خوشگوار زندگی گزارنے والے جوڑے نے مہلک انجیکشن لگوا کر موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

تقریباً پانچ دہائیوں تک رشتہ ازدواج میں منسلک رہنے کے بعد جون کے اوائل میں جان اور ایلس نے ایک ساتھ موت کو گلے لگا لیا
جان اور ایلس کی وفات سے دو دن پہلے لی گئی تصویر
BBC
جان اور ایلس کی وفات سے دو دن پہلے لی گئی تصویر

تقریباً پانچ دہائیوں تک رشتہ ازدواج میں منسلک رہنے کے بعد جون کے اوائل میں جان اور ایلس نے اپنی مرضی سے ایک ساتھ موت کو گلے لگا لیا۔ ڈاکٹروں نے ان کی جانب سے زندگی ختم کرنے کی درخواست کی تعمیل کرتے ہوئے انھیں مہلک انجکشن لگائے تھے۔

انتباہ – اس تحریر میں موجود بعض تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

ایک ساتھ اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم کرنے کو ڈیویوتھنیزیا کہا جاتا ہے اور نیدرلینڈز میں اس کی قانونی اجازت ہے۔

’یوتھنیزیا‘ ایسی موت کو کہا جاتا ہے جس میں لاعلاج مرض یا انتہائی تکلیف میں مبتلا شخص کی درخواست پر ڈاکٹر کسی مریض کی موت بغیر کوئی تکلیف دیے ممکن بناتا ہے۔

ہر گزرتے سال کے ساتھ پہلے سے زیادہ ڈچ جوڑے اس طرح اپنی زندگی ختم کرنے کا انتخاب کررہے ہیں۔

رضاکارانہ طور پر اپنی آخری سانسیں لینے سے تین دن پہلے، جان اور ایلس کی کیمپروین نیدرلینڈز کے شمال میں واقع فریز لینڈ کی جیٹی کے پاس کھڑی تھی۔ یہ دونوں ہمیشہ سے بنجاروں جیسی زندگی گزارتے آئے ہیں اور انھوں اپنی شادی کے بعد کی زندگی کا بیشتر حصہ موٹر ہوم میں یا کشتیوں پر گزارا ہے۔

جان کہتے ہیں کہ انھوںنے کنکریٹ کے گھر جسے وہ پتھروں کا ڈھیر کہتے ہیں میں رہنے کی کوشش کی تھی۔

وہ 70 سال کے ہیں اور وین کی ڈرائیونگ سیٹ پر اپنی ایک ٹانگ نیچے دبائے بیٹھے ہیں۔ یہ وہ واحد پوزیشن ہے جس میں ان کو کمر کے مسلسل درد سے کچھ راحت ملتی ہے۔

ان کی اہلیہ ایلس 71 سال کی ہیں اور انھیں ڈیمنشیا یعنی بھولنے کی بیماری ہے۔ وہ پورے جملے بھی بمشکل ادا کر پاتی ہیں۔

ایلس کھڑی ہو کر اپنے جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہ صحیح کام کر رہا ہے۔ ’لیکن یہ بالکل ٹھیک نہِیں،‘ انھوں نے اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

جان اور ان کا بیٹا
BBC
جان اور ان کے بیٹے کی سنہ 1982 میں لی گئی تصویر

جان اور ایلس کی ملاقات بچپن میں ہوئی اور وہ زندگی بھر کے ساتھی بن گئے۔

اپنی جوانی میں جان نیدرلینڈز کی قومی نوجوان ہاکی ٹیم کا حصہ تھے بعد ازاں وہ سپورٹس کوچ بن گئے۔ ایلس نے بطور پرائمری سکول ٹیچر تربیت حاصل کی۔ لیکن ان دونوں کی کشتیوں اور جہاز رانی سے محبت تھی جو ان کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔

نوجوان جوڑے کے طور پر وہ ایک ہاؤس بوٹ پر رہتے تھے۔ بعد میں انہوں نے ایک کارگو بوٹ خرید کر نیدرلینڈ میں اندرون ملک آبی گزرگاہوں کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کا کاروبار شورع کیا۔

اس ہی دوران ایلس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو جنم دیا (وہ اس کا ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔)

ان کا بیٹا پورے ہفتے سکول کی بورڈنگ میں رہتا جبکہ چھٹی کے دن ان کے ساتھ گزارتا۔

سکول کی تعطیلات کے دوران جب جان اور ایلس کا بیٹا بھی ان کے ساتھ کشتی پر ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی کہ کام کی غرض سے وہ دلچسپ مقامات پر جائیں جیسے کہ دریائے رائن کے کنارے یا نیدرلینڈز کے جزیروں پر۔

سنہ 1999 تک اندرون ملک کارگو کے کاروبار میں مقابلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک محنت طلب کام کرنے کے باعث جان کو کمر کا شدید درد لاحق ہو گیا تھا۔

اس کے بعد جان اور ایلس نے چند برس خشکی پر گزارے لیکن وہ جلد ہی دوبارہ کشتی پر رہنے لگے۔ لیکن جب کشتی کی دیکھ بھال ان کے لیے مشکل ہو گئی تو انھوں نے ایک کشادہ کیمپروین خرید لیا۔

سال 2003 میں جان کی کمر کی سرجری ہوئی لیکن ان کے درد میں کمی نہیں آئی۔ انھوں نے درد کش ادویات لینی چھوڑ دیں جس کے بعد وہ مزید کام نہیں کر سکتے تھے۔

لیکن ایلس اب بھی تدریسی عمل سے منسلک تھیں۔

وہ اکثر آپس میں یوتھنیزیا کے بارے میں بات کرتے تھے۔ جان نے اپنے خاندان کو سمجھایا کہ وہ اس تکلیف کے ساتھ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنا چاہتا۔

یہی وہ وقت تھا جب اس جوڑے نے نیدرلینڈز کی تنظیم این وی وی ای (NVVE) میں شمولیت اختیار کی۔ یہ تنظیم لوگوں کو ان کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی کو ختم کرنے کا حق دینے کی وکالت کرتی ہے۔

جان کہتے ہیں کہ ’جب آپ بہت زیادہ دوائیں لیتے ہیں، تو آپ کسی زومبی کی طرح رہنے لگتے ہیں۔‘

‘لہذا، میری اپنی تکلیف اور ایلس کی بیماری کو دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اسے روکنا ہوگا۔‘

روکنے سے ان کی مراد ’زندگی روکنا‘ ہے۔

سنہ 2018 میں ایلس نے تدریس کے کام سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس وقت تک ان میں ڈیمنشیا کی ابتدائی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن وہ مسلسل ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکاری تھیں۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ انھوں نے اپنے والد کی الزائمر کی تشخیص اور ان کی موت کو قریب سے دیکھا تھا۔

لیکن بالآخر ایسا موقع آیا جب ایلس کی علامات کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔

نومبر 2022 میں جب ایلس میں ڈیمنشیا کی تشخیص ہوئی تو وہ اپنے شوہر اور بیٹے کو ڈاکٹر کے کنسلٹنگ روم میں چھوڑ کر باہر نکل گئیں۔

جان اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’وہ بہت غصے میں تھی۔‘

جب ایلس کو معلوم ہوا کہ ان کی حالت میں بہتری نہیں آنے والی تو انھوں نے اور جون نے اپنے بیٹے کے ساتھ یوتھنیزیا کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔

جون اور ایلس ایک ساتھ اس دنیا سے ایک ساتھ رخصت ہونا چاہتے تھے۔

یوتھنیزیا ریویو کمیٹیوں کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض کی اپنی زندگی ختم کرنے کی درخواست کی تعمیل کرتا ہے تو اسے یوتھنیزیا کہا جاتا ہے۔

اگر ڈاکٹر مریض کی زندگی ختم کرنے میں مدد کرتا ہے تو اسے معاون خودکشی کہا جاتا ہے۔

سنہ 2002 سے نیدرلینڈز میں دونوں طریقوں سے موت کو گلے لگانے کی اجازت ہے، لیکن قانون میں لکھے گئے ضوابط کے ذریعے اس کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

یوتھنیزیا کی درخواستیں اکثر ایسے مریضوں کی طرف سے آتی ہیں جو ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اور جن میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہوتی ہے۔

ہر وہ شخص جو یوتھنیزیا کی درخواست کرتا ہے اسے دو ڈاکٹرز اس کی معاونت فراہم کرتے ہیں جن میں سے ایک کام دوسرے کی جانب سے کی گئی تشخیص کو چیک کرنا ہوتا ہے۔

ایلس کی 1968 میں لی گئی تصویر
BBC
ایلس کی 1968 میں لی گئی تصاویر

سنہ 2023 میں، نیدرلینڈز میں 9,068 افراد نے یوتھنیزیا کے ذریعے موت کو گلے لگایا جو کہ کل اموات کا تقریباً 5 فیصد ہے۔

ان میں 33 جوڑے بھی شامل تھے۔

ڈیو یوتھنیزیا یا جوڑوں کی ایک ساتحھ یوتھنیزیا کے کیسز کافی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوجاتی ہے جب جوڑے میں سے ایک کو کو ڈیمنشیا ہو کیوں کہ اس بیماری کے نتیجے میں مریض کی رضامندی دینے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

ایراسمس میڈیکل سنٹر، روٹرڈیم سے منسلک روزمارائن وان بروچم کہتی ہیں، ’بہت سے ڈاکٹرز ڈیمنشیا کے مریض پر یوتھنیزیا پرفارم کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔‘

جان اور ایلس کے ڈاکٹر کی بھی ایسی ہی کچھ رائے تھی۔ یوتھنیزیا کے اعداد و شمار ڈاکٹروں کی اس بارے میں ہچکچاہٹ کی عکاسی کرتی ہے۔ سنہ 2023 میں مرنے والے ہزاروں میں سے 336 کو ڈیمنشیا تھا۔ تو ڈاکٹر ڈیمنشیا کے مریضوں میں ’ناقابل برداشت تکلیف‘ کے قانونی تقاضے کا اندازہ کیسے لگاتے ہیں؟

ڈاکٹر وان بروچم کہتی ہیں اکثر لوگوں کو ڈیمنشیا کے ابتدائی مرحلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ چیزیں آگے جاکر کیسے ہوں گی اور وہ اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

’کیا میں مستقبل میں وہ کام کر پاؤں گا جو میرے لیے اہم ہیں؟ کیا میں اپنے خاندان والوں کو نہیں پہچان پاؤں گا؟ اگر آپ اس بات کا صحیح طریقے سے اظہار کر پائیں اور آپ یوتھنیزیا پرفارم کرنے والے دونوں ڈاکٹروں کو قائل کر پائیں تو آنے والے حالات کا خوف یوتھنیزیا کی اجازت دیے جانے کے لیے کافی ہے۔‘

جان ایلس
BBC
جان اور ایلس کی شادی کے دن کی تصویر

جب جان اور ایلس کے ذاتی معالج یوتھنیزیا کے راضی نہ ہوئے تو انھوں نے مرکز برائے ماہر یوتھنیزیا سے رجوع کیا۔ گزشتہ سال اس مرکز نے نیدرلینڈز میں موت کے معاونت کے تقریباً 15 فیصد کیسز نگرانی کی تھی۔ اوسطاً اس مرکز کو موصول ہونے والی درخواستوں میں سے تقریباً ایک تہائی منظور ہوجاتی ہیں۔

جب کسی جوڑے کی ایک ساتھ اپنی زندگی ختم کرنے کی درخواست آتی ہے تو یہ تعین کرنا طبی ماہرین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ کہیں ایک پارٹنر دوسرے کے فیصلے پر اثر انداز تو نہیں ہو رہا۔

ڈاکٹر برٹ کائیزر نے دو جوڑوں کی یوتھنیزیا کے کیسز میں شرکت کی ہے۔

لیکن ان کو ایک اور جوڑے کا کیس بھی یاد ہے جہاں ان کو شک ہوا تھا کہ شوہر اپنی بیوی پر یوتھنیزیا کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر کائیزر نے خاتون سے اکیلے میں بات کی۔

وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس خاتون نے بتایا کہ ان کے بہت سارے منصوبے ہیں۔ ان کے مطابق اس خاتون کو اپنے شوہر کی بیماری کا احساس تھا لیکن وہ اس کے ساتھ مرنا نہیں چاہتی تھیں۔

اس کیس میں یوتھنیزیا کی اجازت نہیں دی گئی اور اس شخص کی موت قدرتی وجوہات سے ہوئی۔ اس کی بیوی آج بھی زندہ ہے۔

پروٹسٹنٹ تھیولوجیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹر تھیو بوئر کا شمار نیدرلینڈز میں یوتھنیزیا کے چند ناقدین میں ہوتا ہے۔ان کے خیال میں ہے کہ لوگوں کے دیکھ بھال میں بہتری سے اکثر یوتھنیزیا کے استعمال کی ضرورت میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

’میرے خیال میں ڈاکٹر کے ذریعہ موت جائز ہوسکتی ہے تاہم شاذ و نادر ہی ایسا ہونا چاہیے۔‘

ڈاکٹر بوئر کے لیے جوڑوں کا ایک ساتھ یوتھنیزیا کے کیسز پریشان کن ہیں۔ رواں سال کے آغآز میں نیدرلینڈز کے سابق وزیرِ اعظم اور ان کی اہلیہ نے ایک ساتھ یوتھنیزیا کے ذریعے موت کو گلے لگایا۔

ڈاکٹر بوئر کہتے ہیں کہ گزشتہ سال ڈیویوتھنیزیا کے درجنوں کیسز سامنے آئے ہیں اور کئی لوگ ایک ساتھ یوتھںیزیا کرنے والوں کو ہیرو کی نظر سے دیکھتے ہیں

’جان بوجھ کر اپنی جان لینے سے جڑی سماجی ناپسندیدگی ختم ہوتی جا رہی ہے خاص طور پر جب بات ڈیو یوتھنیزیا کی آتی ہے۔‘

جان اور ایلس شاید اپنے کیمپروین میں شاید غیر معینہ مدت تک زندہ رہتے۔

انھیں نہیں لگتا کہ ان کی موت جلد ہوگی۔

جان کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی گزار لی ہے۔ ’مجھے مزید درد نہیں چاہیے۔‘

’ہم نے جیسی زندگی گزاری ہے ہم [اس کے لیے] بوڑھے ہو رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اب اسے روک دینا چاہیے۔‘

ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ فی الحال ایلس اپنے لیے یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں کہ آیا وہ مرنا چاہتی ہیں یا نہیں لیکن اگر ان کا ڈیمنشیا مزید بڑھ جاتا ہے تو وہ یہ صلاحیت کھو بھی سکتی ہیں۔

جان اور ایلس کے بیٹے کے لیے یہ آسان نہیں تھا۔

جان اپنے بیٹے کے جذبات سمھتے ہیں کہ کوئی بھی اپنے والدین کو مرنے نہیں دینا چاہتا۔

’ہمارے بیٹے نے کہا کہ اچھا وقت آئے گا لیکن وہ وقت میرے لیے نہیں۔‘

ایلس بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔

’اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔‘

یوتھنیزیا کے ڈاکٹروں کے ساتھ ملاقات سے ایک دن قبل ایلس، جان، ان کے بیٹے اور پوتے پوتیاں ایک ساتھ تھے۔ اس دوران جان نے کیمپروین کے بارے میں تفصیل سے بتایا تا کہ اسے فروخت کرنے میں کوئی مشکل نہ آئے۔

جان اور ایلس کے بیٹے بتاتے ہیں کہ ’پھر میں اپنی ماں کے ساتھ ساحل سمندر پر ٹہلنے چلا گیا، بچے کھیل رہے تھے، تھوڑا بہت ہنسی مذاق ہوا۔۔۔ یہ ایک بہت عجیب دن تھا۔‘

'مجھے یاد ہے کہ ہم رات کا کھانا کھا رہے تھے اور سب کو ایک ساتھ آخری ڈنر کرتے دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘

پیر کی صبح سب مقامی ہسپتال میں جمع تھے۔ جان اور ایلس کے دوست، ان کے بھائی اور، ان کے بیٹے اور بہو موجود تھے۔

ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹروں کے آنے سے پہلے ہم نے دو گھنٹے ساتھ گزارے۔ ہم نے اپنی یادوں کے بارے میں بات کی۔۔۔ اور ہم نے موسیقی سنی۔‘

’آخری آدھا گھنٹہ مشکل تھا، ڈاکٹر آئے اور سب کچھ بہت جلدی ہوا۔ انھوں نے اپنی روٹین کے مطابق کام کیا اور پھر یہ محض چند منٹوں کی بات تھی۔‘

جان فیبر اور ایلس وان لیننگن کو ڈاکٹروں نے انجیکشن لگائے اور بالآخر پیر 3 جون 2024 کو وہ دونوں ایک ساتھ وفات پا گئے۔

ان کی کیمپروین ابھی تک فروخت نہیں ہوئی ہے۔ ایلس اور جان کے بیٹے نے کچھ وقت کے لیے اسے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اس پر چھٹیاں منانے جائیں گے۔

’میں بالآخر اسے بیچ دوں گا لیکن اس سے پہلے اپنے خاندان کے لیے کچھ یادیں بنانا چاہتا ہوں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.