سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز تعینات کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور یہ معاملہ کیسے متنازع ہوا؟

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ایڈہاک ججز کی تقرری کے معاملے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کی طرف سے تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔
SC
Getty Images

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی کی منظوری دی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ایڈہاک ججز کی تقرری کے معاملے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کی طرف سے تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ایک سال کے لیے دونوں ریٹائرڈ ججز کے ناموں کی منظوری دی گئی۔

سپریم کورٹ میں ایڈ ہاک ججز کی تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب سپریم کورٹ میں ججز کی اکثریت نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔

دوسری طرف وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے اسے آئینی اقدام قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈہاک ججوں کی تقرری کے لیے چار ریٹائرڈ ججز کے نام تجویز کیے تھے تاہم گذشتہ دنوں دو ریٹائرڈ ججز جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر نے یہ ذمہ داریاں قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

ہم نے اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سپریم کورٹ میں تعینات کیے گئے ایڈ ہاک ججز کے پاس کیا اختیارات ہوتے ہیں اور یہ معاملہ کیسے متنازع ہوا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں کیا ہوا؟

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق 19 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل کو سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

دورانِ اجلاس چاروں ناموں میں کسی نام پر اعتراض سامنے نہیں آیا۔ تاہم جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ’سب نام معتبر مگر ایڈ ہاک ججز کی تقرری اصولاً نہیں ہونی چاہیے۔‘

باقی آٹھ ممبران کا کہنا تھا کہ ایڈہاک جج ہونے چاہییں۔

آٹھ ممبران کا اتفاق تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم اور جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے معذرت کی ہے لہذا ان کی تعیناتی کی بات ختم ہو گئی۔

دورانِ اجلاس آٹھ ججز نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کے نام پر اتفاق کیا اور کہا کہ ان کی تعیناتی ایک سال کے لیے ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے چار ریٹائرڈ ججز کے نام تجویز کیے تھے۔ ان ججز میں جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم، جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس ریٹائرڈ طارق مسعود کے نام شامل تھے۔

آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت چیف جسٹس کمیشن سے مشاورت اور صدر مملکت کی منظوری کے بعد ججز سے ایڈہاک ذمہ داریوں کی باضابطہ درخواست کریں گے۔

جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر نے معذرت کرتے ہوئے کیا کہا؟

سپریم کورٹ کے سابق جج اور سندھ کے سابق نگراں وزیرِ اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج کام کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی کچھ پیشہ وارنہ اور ذاتی وجوحات کی وجہ سے یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے۔

جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر، جو نگران وزیر اعلیٰ سندھ بھی رہ چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو اس وقت ہی وہ سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسز کو ختم کرنے کے لیے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کے حق میں تھے لیکن یہ صرف اسی صورت ممکن تھا اگر سپریم کورٹ میں 17 ججز کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو جاتا۔

جسٹس ریٹائرڈ باقر کہتے ہیں کہ چند روز قبل آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں 17 ججز کی تعداد پوری ہوچکی ہے اس لیے ایڈہاک جج تعینات کرنے کے لیے ان سمیت سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز سے رابطہ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ باقر سے قبل سپریم کورٹ کے ایک اور ریٹائرڈ جج جسٹس مشیر عالم نے بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت کر لی تھی۔

جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’اللہ نے مجھے میری حیثیت سے زیادہ عزت دی، ایڈہاک ججز نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا پر جو مہم شروع کی گئی اس سے شدید مایوسی ہوئی ہے۔

’موجودہ حالات میں بطور ایڈہاک جج کام کرنے سے معذرت چاہتا ہوں۔‘

ایڈہاک جج
Getty Images

ایڈہاک جج کیا ہوتا ہے اور اس کی تعیناتی کیسے کی جاتی ہے؟

آرٹیکل 181 اور 182 کے مطابق ’جب سپریم کورٹ میں جج کی نشست خالی ہو یا سپریم کورٹ کا جج ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کسی بھی وجہ سے میسر نہ ہو تو ہائی کورٹ کے ایسے جج جو سپریم کورٹ میں تعیناتی کی اہلیت رکھتے ہوں انھیں صدر مملکت سپریم کورٹ میں ججز کی کمی پوری کرنے کے لیے عارضی طور پر تعینات کر سکتے ہیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر عارف چوہدری کا کہنا ہے کہ جب ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے ججز کسی اہم مقدمے کی سماعت کے باعث دیگر مقدمات کو سننے سے قاصر ہوں یا اہم مقدمے زیر التوا ہوں، اس صورت میں ایڈہاک جج کی خدمات لی جاتی ہیں۔ ان کے اختیارات ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہی ہوتے ہیں۔

آرٹیکل 181 کے تحت ’ہائی کورٹ کے ریٹائر جج کو بھی عارضی طور پر سپریم کورٹ میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ عارضی جج تب تک تعینات رہتے ہیں جب تک صدر مملکت اپنا حکم واپس نہ لے لیں۔‘

ادھر سابق جج شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ ایڈہاک ججز کی تعیناتی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا حصہ ہے مگر ’چونکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہے تو اس وجہ سے یہ معاملہ ایک تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے۔‘

مگر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں کسی جج کی تعیناتی ایڈہاک بنیادوں پر ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 1955 سے سنہ 2016 تک مجموعی طور پر 22 ججز کو سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعینات کیا گیا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے اڈہاک ججز تعینات نہیں لیے اور اسی لیے کچھ عرصے کے لیے یہ سلسلہ بند رہا ہے۔

ان کے مطابق انتہائی مجبوری کے حالات میں یا ججز کی مطلوبہ تعداد 17 پوری نہ ہو تو پھر ایڈہاک جج کی گنجائش آئین میں ضرور موجود ہے مگر اس کے ذریعے ’اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی صورت نہیں نکالی جا سکتی۔‘

ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی ضرورت کیوں پڑی اور یہ کیسے متنازع ہوئی؟

جوڈیشل کمیشن کے مطابق ایڈ ہاک ججوں کی تعیناتی کا فیصلہ زیرِ التوا کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس وقت 58 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔

کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ کے ایسے ججوں کو ایڈ ہاک بنیاد پر تعینات کیا جاسکتا ہے جنھیں ریٹائر ہوئے تین سال کا عرصہ نہیں ہوا ہے۔

واضح رہے کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈہاک جج تعینات کرنے کے لیے 17 ججز کا ہونا ضروری ہے۔

انور منصور کے مطابق اس وقت بظاہر تو سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز لانے کا مقصد تو یہی ہے کہ کام زیادہ اور زیر التوا مقدمات نمٹانے ہیں مگر ان ججز کی تعیناتی کا وقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا معاملہ اس وقت زیرِ بحث آیا جب سپریم کورٹ نے محضوص نشستوں کے معاملے میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا۔ ان کے مطابق اس سے ’تنازع بڑھا اور بعض سابق ججز نے دوبارہ عدلیہ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی۔‘

انور منصور کے مطابق اس وقت بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حکومت کی نظرثانی کی درخواست پر جلد سماعت نہیں ہو سکے گی اور جب ہو گی تو پھر وہی 13 ججز ہی بینچ میں ہوں گے جنھوں نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔

ان کے مطابق ایڈہاک ججز نہ صرف دیگر زیر التوا مقدمات سن سکیں گے بلکہ ’اگر حکومت تحریک انصاف پر پابندی کا ریفرنس بھیجتی ہے تو اس کا بھی فیصلہ ان کے ہاتھ میں آ سکتا ہے۔‘

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق جج شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ چونکہ تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور اس پر اتحادیوں سے بھی بات چیت ہونا ابھی باقی ہے تو اس لیے ’یہ خدشہ درست نہیں کہ اسی مقصد کے لیے ایڈہاک ججز تعینات کیے جا رہے ہیں۔‘

pti
Getty Images

تحریک انصاف کا اعتراض مگر وزیرِ قانون کی حمایت

یہ تقرریاں اس وقت متنازع ہوئیں جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس میں ’بدنیتی‘ کا الزام لگایا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا سنہ 2015 سے سپریم کورٹ میں کسی ایڈہاک جج کی تقرری نہیں کی گئی۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے کیسز کا بوجھ کم نہیں ہو گا بلکہ خدشہ ہے اس اقدام کا تعلق پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے مقدمے کے فیصلے سے ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری سے سپریم کورٹ اور ججوں پر سمجھوتہ ہوگا۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی مخالفت کرتے ہوئے اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

جمعے کو پی ٹی آئی کے رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام لکھے گئے خط میں ان تقرریوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے خط میں شبلی فراز نے کہا ہے کہ ایڈہاک ججز کی تقرری سے ’یہی تاثر جاتا ہے کہ یہ سب ایک جماعت کے لیے کیا جا رہا ہے اور ایڈہاک ججز کی تقرری سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ یہ عدلیہ میں ایک جماعت کے خلاف آرا کو بیلنس کرنے کی کوشش ہے۔‘

انھوں نے لکھا ہے کہ مستقل ججز کی تقرری کے بعد زیر التوا مقدمات کو وجوہ بنا کر ایڈہاک ججز کی تقرری نہیں ہو سکتی۔ شبلی فراز نے کہا ہے کہ ایڈہاک ججز تقرری کی تجویز اسی دن آئی جب سپریم کورٹ نے 5-8 سے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا۔

شبلی فراز نے لکھا ہے کہ ایڈہاک ججز کی سلیکشن کے لیے کوئی شفاف طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ ان کے مطابق الجہاد ٹرسٹ کیس کے بعد کسی ایڈ ہاک جج کی تین سال کے لیے تقرری نہیں ہوئی اور اب سپریم کورٹ میں مستقل ججز کی تقرری حال ہی میں کی گئی ہے۔

اپنے خط میں سینیٹر شبلی فراز نے دعویٰ کیا کہ جوڈیشل کمیشن کی مشاورت کے بغیر ہی ججز کی سلیکشن کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ شفاف طریقہ کار کے بغیر ججز کی تقرری مزید پریشان کن ہے۔

شبلی فراز نے خط میں لکھا کہ سپریم کورٹ میں سویلین کا ملٹری ٹرائل، آٹھ فروری الیکشن کیس اور حال ہی میں پی ٹی آئی پر پابندی کے معاملات زیر التوا ہیں۔ ’ایسی صورت حال ہی میں ریٹائرڈ ججز کی تقرری سے سنجیدہ اور جائز خدشات جنم لینے لگے ہیں۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی قلیل مدت ملازمت میں زیر التوا کیسز میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آ سکے گی اور زیر التوا کیسز کا معاملہ آنے والے چیف جسٹس پر چھوڑ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں عوام، پاکستان بار کونسل اور متعدد بار کونسلز کی ترجمانی کر رہا ہوں اور ایڈہاک ججز کی تقرری میں کوئی شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہییں‘۔

شبلی فراز نے لکھا کہ پاکستانی عوام آزاد اور بغیر مداخلت کے عدلیہ کے سٹیک ہولڈرز ہیں اور ایڈہاک ججز کی تقرری عوام کو عدلیہ میں مداخلت کا تاثر دے رہی ہے۔

تاہم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے گذشتہ روز کہا تھا کہ ایڈہاک ججز تعینات ہونے چاہئیں، ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی آئین اجازت دیتا ہے اور ان کی تقرری چیف جسٹس نے نہیں بلکہ جوڈیشل کمیشن نے کرنی ہے۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایڈہاک ججز کی تقررری چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں کریں گے بلکہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے یہ فیصلہ کرنا ہے

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر اور ماہر قانون عارف چوہدری کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں ایڈہاک جج پر ’ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے‘ اور ’یہ خوف‘ انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ’حائل ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد ’سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ’عدلیہ میں ایک گروپنگ ہے‘ اور ایڈہاک ججز کے آنے سے مزید اختلاف رائے پیدا ہوسکتی ہے۔

انھوں نے اس خیال کی طرف بھی اشارہ کیا کہ سپریم کورٹ کے علاوہ ہائی کورٹس میں بھی کئی زیرِ التوا کیسز ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ ’لاہور ہائیکورٹ میں 50 آسامیاں ہیں لیکن صرف 36 ججز کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی دس ججوں کی جگہ اس وقت آٹھ ججز کام کر رہے ہیں۔ تو یہ اقدام ہائیکورٹس کے لیے کیوں نہیں سوچا گیا؟‘

عارف چوہدری کہتے ہیں کہ دو نئے ججز کے آنے سے اور بینچز میں شامل ہونے سے صورتحال پر فرق پڑ سکتا ہے اور ماضی میں بھی بہت سے کیسز میں ایسا دیکھا گیا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.