مخصوص نشستوں کا کیس: دو ججوں نے اختلافی نوٹ جای کردیا

image

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں ملنے کے کیس میں جسٹس امین اور جسٹس نعیم نے اختلافی فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی. اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا فیصلہ جو آئین کے مطابق نہ ہو کوئی بھی آئینی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں ہے، 80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں۔

جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے پی ٹی آئی مخصوص نشستوں پر 29 صفحات پر مشتمل اختلافی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ مختصر فیصلہ سنانے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا اور تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکمنامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا. حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا. اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی اسے ریلیف دینے کیلئے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا.اختلافی نوٹ میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے چار خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں۔

نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا. 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا۔کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی. 13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا فیصلہ جو آئین کے مطابق نہ ہو کوئی بھی آئینی ادارہ عملدرآمد کا پابند نہیں ہے، 80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہیں تو وہ نااہل بھی ہو سکتے ہیں. سپریم کورٹ میں دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ جس پر کوئی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہیں ہوا جبکہ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی دلائل میں واضح کہا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دے دیا تھا۔

13 رکنی فل کورٹ بینچ کے 5-8 کی اکثریت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے، انتخابی نشان نہ ملنے سے کسی سیاسی جماعت کا انتخابات میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی 15 دن میں مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرائے، 80 میں سے 39 ایم این ایز پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کر چکے ہیں، باقی 41 ارکان 15 دن میں پارٹی وابستگی کا حلف نامہ دیں۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ن لیگ اور ارکان اسمبلی نے نظرثانی درخواستیں دائر کی ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.