ایران میں صدارتی انتخاب: مسعود پزشیکان کو سعید جلیلی پر 20 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی واضح برتری حاصل

ایران میں قبل از وقت صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے نتائج کا اعلان کیا جا رہا ہے جس میں ملک کے الیکشن ہیڈ کوارٹر کے مطابق اس وقت اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان کی سخت گیر سیاسی رہنما سعید جلیلی پر برتری 20 لاکھ ووٹوں سے تجاوز کر گئی ہے۔
Masoud Pezeshkian
Reuters

ایران میں قبل از وقت صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے نتائج کا اعلان کیا جا رہا ہے جس میں ملک کے الیکشن ہیڈ کوارٹر کے مطابق اس وقت اصلاح پسند امیدوار مسعود پزشکیان کی سخت گیر سیاسی رہنما سعید جلیلی پر برتری 20 لاکھ ووٹوں سے تجاوز کر گئی ہے۔

بی بی سی فارسی کے مطابق الیکشن ہیڈ کوارٹر نے اعلان کیا ہے کہ اب تک دو کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کی جا چکی ہے جن میں مسعود پزشیکان نے اب تک کی گنتی کے مطابق ایک کروڑ 27 لاکھ سے زیادہ جبکہ سعید جلیلی نے ایک کروڑ چار لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔

گذشتہ روز ایران میں 14ویں صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ رات 12 بجے تک جاری رہی تھی۔

یاد رہے کہ 28 جون کو ایران میں صدارتی انتخاب منعقد ہوئے تھے، تاہم انتخاب میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکا جس کے بعد پانچ جولائی کو صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ملک کے انتخابی ہیڈ کوارٹر کے اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں ووٹرز کی شرح 40 فیصد رہی تھی جو کہ ایرانی صدارتی انتخاب کے تمام ادوار میں سب سے کم شرح ہے۔

خیال رہے کہ ابراہیم رئیسی 2021 میں ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے اور معمول کے شیڈول کے تحت صدارتی انتخاب 2025 میں ہونا تھا تاہم مئی میں ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد صدارتی انتخاب قبل ازوقت منعقد ہوئے۔

اس ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے وزیر خارجہ امیر حسین اور دیگر چھ ایرانی عہدیدار بھی ہلاک ہوئے تھے۔

جمعے کو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے پولنگ کے آغاز میں اپنا ووٹ ڈالتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ’میں نے سنا ہے کہ لوگوں کا جوش اور دلچسپی پہلے سے زیادہ ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔‘

صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے موقع پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے پہلے مرحلے میں ووٹرز کی شرح کو ’توقع سے کم‘ قرار دیتے ہوئے دوسرے مرحلے میں زیادہ ووٹرز کی شرکت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی یہ تصور کرتا ہے کہ لوگوں نے اس لیے ووٹ نہیں ڈالا کہ وہ نظام کے خلاف تھے، یہ بات غلط ہے۔‘

اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخاب کے دوران سختیاں کی جاتی ہیں۔ ہر امیدوار علما کی ایک بااثر کمیٹی کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ہی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ ملک کے عوام اس عمل سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں اور اکثر ووٹ دینے سے کتراتے ہیں۔

تاہم اس بار ایک ایسا شخص ایران کے صدارتی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے جو اصلاح پسند ہے اور امراض قلب کے سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ سابق وزیر صحت ہے۔

اصلاح پسند سمجھے جانے والے مسعود پزشکیان خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کے سحت ناقد ہیں جبکہ ان کے مخالف ایک سخت گیر سیاسی رہنما سعید جلیلی ہیں جو سٹیٹس کو کے حامی ہیں۔

سعید جلیلی، ایک سابق جوہری مذاکرات کار جنھیں ایران کی سب سے زیادہ مذہبی برادریوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہ اپنے سخت گیر مغرب مخالف موقف اور جوہری معاہدے کی بحالی کی مخالفت کے لیے جانے جاتے ہیں۔

ایرانی صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں مسعود پزشکیان کو 10 لاکھ سے سے زیادہ ووٹ پڑے تھے جو مجموعی طور پر 42 فیصد تھے۔ انھوں نے سیستان اور بلوچستان کے علاوہ تہران اور ایران کے شمال مغربی اور مغربی صوبوں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ سعید جلیلی کو نو لاکھ لاکھ سے زیادہ اور مجموعی طور پر 38 فیصد ووٹ ملے تھے۔ انھیں ایران کے مشرقی، وسطی اور جنوبی صوبوں میں سب سے زیادہ ووٹ ملے۔

دونوں صدارتی امیدواروں کو انتخاب لڑنے کے لیے نگہبان شوریٰ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عالم دین اور قانونی ماہرین پر مبنی ایک ادارہ ہے جس میں 12 ممبران ہوتے ہیں۔ حالیہ انتخابا میں نگہبان شوریٰ نے خواتین سمیت74 دیگر صدارتی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو منظور نہیں کیا۔

واضح رہے کہ ایران میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والا ادارہ نگہبان شوریٰ (گارڈئین کونسل) ہے۔ اس کے پاس پارلیمان سے منظور شدہ قوانین کو مسترد کرنے کا حق ہے۔ یہ پارلیمان، صدارت اور مجلس خبرگان رہبری کے انتخاب کے لیے لوگوں کو امیدوار بننے سے روک سکتی ہے۔

ایران کی نگہبان شوریٰ پر انسانی حقوق کے گروہوں سے تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیتے ہیں جو حکمران کے وفادار نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیے

اصلاح پسند مسعود پزشکیان کون ہیں؟

ایران کے سخت گیر اور قدامت پسند حلقوں سے باہر وہ ایک ایسے صدارتی امیدوار ہیں جو ملک کے اندرونی اور بیرونی محاذ پر الگ حکمت عملی اپنانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔

70 سالہ مسعود پزشکیان ایران کے علاقے ماہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ارمیا میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد، انھوں نے ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے تبریز یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔

وہ ایک ہارٹ سرجن ہیں اور سابق وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں۔

مسعود پزشکیان نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر کریں گے اور جوہری مذاکرات کو بحال کریں گے تاکہ ملک کی معیشت کو کمزور کرنے والی عالمی پابندیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

مسعود کو عوامی سطح پر دو سابق اصلاح پسند صدور کی حمایت بھی حاصل ہے جن میں حسن روحانی اور محمد خاتمی شامل ہیں۔ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کے حامیوں میں شامل ہیں۔

مسعود پزشکیان خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس کو ’غیر اخلاقی‘ قرار دے چکے ہیں۔

ایران میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ان قوانین کی کھل کر خلاف ورزی کرتی ہے۔70 سالہ مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ’اگر مخصوص کپڑے پہننا گناہ ہے تو خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ اختیار کیا جانے والا یہ رویہ 100 گنا بڑا گناہ ہے۔ مذہب میں کسی کے لباس کی وجہ سے ان سے سختی کی اجازت نہیں۔‘

مسعود پزشکیان دوسری اصلاحاتی حکومت میں صحت اور طبی تعلیم کے وزیر تھے۔وہ پانچ بار ایران کی پارلیمنٹ کے رکن اور ایک بار اس کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران مسعود پزشکیان کے وعدے سماجی انصاف، متوازن ترقی اور اصلاحات پر مرکوز رہے۔

انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ وہ ایک شفاف معاشی نظام تشکیل دے کر اور بدعنوانی سے لڑ کر، اقتصادی ترقی کے لیے بنیاد فراہم کریں گے، اور ان کا خیال ہے کہ اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات کر کے اور سرمایہ کاری کے لیے ایک مناسب پلیٹ فارم تیار کر کے، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور بدعنوانی کو کم کرنا ممکن ہے۔

انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں صحت کے نظام میں اصلاحات، طبی خدمات کے معیار کو بہتر بنانا اور علاج کے اخراجات کو کم کرنا سمیت ملک میں تعلیمی حالات کو بہتر کرنے اور سکولوں اور یونیورسٹیوں کے معیار کو بڑھانے کے وعدے بھی کیے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.