامل جماعتیں پارلیمانی طور پر زیادہ مضبوط نہیں اور ان کے پاس بلوچستان ،خیبر پشتونخوا اور کسی حد تک سندھ میں سٹریٹ پاور ہے مگر پنجاب کی حد تک یہ غیر مؤثر ہوگا۔‘

شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار محبت کے پیغامات دینے کے باوجود ان کے پاس نہیں گئے۔

’حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہ خواہش ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی مضبوط نہ ہو اس لیے اپوزیشن کی اس تقسیم کا فائدہ حکومت کو ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ سے ناراضی کے باوجود جے یو آئی، اے این پی، نیشنل پارٹی سمیت اس نئے اتحاد کے لوگ انتہاء پر نہیں جانا چاہتے اس لیے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے بجائے وہ درمیانی راستہ اختیار کررہے ہیں۔‘

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار  لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ ’یہ بلوچستان کی چھوٹی جماعتوں کا اتحاد ہے تاہم  اس میں سب سے بڑی  جماعت جے یو آئی اور سب سے قدآور شخصیت مولانا فضل الرحمان ہے جن کا خیبر پشتونخوا میں بھی اثر و رسوخ ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان کااس اتحاد پر غلبہ رہے گا تاہم جے یو آئی اس اتحاد  کو پی ٹی آئی استعمال کرنے کی بجائے وفاق کے خلاف استعمال کرے گی۔

صحافی لحاظ علی کے بقول اس وقت مقبول بیانیہ انٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ ’مہنگائی کی وجہ سے بھی عوام کا حکومت پر غم و غصہ رہتا ہے اس لیے حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے بنی حکومت کی حمایت  کرکے اپنی سیاست ختم نہیں کرنا چاہتیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ اپوزیشن اتحاد میں شمولیت بھی ان جماعتوں کے لیے مشکل فیصلہ تھا اس لیے انہوں نے اپنا الگ اتحاد بنانا مناسب سمجھا۔

جے یو آئی اور اے این پی کے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد میں رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے لحاظ علی کا کہنا تھا کہ ماضی کے کردار اور مستقبل کے کردار سے متعلق غیر یقینی کی وجہ سے حزب اختلاف کی کچھ جماعتیں پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں جانا چاہتیں۔

’ان میں سے کئی جماعتوں نے حالیہ انتخابات سمیت طویل عرصے تک پی ٹی آئی کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد بنانے کی صورت میں اسے اچھا کہنا ان کے لیے آسان نہیں۔‘

ان کے بقول مولانا سمیت بعض جماعتوں کو عمران خان یا پی ٹی آئی پر اعتبار بھی نہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی موقع ملنے پر سب کو چھوڑ کر دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کو سر آنکھوں پر بٹھا سکتی ہے۔

’محمود خان اچکزئی نے ماضی کی  تلخیوں کو بھلا کر پی ٹی آئی کا ساتھ دیا اور اس سے اپنی کمزور ہوتی سیاسی زندگی کے لیے لائف لائن حاصل کر رہے ہیں لیکن اے این پی اور جے یو آئی کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔‘

لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ اے این پی اس لیے پی ٹی آئی کی حمایت نہیں کرسکتی کیونکہ اس وقت ان کی سیاست کی بنیاد ہی ان کی مخالفت پر ہے۔ ’ایمل ولی کو دو مرتبہ پی ٹی آئی سے شکست ہوئی اب پی ٹی آئی کی حمایت کرکے خیبرپشتونخوا میں ان کی سیاست ختم ہوجائے گی۔‘

ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان اپوزیشن کے بڑے اتحاد  کا حصہ بننے کے بجائے پی ٹی آئی اور محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں اپنا الگ سیاسی کردار بنانا چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس اتحاد سے جے یو آئی کو زیادہ فائدہ ہوگا اور اس کی جداگانہ حیثیت برقرار رہے گی۔ 

’مولانا فضل الرحمان الگ اتحاد بنا کر جے یو آئی  مستقبل کی مشکلات سے بھی بچنا چاہتے ہیں اس طرح مستقبل میں اگر ضرورت پڑی تو وہ آسانی سے پی ٹی آئی کی مخالفت بھی کرسکیں گے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.