مرتے وقت ہمارے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟

موت کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی پوری زندگی کی ایک جھلک ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہے۔ سائنسدانوں نے اس دوران دماغ میں تیز حرکات کا مطالعہ کیا ہے۔
دماغ
Getty Images

نیورو سائنسدانجیمو بورجگن کو اس بات پر حیرانی ہوئی جب انھوں نے غور کیا کہ ہمیں اس بارے میں کوئی ’خاص معلومات نہیں‘ کہ جب ہم مرنے والے ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔ حالانکہ مرنا ’زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔‘

یہ بات ’حادثاتی‘ طور پر ایک دہائی پہلے ان کے سامنے آئی۔

بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’ہم چوہوں پر تجربات کر رہے تھے اور سرجری کے بعد ان کے دماغ میں پیدا ہونے والے نیوروکیمکل سکریشنز کو مانیٹر کر رہے تھے۔‘

اچانک ان میں سے دو چوہے مر گئے۔ ان کی موت نے ڈاکٹر بورجگن کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ موت کے دوران دماغ کا جائزہ لے سکیں۔

انھوں نے کہا ’ان دو چوہوں میں سے ایک کے دماغ سے سیروٹونن یعنی موڈ کو بہتر کرنے والا کیمیکل نکل رہا تھا۔‘ انھوں نے سوچا کہ ’کیا اس وقت چوہے کو غیر مرئی چیزیں نظر آ رہی تھیں؟‘ کیونکہ ہیلوسینیشن (فریب خیال میں مبتلا ہونا) سیروٹونن سے منسوب ہے۔‘

موت کے وقت چوہوں کے دماغ میں پیدا ہونے والے نیورو ٹرانسمیٹر کے دھماکے نے ان کو تجسس میں ڈال دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اس پر تحقیق شروع کر دی یہ سوچ کر موت کے وقت سیروٹونن نکلنے کی کوئی تو وجہ ہوگی لیکن میں حیران رہ گئی کیونکہ اس پر بہت کم معلومات موجود ہے۔‘

تب سے ڈاکٹر بورجگن، جو مشیگن یونیورسٹی میں مالیکیولر اور انٹیگریٹیو فزیالوجی اور نیورولوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، نے اپنی زندگی اسی تحقیق کے لیے وقف کر دی کہ مرتے وقت ہمارے دماغ میں کیا ہوتا ہے؟

اور انھیں جو چیزیں پتا چلیں اس کے سامنے ان کے تمام گمان غلط ثابت ہوئے۔

دماغ
Getty Images

موت کی تعریف

انھوں نے بتایا کہ ایک طویل عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ اگر کسی کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد اس کی نبض بند ہو گئی ہے تو انھیں طبی لحاظ سے مردہ قرار دے دیا جاتا تھا۔

اس عمل کے دوران ساری توجہ دل پر ہوتی ہے۔ ’اسے دل کا دورہ کہتے ہیں۔ دماغ کا دورہ نہیں۔‘

’سائنس کے مطابق دماغ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کام نہیں کر رہا کیونکہ لوگ جواب نہیں دیتے۔ نہ یہ لوگ بول سکتے ہیں، نہ کھڑے ہو سکتے ہیں، نہ بیٹھ سکتے۔‘

دماغ کو بہت زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر دل خون پمپ نہیں کرتا تو دماغ تک آکسیجن نہیں پہنچتی۔

انھوں نے وضاحت کی کہ ’بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ دماغ نے کام کرنا بند کر دیا ہے یا کم از کم دماغ بے حد سست ہو گیا ہے۔‘

لیکن ان کی ٹیم کی تحقیق سے کچھ اور ہی سامنے آیا ہے۔

جب دماغ ’نارمل سے زیادہ تیز‘ کام کرنے لگے

سنہ 2013 میں چوہوں پر ہوئی ایک تحقیق کے مطابق جب چوہوں کے دل رکے تو دماغ کے نیورو ٹرانسمٹرز میں شدید حرکت نظر آئی۔

’سیروٹونن میں 60 گنا اور ڈوپامین یعنی وہ کیمیکل جس سے آپ کو خوشی ہوتی ہے، اس میں بھی 40 سے 60 گنا تک شدید تیزی آئی۔‘

’اور نوریپائنفرین، جس سے آپ چوکنے ہو جاتے ہیں، وہ سو گنا بڑھ گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کیمیکلز میں اس قدر زیادتی جانور کی زندگی میں ناممکن ہے۔ سنہ 2015 میں، ٹیم نے چوہوں کی موت پر ایک اور تحقیق شائع کی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’دونوں تحقیقات میں سو فیصد جانوروں کے دماغوں میں کافی زیادہ حرکت ہوئی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’دماغ ہائیپر ڈرائیو میں چلا جاتا ہے یعنی نارمل سے زیادہ تیز کام کرنے لگتا ہے۔‘

دماغ
Getty Images

گاما ویوز

سنہ 2023 میں انھوں نے ایک اور تحقیق شائع کی جس میں انھوں نے چار ایسے مریضوں پر غور کیا جو کوما میں تھے اور انھیں لائف سپورٹ یعنی زندہ رکھنے والی مشینوں پر ڈال دیا گیا تھا۔

ان کے دماغ کی حرکت کو سکین کرنے کے لیے اسے الیکٹرو اینسفالوگرافی الیکٹروڈ لگا دیے تھے۔ وہ چار لوگ مرنے والے تھے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ڈاکٹر اور گھر والوں کو ’لگا کہ اب ان کی مزید مدد نہیں کی جا سکتی۔ دنیا سے جانے والوں کو جانے دینا چاہیے۔‘

لواحقین کی اجازت سے ان کے وینٹی لیٹرز، جس کی بدولت وہ زندہ تھے، کو بند کر دیا گیا۔ محققین کو پھر پتا لگا کہ ان میں سے دو مریضوں کے دماغوں میں تیز حرکت ہوئی تھی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دماغ میں سوچنے، سمجھنے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔

گاما ویوز جو دماغ کی تیز ترین ویوز ہیں، ان کا بھی سراغ ملا۔ گاما ویوز دماغ میں پیچیدہ معلومات کو پراسیس کرنے کے عمل اور یاداشت بنانے میں شامل ہوتی ہیں۔

ان میں سے ایک مریض کے دماغ کے دونوں دائیں اور بائیں ٹیمپورل لوبز (حصے) میں شدید حرکت تھی۔ ٹیمپورل لوبز انسان کے احساسات اور جذبات، زباناور پانچوں حواس سے ملنے والی معلومات کو عمل میں لاتے ہیں۔

ڈاکٹر بورجگن نے کہا کہ دایاں ٹیمپورل جنکشن احساس کے لیے اہم ہے۔

’کئی مریض، جنھوں نے دل کا دورہ برداشت کیا ہو یا موت کے قریب سے گزرے ہوں، ان کا کہنا ہے کہ ایسے تجربات نے ان کو بہتر انسان بنایا اور انھیں دوسرے انسانوں کا احساس کرنے کی صلاحیت ملی۔‘

دماغ
Getty Images

یہ بھی پڑھیے

موت کو قریب سے دیکھنے کے تجربات

وہ لوگ جنھیں موت کے قریب سے گزرنے کا تجربہ ہے، جسے انگریزی میں نیئر ڈیتھ ایکسپیرینس یا این ڈی ای بھی کہتے ہیں، ان میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ موت کے قریب ان کی پوری زندگی کی ایک جھلک ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزری یا انھیں زندگی کی اہم لمحات یاد آئے۔

کئی لوگوں نے کہا کہ انھیں ایک چنگھاڑتی ہوئی تیز روشنی نظر آئی جبکہ کچھ نے کہا کہ انھیں ایسا لگا جیسے وہ اپنے جسم سے باہر آ گئے ہیں اور اوپر سے اپنے آپ سمیت منظر کو دیکھ رہے ہیں۔

کیا دماغ کی اس قدر تیز حرکت جو ڈاکٹر بورجگن کی تحقیق میں سامنے آئی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مرنے کے قریب کچھ لوگوں کو ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے؟

ڈاکٹر بورجگنکہتی ہیں کہ ’ہاں۔ یہ ممکن ہے۔‘

'کم سے کم 20 سے 25 فیصد ایسے لوگ جن کو دل کا دورہ پڑنے کا تجربہ ہے، انھوں نے بتایا ہے کہ انھیں سفید روشنی دکھائی دیتی ہے یا کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کا ویژیول کارٹیکس، یعنی وہ حصہ جس سے ہمیں کیا نظر آ رہا ہے اس کی سمجھ آتی ہے، وہ حرکت میں آ جاتا ہے۔‘

ان دو مریضوں کے معاملے میں جن میں وینٹی لیٹرز بند ہونے کے بعد دماغ میں ہونے والی حرکت کی شدت زیادہ تھی، محقق کا کہنا ہے کہ ان کے ویژول کارٹیکس میں شدید حرکت سامنے آئی ’جسے ممکنہ طور پر ان کے این ڈی ای کے دوران نظر آنے کے تجربے سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔‘

دماغ
Getty Images

موت کو سمجھنے کے لیے ایک نئی سوچ

ڈاکٹر بورجگن نے تسلیم کیا کہ ان کی تحقیق میں بہت کم تعداد میں لوگ شامل ہیں اور اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس وقت ہم مر رہے ہوتے ہیں تو دماغ میں کیا ہوتا ہے۔

تاہم اس موضوع پر 10 سال سے زیادہ تحقیق کرنے کے بعد ایک بات واضح ہو گئی ہے۔ انھوں نے کہا ’میرے خیال میں ہائپو ایکٹیو یعنی نارمل سے زیادہ سست ہونے کی بجائے دل کے دورے کے دوران دماغ ہائیپر ایکٹو ہوتا ہے۔‘

لیکن دماغ میں اس وقت کیا ہوتا ہے جب اسے معلوم پڑتا ہے کہ اسے آکسیجن نہیں مل رہی؟

انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ واقعی، اس کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں۔‘

ہائیبر نیشن جس میں جانور سردیوں میں طویل عرصے کے لیے زمین کے نیچے جا کر سو جاتے ہیں، اس طرز عمل کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر بورجگن نے کہا کہ جانوروں کی طرح، جن میں انسان اور چوہے بھی شامل ہیں، ان میں ایک اینڈوجینس میکینزم موجود ہے جو آکسیجن کی کمی سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔

'ابھی تک دماغ کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دل کا دورہ پڑنے کا ایک عینی شاہد ہے۔ جب دل رک جاتا ہے تب دماغ مر جاتا ہے۔ اس وقت یہی سوچ ہے کہ دماغ موت کا سامنا نہیں کر پاتا اور بس، کام کرنا بند کر دیتا ہے۔‘

لیکن انھوں نے اصرار کیا کہ ہم یہ بات یقینی طور پر نہیں کر سکتے۔

ان کا ماننا ہے کہ دماغ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانتا۔ جیسے کسی بھی آزمائش سے نمٹنے کے لیے دماغ لڑتا ہے، اسی طرح موت واقع ہوتے وقت بھی وہ حرکت میں آ جاتا ہے۔

’ہائیبر نیشن اس بات کی ایک اچھی مثال ہے جس کی وجہ سے میرا ماننا ہے دماغ میں وہ ذرائع موجود ہیں جو آکسیجن کی کمی سے نمٹنے یا ایسی کسی بھی آزمائش سے نکلنے کے لیے ہماری مدد کریں۔ لیکن اس بات کی ابھی تحقیق کی ضرورت ہے۔‘

دماغ
Getty Images

موت سے متعلق انکشافات ابھی باقی ہیں

ڈاکٹر بورجگن کا خیال ہے کہ تحقیق میں جو ان کے اور ان کی ٹیم کے سامنے آیا ہے وہ ایک تالاب میں قطرے کے برابر ہے۔ اس موضوع پر ابھی بہت کچھ دریافت ہونا باقی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ دماغ میں اینڈوجینس میکنزم موجود ہے جو ہائیپوکزیا یعنی آکسیجن کے رک جانے سے نمٹنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ لیکن فی الوقت ہمیں اس کی سمجھ نہیں ہے۔‘

’سطحی طور تو پر ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوں کو دل کا دورہ پڑتا ہے وہ یہ حیرت انگیز اور انفرادی تجربہ رکھتے ہیں اور ہمارے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تجربہ دماغ میں ہونے والی حرکت میں اضافے کی وجہ سے ہے۔‘

لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ عین موت کے وقت دماغ میں حرکت کیوں بڑھ جاتی ہے جب کہ اس وقت تو اسے مکمل طور پر غیر فعال ہو جانا چاہیے؟

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں مل کر اس بات کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم سینکڑوں لوگوں کو قبل از وقت مردہ قرار دے دیتے ہیں صرف اس لیے کیونکہ ہم موت کے نظام کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.