کیا انڈیا کے عظیم بلے بازوں کو الوداع کہنے کا وقت آ گیا؟

اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 میں ہو گا جبکہ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ 2027 میں۔ کوہلی سچن سے زیادہ فٹ ہیں لیکن انھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ اس درجے پر وائٹ بال کرکٹ زیادہ دیر کھیل پائیں گے۔ موجودہ کپتان روہت شرما بھی، جو خود 37 سال کے ہو چکے ہیں، شاید اپنا آخری ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں۔
انڈیا
AFP

2011 میں جب انڈیا کی کرکٹ ٹیم نے آخری بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو سب ہی جانتے تھے کہ یہ سچن ٹنڈولکر کا آخری موقع ہے۔

39 سالہ سچن چھٹی بار ورلڈ کپ کھیل رہے تھے اور انڈین ٹیم کا غیر سرکاری نعرہ یہ تھا کہ ’سچن کے لیے کپ جیتو۔‘

کپتان مہندرا سنگھ دھونی نے چھکا لگا کر میچ اور ورلڈ کپ جیتا تو وراٹ کوہلی، جو سچن کو کندھوں پر اٹھانے والوں میں شامل تھے، نے یادگار جملہ ادا کیا کہ ’انھوں نے ہماری بیٹنگ کا بوجھ کندھوں پر اتنا عرصہ اٹھائے رکھا تو اب وقت ہے کہ ہم ان کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں۔‘

کوہلی سچن کے قدرتی جانشین بھی بنے اور رواں سال 36 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کے عروج پر موجود ہیں۔

اگلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 میں ہو گا جبکہ ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ 2027 میں۔ کوہلی سچن سے زیادہ فٹ ہیں لیکن انھیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ اس درجے پر سفید بال کرکٹ زیادہ دیر کھیل پائیں گے۔ موجودہ کپتان روہت شرما بھی، جو خود 37 سال کے ہو چکے ہیں، شاید اپنا آخری ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں۔

تاہم اس بار انڈین ٹیم میں ایسی کوئی نعرہ بلند نہیں ہوا کہ ’چلو کوہلی کے لیے کر گزرو‘ یا ’روہت کے لیے کپ جیتو۔‘ ہاں اگر پہلے کے مقابلے میں اس بار یہ بات خفیہ طور پر کی گئی ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔

شاید ’ڈریوڈ کے لیے کر گزرو‘ کا نعرہ بھی کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے۔ 2011 کا ورلڈ کپ ڈریوڈ نے نہیں کھیلا تھا جو اب ٹیم کے کوچ ہیں اور یہ ان کی آخری ذمہ داری ہو گی۔

روہت
Getty Images

ٹی ٹوئنٹی کا کھیل وقت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا کھیل بنتا جا رہا ہے جہاں ذاتی اعداد و شمار نہیں بلکہ اس بات پر زیادہ توجہ ہوتی ہے کہ اگلا چھکا کیسے لگایا جائے۔

انڈین کرکٹ میں یہ ایک بڑی ثقافتی تبدیلی ہے جو نظر انداز ہو رہی ہے کیوں کہ ماضی میں بہت سے نامور کھلاڑیوں کو یہ غیر صحت مند تشویش لاحق ہوتی تھی کہ ریکارڈ کی کتابوں میں، جہاں اعداد و شمار کسی پس منظر کے بغیر موجود ہوتے ہیں، وہ کیسے نظر آ رہے ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف روہت شرما کی دھواں دار 92 رن کی اننگز ایک عندیہ ہے کہ نئی نسل کے لیے سٹرائیک ریٹ اوسط سے زیادہ اہم ہو چکا ہے، کم از کم ٹی ٹوئنٹی کی حد تک۔ جب سچن نے اپنی سویں سنچری سکور کی تھی تو اس وقت اس کا بہت چرچہ ہوا۔ لیکن انڈیا وہ میچ ہار گیا تھا۔

انڈیا کی وائٹ بال ٹیم تبدیلی عمل سے گزر رہی ہے خصوصا ٹی ٹوئنٹی میں۔ اس ٹیم کے 10 رکن 30 سال سے کم عمر ہیں اور صرف تین 35 سے زیادہ کی عمر کے ہیں۔ ادھر نظام دھڑا دھڑ ایسے بلے باز پیدا کر رہا ہے جو بہت پرعزم ہیں۔

شبھمن گل اگلے ماہ زمبابوے کے دورے پر انڈین ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت کریں گے جہاں ورلڈ کپ میں موقع نہ پانے والے یشسوی جسوال، ریان پراگ، ابھیشیک شرما، دھرو جریل، نتش کمار، روی بشنوئی کی شکل میں 25 سال سے کم عمر انڈیا کے مستقبل کی نمائندی ہو گی۔ رنکو سنگھ 25 سال سے کچھ ہی زیادہ ہیں۔

انڈیا
Getty Images

ویسٹ انڈیز میں موجود تِم میں رویندر جدیجہ 35 سال سے زیادہ کے ہیں جبکہ سوریاکمار یادو 34 کے ہونے والے ہیں۔

عمر کے بجائے شاید فارم اور فٹنس کو اہم ہونا چاہیے۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی ایک مشکل فارمیٹ ہے جہاں تجربہ شاید ایک کھلاڑی کے حق میں ہر وقت کام نہیں آتا کیوں کہ حکمت عملی تیزی سے بدل رہی ہے اور ماضی کا فلسفہ کارگر نہیں رہا۔

جب کوہلی اور روہت شرما نے ٹی ٹوئنٹی میں نام کمانا شروع کیا تھا تو یہ ایک مختلف قسم کا فارمیٹ ہوا کرتا تھا۔

ان دونوں نے جس طرح سوریا کمار یادو اور جسوال جیسے بلے بازوں کے ہم پلہ ہونے کا ثبوت دیا وہ ان کی خود کو بدلنے کی صلاحیت دکھاتی ہے۔

یہ ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی حالیہ ورلڈ کپ کے بعد میدان چھوڑ دیں کیوںکہ اگر انڈیا ورلڈ کپ جیت گیا تو اس سے زیادہ بلندی پر اور کچھ نہیں ہے اور شکست کی صورت میں ان پر دوسروں کے لیے راستہ چھوڑنے کا دباؤ ہو گا۔ کھیل ظالمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

گذشتہ سال جب انڈیا نے ورلڈ کپ فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کھائی تھی تو پورا ملک جیسے سوگ کی کیفیت میں چلا گیا تھا۔ کھلاڑیوں کے دل ٹوٹے، لیکن شاید کوہلی اور روہت سے زیادہ کسی کا دل نہیں دکھا کیوں کہ دونوں نے ٹورنامنٹ میں بہت اچھا کھیلا اور انڈیا فائنل تک ناقابل تسخیر رہا تھا۔

اور پھر وہ ناکام ہوئے اور دونوں میں سے کسی کو بھی کندھوں پر نہیں اٹھایا گیا۔ وہ دونوں ہی جانتے تھَ کہ ایسا موقع شاید پھر نہیں آئے گا۔

اسی لیے اس ورلڈ کپ میں ایک آخری موقع ہے کیوں کہ نہ جانے کیوں کیریئر ورلڈ کپ کے تاج بنا ادھورے تصور کیے جاتے ہیں چاہے فارمیٹ کوئی بھی ہو۔ فتح تبدیلی کے عمل کا خوش کن آغاز ہوتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.