آسٹریلیا کی وہ سینیٹر جنھوں نے اپنی ہی حکومت اور پارٹی کے موقف کو ٹھکرا کر فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت کی

آسٹریلیا کی پہلی حجاب پہننے والی سینیٹر فاطمہ پیمان نے فلسطینی ریاست کا درجہ دینے کی تحریک کی حمایت میں آسٹریلیا کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے موقف کے خلاف ووٹ دینے کے چند دن بعد پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
فاطمہ پیمان
Reuters
فاطمہ پیمان

آسٹریلیا میں حجاب پہننے والیپہلی سینیٹر فاطمہ پیمان نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا مگر کچھ روز بعد انھیں پارٹی سے مستعفی ہونا پڑا۔

لیبر پارٹی ان لوگوں کے لیے نرم نہیں ہے جو اس کی پالیسی کو کمزور کرتے ہیں اور فاطمہ پیمان نے تو دوبارہ ایسا کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جس کے بعد پارٹی نے انھیں پہلے ہی ’غیر معینہ مدت کے لیے معطل‘ کر دیا تھا۔

لیکن ملک میں ایک ایسا حلقہ بھی ہے جہاں انھیں حمایت حاصل ہے اور جب وہ گذشتہ دنوں پرتھ ایئرپورٹ پہنچیں تو ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جاری کردہ فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر فلسطین کے معاملے پر مغرب کے ’دوہرے رویے‘ کو ایک عرصے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن غزہ کی حالیہ صورتحال کے بعد بہت سے ممالک نے کھل کر اس پر بات کی ہے۔

29 سالہ نوجوان سینیٹر نے جمعرات کو کہا کہ ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر میں سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ وہ اس فیصلے پر 'شدید دل گرفتہ' ہیں۔

آسٹریلین وزیر اعظم انتھونی البانی نے کہا کہ پیمان نے ان کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے اور ان الزامات کی تردید کی ہے کہ ان پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا یا دھمکایا گیا تھا۔

فاطمہ پیمان
Getty Images

دھمکیوں کا دعوی

بہر حال پارٹی سے استعفی دینے کے بعد فاطمہ پیمان اب ایک آزاد سینیٹر کے طور پر کراس بینچ میں شامل ہوں گی۔

بہت سے لوگ انھیں افغانستان واپس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ وہاں آرام سے اسلامی قانون کے تحت زندگی گزار سکتی ہیں۔

انھوں نے لیبر پارٹی سے مستعفی ہونے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’اپنے ساتھیوں کے برعکس میں جانتی ہوں کہ ناانصافی کا شکار ہونے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ’میرا خاندان جنگ زدہ ملک سے بھاگ کر یہاں پناہ گزین کے طور پر نہیں آیا تھا لیکن جب میں بے گناہ لوگوں پر مظالم دیکھتی ہوں تو خاموش نہیں رہ سکتی۔‘

غزہ کا تنازع آسٹریلیا میں ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے جسے تمام فریقوں نے احتیاط سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔

فاطمہ پیمان نے کہا کہ گذشتہ منگل کو جب انھوں نے فلسطین کے متعلق اپنی پارٹی کے موقف سے ہٹ کر گرینز پارٹی کے ساتھ ووٹ ڈالے تھے تو انھیں کچھ ساتھیوں کی جانب سے 'بہت زیادہ حمایت' ملی جبکہ دوسروں کی جانب سے 'پارٹی کے موقف پر چلنے کے لیے دباؤ' رہا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کے نمائندوں کی طرف سے انھیں 'موت کی دھمکیاں اور ای میلز' بھی موصول ہوئی ہیں۔

فاطمہ پیمان کون ہیں؟

فاطمہ پیمان کے والدین کا تعلق افغانستان سے ہے۔ 29 سالہ مسلم قانون ساز کا خاندان سنہ 1996 میں افغانستان کے طالبان کے ہاتھوں میں آنے کے بعد ملک سے نقل مکانی کی تھی اور آسٹریلیا پہنچا تھا۔

وہ آسٹریلیا کی پہلی اور واحد حجاب پہننے والی وفاقی سیاست دان ہیں جبکہ تیسری سب سے کم عمر سینیٹر ہیں۔

فاطہ پیمان سنہ 1995 میں کابل میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے چار بھائی بہنوں میں سب سے بڑی ہیں۔

آسٹریلیا آنے سے قبل وہ تین سال تک پاکستان میں رہیں جبکہ ان کی فیملی سنہ 2003 میں آسٹریلیا کے شہر پرتھ منتقل ہوئی۔

انھوں نے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے بی اے اور اسی یونیورسٹی سے فارمیسی میں گریجویٹ ڈپلومہ کرنے سے قبل آسٹریلین اسلامی کالج سے تعلیم حاصل کی۔

ڈبلیو اے ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے فاطہ پیمان نے بتایا کہ حکومت کی منتقلی کے بعد بھاگ کر پاکستان پہنچے تھے۔ اس کے بعد ان کے والد سنہ 1999 میں ایک پناہ گزین کے طور پر آسٹریلیا میں داخل ہوئے۔ ان کا خاندان چار سال بعد وہاں پہنچا جب پیمان آٹھ سال کی تھیں۔

وہ کہتی ہیں: ’ہماری افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہم نشانے پر تھے۔'

طالبان نے افغانستان کے رکن پارلیمان کو ملک کے غدار کے طور پر دیکھا اور ان کے دادا رکن پارلیمان تھے۔

فاطمہ اپنے والدین کے ساتھ
BBC
فاطمہ اپنے والدین کے ساتھ

سیاست میں دادا کی وجہ سے دلچسپی

پیمان کا کہنا ہے کہ ان کے دادا ہی نے ان میں اور ان کے والد دونوں میں سیاست کے تئیں دلچسپی پیدا کی۔

مز پیمان کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ان کے والد کو اپنے والد کے افغان پارلیمنٹ کا حصہ ہونے پر بہت فخر تھا۔۔۔ وہ ہمیشہ اس بارے میں بات کرتے کہ وہ مجھے افغانستان واپس کیسے لے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ میں منتخب ہو جاؤں تاکہ ہم وہاں کے مسائل کو حل کر سکیں۔'

بہر حال پیمان کے والد 47 سال کی عمر میں سنہ 2018 میں لیوکیمیا کی وجہ سے فوت ہو گئے۔ پیمان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن ان کی بیٹی افغانستان کے بجائے آسٹریلوی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو گی۔

انھوں نے فارمیسی کی تعلیم حاصل کی لیکن یونین کی تحریک میں ان کی زیادہ دلچسپی تھی۔

پیمان پبلیکیشنز کی قائمہ کمیٹی کے چیئر اور پبلیکیشنز کی مشترکہ کمیٹی کے ڈپٹی چیئر رہیں۔

وہ 2022 میں مغربی آسٹریلیا سے سینیٹ کے لیے منتخب ہوئیں اور سنہ 2028 تک وہ پارلیمنٹ میں خدمات انجام دیں گی۔

فاطمہ پیمان نے جون سنہ 2019 سے جون 2022 تک ملٹی کلچرل لیبر برانچ کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وہ 2020 میں ینگ لیبر (مغربی آسٹریلیا) کے لیے ایکویٹی اور ڈائیورسٹی آفیسر بھی رہیں۔ بعد میں وہ سنہ 2021 میں مغربی آسٹریلیا میں ینگ لیبر کی صدر منتخب ہوئیں۔

سنہ 2022 میں انھیں آسٹریلین مسلم رول ماڈل آف دی ایئر سے نوازا گیا۔

سوشل میڈیا پر تنقید اور پذیرائی دونوں

مز فاطمہ کو حجاب پہننے کی وجہ سے اس سے قبل بھی حمایت کے ساتھ ساتھ ٹرولنگ کا سامنا رہا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر ان پارٹی کے خلاف جا کر ان کے ووٹ دینے کے بعد سے وہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔

کوئی انھیں اقتدار کے سامنے حق بولنے کے لیے یا 'حق' کی حمایت کے لیے داد و تحسین دے رہا تو کوئی انھیں ان کے موقف اور ان کے پس منظر کے تحت انھیں تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

ہیرس سلطان نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا: ' فاطمہ پیمان کی وفاداریاں اسلام اور مسلم ممالک کے ساتھ ہیں۔ میرے خیال میں ان کے لیے افغانستان جانے کا وقت آگیا ہے، جہاں وہ مکمل طور پر شریعت کے مطابق زندگی گزار سکیں گی۔ فاطمہ کے والدین 90 کی دہائی میں طالبان کے زیر اقتدار افغانستان سے فرار ہو گئے تھے لیکن وہ اب بھی افغانستان کو یاد کرتی ہیں۔'

اینتونیتے نیوز کی کو ہوسٹ لٹوف نے فاطمہ کے معاملے پر جنوبی افریقی مصنف کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا: 'سینیٹر پیمان کا عمل ہمیں اقتدار کے سامنے حق بولنے کے ملٹی کلچرلزم کے مضبوط تحفے کی یاد دہانی کراتا ہے بشرطیہ کہ ہم اسے ہونے دیں۔'

ہیڈن سٹار نامی ایک صارف نے فاطمہ کی میڈیا کانفرنس کو شيئر کرتے ہوئے لکھا: 'دل پر بوجھ لیکن صاف ضمیر کے ساتھ' بہادر آزاد سینیٹر فاطمہ پے میں آپ کے لیے میرا احترام اور تحسین۔'

کریگ فاسٹر نامی ایک صارف نے فاطمہ پیمان کے استعفے کی خبر کے ساتھ لکھا: 'شاید ایک دن ایسی دنیا ہو جہاں ہم نسل کشی کو روکنے کے لیے سنجیدہ طور پر اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نبھائیں۔ فاطہ اس دنیا میں رہتی ہے جبکہ ہم سب نے استعفی دے دیا ہے۔'


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.