پیرس اولمپکس میں پاکستانی تیراکوں کی کارکردگی: ’اصل غصہ کھیلوں کے نظام پر ہے، نکل ان بچوں پر رہا ہے‘

احمد درانی کی اس کارکردگی کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر جہاں ان پر بھانت بھانت کے تبصرے کیے جاتے رہے اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ ایسے ایتھلیٹس کو پیرس اولمپکس 2024 میں ملک کی نمائندگی کے لیے کیوں چنا گیا جو پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئے۔
احمد درانی
Getty Images
پاکستانی تیراک محمد احمد درانی پہلے راؤنڈ میں آخری پوزیشن پر آنے کے بعد باہر ہوگئے ہیں

’سنا ہے سوئمرآخری نمبر پر آیا۔ شکر مناؤ پاکستانیوں کہ ڈوبا نہیں‘۔

یہ اور ایسے درجنوں تبصرے پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت گردش کرتے نظر آئے جب پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نوجوان تیراک محمد احمد درانی دو سو میٹر فری سٹائل مقابلے کے ابتدائی راؤنڈ میں شریک ہوئے۔

احمد درانی اس ایونٹ میں اپنے مقابلے میں آخری نمبر پر رہے اور 11 سیکنڈ کے فرق سے فائنل مرحلے میں جگہ بنانے سے محروم رہے۔

18 سالہ احمد ان دو پاکستانی تیراکوں میں سے ایک ہیں جو اولمپکس کمیٹی کی جانب سے دیے گئے وائلڈ کارڈ پر ان مقابلوں میں شریک تھے۔

احمد کے علاوہ تیراکی کے کھیل میں پاکستان کی نمائندگی جہاں آرا نبی نے کی اور وہ بھی اگلے مرحلے میں جگہ بنانے میں ناکام رہیں۔

تاہم جہاں آرا کی پرفارمنس احمد سے بہتر رہی اور جہاں وہ اپنی ہیٹ میں تیسرے اور مجموعی طور پر 30 تیراکوں میں 26 ویں نمبر پر آئیں وہیں انھوں نے اپنے کریئر کی بہترین کارکردگی بھی دکھائی اور 200 میٹر مقابلوں میں اپنا تیز ترین ٹائم ریکارڈ کیا۔

جہاں آرا کے برعکس احمد اپنی ہیٹ میں شامل چار تیراکوں میں سب سے پیچھے رہے اور مجموعی طور پر بھی ان کا نمبر آخری تھا۔

یہی نہیں بلکہ اولمپکس میں دو سو میٹر فاصلے کے لیے ان کا وقت ایک منٹ اور 58.67 سینکڈز تھا جو کہ ان کے کریئر کے بہترین وقت سے تین سیکنڈ زیادہ تھا۔

احمد ماضی میں یہ فاصلہ ایک منٹ اور 55.68 سیکنڈ میں طے کر چکے ہیں اور انھوں نے یہ کارکردگی اپریل 2024 میں ملائیشیا میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی ایونٹ میں دکھائی تھی۔

احمد درانی
Getty Images

’فرانس کا چکر لگا لیا، فائیو سٹار ہوٹل میں رہ لیے اور کیا چاہیے‘

احمد درانی کی اس کارکردگی کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر جہاں ان پر بھانت بھانت کے تبصرے کیے جاتے رہے اور یہ سوال اٹھایا گیا کہ ایسے ایتھلیٹس کو پیرس اولمپکس 2024 میں ملک کی نمائندگی کے لیے کیوں چنا گیا جو پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گئے۔

وسیم خان جدون ایکس پر ان درجنوں افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے احمد درانی کی اولمپکس تک رسائی کو ممکنہ طور پر سفارش کا نتیجہ قرار دیا۔

انھوں نے لکھا ’فرانس کا چکر لگ گیا، فائیو سٹار ہوٹل میں رہ لیے، پروٹوکول میں گھوم لیا۔ بس اور کیا چاہیے۔‘

ایک اور صارف علی صفدر کا کہنا تھا کہ ’بھائی نے نیچے سے ٹاپ کیا۔ شکریہ تو بنتا ہے۔‘

عام صارفین کی تنقید کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی دنیا پر نظر رکھنے والے صحافی بھی احمد درانی کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آئے۔

صحافی فیضان لاکھانی نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا کہ احمد درانی سے اولمپکس میں کوئی تمغہ جیتنے یا فائنل مرحلے میں جگہ بنانے کی توقع نہیں تھی لیکن ’اگر آپ اپنی زندگی کے سب سے بڑے مقابلے میں اپنے ذاتی بہترین ٹائم سے تین سیکنڈ لیٹ ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی توجہ آپ کی گیم پر نہیں۔‘

اولمپکس
Getty Images

’اصل غصہ کھیلوں کے نظام پر ہے لیکن نکل ان بچوں پر رہا ہے‘

تاہم اس تمام طنز اور تنقید کے درمیان ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو احمد درانی اور جہاں آرا کی اولمپکس میں شرکت اور ان کی کوششوں کی تعریف کرتے نظر آنے اور ان ناقدین سے یہ سوال بھی ہوتا رہا کہ ایسے ’موسمیاتی تجزیہ کار‘ کیا خود کبھی زندگی میں کسی تیراکی کے مقابلے میں شریک ہوئے ہیں اور کیا ایسی تنقید احمد اور جہاں آرا جیسے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کا موجب ہو سکتی ہے۔

صحافی رؤف کلاسرا نے لکھا کہ ’جہاں آرا نبی 24 کروڑ عوام سے میں پہلے نمبر پر آئی ہیں جو گھر بیٹھے جگتیں لگا سکتی ہے اور جو چند لوگ کچھ کرنے کی ہمت بھی کرے اس کو بھی جینے نہیں دیتی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جہاں آرا نبی اور احمد درانیکا شکریہ کہ کم از کم میدان میں اترے اور عالمی لیول تک جا کر مقابلہ کیا۔‘

مانی بھائی نامی صارف کا کہنا تھا کہ آپ وائلڈ کارڈ انٹری پر مقابلے میں حصہ لینے والے سے کیا توقع کرتے ہیں؟

سید محبوب نامی صارف کا کہنا ہے کہ اولمپکس جیسے مقابلے میں شمولیت احمد درانی کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اولمپکس
Getty Images

’اولمپکس جیسے ایونٹ میں حصہ لے پانا، سخت محنت اور عزم کے بغیر ممکن نہیں اور وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں جہاں کسی قسم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ احمد درانی ہمیں آپ پر فخر ہے‘۔

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ احمد پر اقربا پروری کا الزم درست نہیں۔ انھوں نے پاکستانی تیراک کے متحدہ عرب امارات کی ایک نیوز ویب سائٹ کو دیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ احمد کے والد ایک سیلف میڈ انسان ہیں جو اپنے ملک کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان سپورٹس بورڈ اختر نواز نے سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں پر ہونے والی تنقید پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں کو اصل غصہ کھیلوں کے نظام پر ہے لیکن نکل ان بچوں پر رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کیونکہ لوگ نہیں جانتے کہ اس سپورٹس کے کرتا دھرتا کون ہیں اور ان کو صرف یہ ایتھلیٹس دکھائی دیتے ہیں تو ان کا غصہ ان کھلاڑیوں پر نکلتا ہے۔

وائلڈ کارڈ انٹری کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر احمد درانی کی اولمپکس تک رسائی بھی بحث کا ایک بڑا موضوع تھی۔ احمد پاکستانی دستے میں شامل سات ایتھلیٹس میں سے ان چار کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنھیں پیرس اولمپکس میں شرکت کا موقع وائلڈ کارڈ پر ملا ہے۔

وائلڈ کارڈ پر اولمپکس جیسے مقابلوں میں شرکت کیسے ممکن ہوتی ہے اور ان ایتھلیٹس کا انتخاب کیسے ہوتا ہے، اس بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پاکستان سپورٹس بورڈ اختر نواز کا کہنا تھا کہ چونکہ ہر ملک اولمپکس جیسے مقابلوں کے لیے کوالیفائی نہیں کر پاتا اس لیے انٹرنیشنل اولمپکس ایسوسی ایشن دنیا بھر کے ممالک کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ملک کو وائلڈ کارڈ کے تحت کچھ مواقع دیتا ہے۔

ان کے مطابق وائلڈ کارڈ انٹری کا ایک مقصد اس ملک میں کھیلوں کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ ’آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ ممالک کے دستے میں جھنڈے کے پیچھے ایک ہی ایتھلیٹ ہوتا ہے۔ اکثر یہ وہ ایتھلیٹ ہوتے ہیں جن کو وائلڈ کارڈ انٹری کے تحت اولمپکس میں حصہ لینے کی اجازت ملی ہوتی ہے۔‘

اختر نواز کہتے ہیں کہ وائلڈ کارڈ انٹری کے تحت حصہ لینے والے ایٹھلیٹس شاذ و نادر ہی مقابلوں میں فاتح ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں یہ کھلاڑی براہِ راست کوالیفائی نہیں کر پاتے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں دوسرے کھلاڑیوں جتنی نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ان کے جیتنے کے امکانات بھی کم ہی ہوتے ہیں۔

وائلڈ کارڈ کے لیے احمد درانی اور جہاں آرا نبی کا انتخاب کیسے ہوا؟

وائلڈ کارڈ انٹری کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کیسے ہوتا ہے اور پاکستانی تیراکوں کو کیسے چنا گیا، اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری خالد محمود کا کہنا تھا کہ کسی بھی کھلاڑی کا چناؤ صرف اس ملک کی اولمپک ایسوسی ایشن کی صوابدید پر نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق اس عمل میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی اور متعلق ملک کی اولمپک کمیٹی کے علاوہ متعلقہ کھیل کی عالمی تنظیم کا بھی اپنا اپنا کردار ہوتا ہے۔

احمد درانی اور جہاں آرا نبی کے انتخاب کے بارے میں گردش کرنے والے سوالات پر ردعمل دیتے ہوئے خالد محمود کا کہنا تھا کہ وائلڈ کارڈ انٹری کے لیے لازم ہے کہ متعلقہ تیراک اس زمرے میں اپنے ملک کی درجہ بندی میں سرفہرست ہو اور یہ دونوں تیراک اس وقت پاکستان کے نمبر ایک تیراک ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ان دونوں کے انتخاب میں تیراکی کی عالمی تنظیم ’فینا‘ کے تحت ہونے والے مقابلوں میں ان کی کارکردگی بھی مدِنظر رکھی گئی تھی۔

وائلڈ کارڈ کے حصول کے لیے سارے عمل کا آغاز متعلقہ ملک کی قومی اولمپک کمیٹی کی جانب سے درخواست سے ہوتا ہے جس کے بعد عالمی اولمپک کمیٹی، متعلقہ کھیل کی عالمی تنظیم اور درخواست دہندہ ملک کی اولمپک کمیٹی کے نمائندوں پر مشتمل سہ رکنی کمیشن فیصلہ کرتا ہے۔

آئی او سی کے مطابق اس فیصلے کے دوران جس کھیل میں وائلڈ کارڈ کے لیے درخواست دی گئی ہو، اس کھیل میں متعلقہ ملک کی کارکردگی، اولمپکس میں مجموعی طور پر اس ملک کی کارکردگی اور وہاں کھیل کے لیے مختص حکومتی امداد کو بھی مدِنظر رکھا جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.