خزانے کی تلاش میں انسانی قربانی کی روایت: جب مصر میں قدیم مقبرہ کھولنے کے لیے ایک بچے کے ہاتھ کاٹ دیے گئے

قدیم تہذیبوں میں روحوں اور جنات کی خوشنودی اور خزانے کی تلاش کے لیے انسانی قربانی دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔

قدیم تہذیبوں میں روحوں اور جنات کی خوشنودی اور خزانے کی تلاش کے لیے انسانی قربانی دینے کی مثالیں ملتی ہیں۔

اکثر و بیشتر اس کام کی غرض سے جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی تاہم تاریخ میں انسانوں کی قربانی یا بَلی دیے جانے کی بھی کئی روایات ملتی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس طرح کی روایات بالکل معدوم ہوتی گئیں لیکن ایسے واقعات اب بھی سامنے آتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اب بھی ایسی روایات پر یقین رکھتے ہیں۔

قدیم خزانے کی تلاش میں انسانی قربانی دینا ایک ایسا جرم ہے جس سے مصر والے بخوبی واقف ہیں۔

مصر میں کئی لوگوں کا خیال ہے قدیم تہذیب میں ایسے عقائد موجود تھے اور وہ اسے فرعونوں کے دور کے مقبروں سے جوڑتے ہیں۔

وہ مانتے ہیں کہ ایسے مقبروں کی حفاظت پر روحیں تعینات ہوتی ہیں اور انھیں کسی ’شیخ‘ یا عامل کی موجودگی میں ہی کھولا جانا چاہیے جو جادو جانتے ہوں۔

ایسے مبینہ شیخ اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قبر کی حفاظت پر تعینات روح کو طلب کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے وہ بھاری رقم اور خون کا نذرانہ مانگتے ہیں۔

عام طور پر اس کے لیے جانوروں کے خون کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ روح انسانی خون کا مطالبہ کر رہی ہے، خاص طور پر بچوں کا خون۔

حال ہی میں پیش آنے والے ایسے ہی واقعے کے بعد مصر بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

فرعون کا مورال
AFP
قدیم مصر میں خزانے کو دفن کر دیا جاتا تھا

حال ہی میں بالائی مصر میں اسیوط ضلع کے زرعی علاقے سے ایک 8 سالہ بچے کی لاش ملی جس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے تھے۔

یہ بچہ قتل سے چار روز پہلے گھر سے لاپتہ ہوا تھا۔ اس کی لاش اس کے والد اعصام ابو الوفا کو کھیتوں سے ملی۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ بچے کے ہاتھ کاٹے جانے کا تعلق نوادرات کی غیر قانونی کھدائی سے ہے۔ پولیس نے آٹھ سالہ بچے کے قتل کے الزام میں تین بھائیوں کو گرفتار کیا ہے جو ابو الوفا کے رشتہ دارہیں۔

استغاثہ کے ایک بیان کے مطابق ان میں سے دو افراد نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بچے کے ہاتھ نوادرات اور خزانے تلاش کرنے والے ایک شخص کو فروخت کرنے کے لیے کاٹے جو اس کا استعمال غیر قانونی طور کھدائی کے دوران ایک قدیم مصری خزانے تک پہنچنے کے لیے کرنے والا تھا۔

’میرے بچے کے قاتل میرے ساتھ مل کر اسے تلاش کر رہے تھے‘

ابو الوفا پیشے کے اعتبار سے ایک ڈرائیور ہیں۔ انھوں نے بی بی سی عربی کو بتایا: ’مجھے اب بھی اپنے بیٹے محمد کے ساتھ گزارے اپنے تمام لمحے یاد آتے ہیں۔ جب بھی میں اکیلا ہوتا ہوں تو میں انھیں یاد کر کے روتا ہوں اور مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا ہے۔‘

’وہ روز میرے کام سے واپس آنے کا انتظار کرتا تھا۔‘

ابو الوفا کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ محمد کے ساتھ کبھی کچھ برا ہو سکتا ہے کیونکہ تمام گاؤں والے اسے اچھی طرح جانتے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب پولیس کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ میرے بچے کو قتل کرنے والے میرے کزن تھے جو اس کے ساتھ ہی کھیلتے تھے اور میرے ساتھ مل کر اسے تلاش بھی کر رہے تھے تو یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری۔‘

یہ پہلا واقعہ نہیں

یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مصر میں حالیہ برسوں میں اس قسم کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

ستمبر 2021 میں سرکاری اخبارات میں یہ خبر بڑے پیمانے پر رپورٹ کی گئی تھی کہ بالائی مصر کے ایک گاؤں میں ایک نوجوان کو قتل کر کے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔

مقامی خبروں کے مطابق مقتول کے چچا، خالہ اور کزن نے قتل کا اعتراف کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک قدیم مقبرے کو کھولنے کے لیے اس کی لاش کو مقبرے کی حفاظت پر تعینات روح کو قربانی کے طور پر پیش کیا تھا۔

اسی طرح سنہ 2023 میں بھی ایک شخص نے ایک لڑکی کا اس کے والد کے سامنے ان کے گھر پر ہی ریپ کیا۔ اس شخص نے بعد میں دعویٰ کیا کہ اس نے ایسا گھر کے نیچے موجود ایک قدیم قبر کھولنے کے لیے ایک جن کے حکم پر کیا تھا۔

لڑکی کے باپ کو گرفتار کر لیا گيا اور جیل میں ہی اس کی موت ہو گئی۔ جبکہ ملزم بھی سزا سنائے جانے کے کئی مہینوں بعد فوت ہو گیا۔

’قدیم مصری تہذیب میں اس کے شواہد نہیں‘

بالائی مصر میں ایک کھدائی کے دوران
BBC
مصر میں نوادرات کو تحفظ حاصل ہے

قاہرہ یونیورسٹی میں آثار قدیمہ اور قدیم مصری تہذیب کے پروفیسر ڈاکٹر احمد بدران کا خیال ہے کہ یہ جرائم خاص طور پر بالائی مصر میں قدیم نوادرات کو تلاش کر کے جلدی سے امیر ہونے کی خواہش میں کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نام نہاد ’دھوکے باز شیخ‘ لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کے گھر کے نیچے خزانہ یا قبر ہے جس کی حفاظت پر کوئی ’جن‘ یا ’روح‘ تعینات ہے جو انسانی خون کے بدلے ان کے لیے قبر کے دروازے کھول دے گا۔

ڈاکٹر بدران کہتے ہیں: ’قدیم مصری قبروں میں دفنائے گئے خزانوں کو چوری سے بچانے کے لیے انھیں چھپاتے ضرور تھے لیکن وہ ان کی حفاظت کے لیے کسی جن یا روح کو استعمال نہیں کرتے تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ تمام سائنسی اور آثار قدیمہ کی کھدائیاں کسی قسم کی ’قربانی یا خونریزی کے بغیر‘ ہوئی ہیں۔

انھوں نے ’آگاہی بڑھانے، سخت قانونی سزاؤں اور جعلی شیخوں کا مقابلہ کرنے‘ پر زور دیا۔

قانونی تحفظ

یاد رہے کہ مصر میں نوادرات کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

ملک کے آئین کے آرٹیکل 49 میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست نوادرات کی حفاظت اور ان کے تحفظ، ان کے علاقوں کی دیکھ بھال اور بحالی، چوری شدہ نوادرات کی واپسی، آثار قدیمہ کی کھدائی اور ان کی نگرانی، اور کسی بھی چیز کو بطور تحفہ دینے اور ان کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کی پابند ہے۔‘ اس کے علاوہ آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانا اور ان کی سمگلنگ قابل سزا جرم ہے۔

آرٹیکل 42 یہ بتایا گیا ہے کہ جو نوادرات کی چوری کرتا ہے، یا انھیں چھپاتا ہے، یا کسی سرکاری ملکیت میں تصرف کرتا ہے اسے کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا اور تین ہزار پاؤنڈ سے سے لے کر 50 ہزار پاؤنڈ تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ غیر قانونی آثار قدیمہ کی کھدائی سے منسلک جرائم کے لیے مصر کے قانون میں جو سزا ہے وہ کافی نہیں ہے خاص طور پر قتل کے معاملات میں۔

تاہم مصری عدلیہ نے بعض معاملات میں تعزیرات مصر کی دیگر شقوں کا اطلاق کرتے ہوئے سخت سزائیں بھی عائد کی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.