کیا آپ بھی اپنے پرانے اسمارٹ فون کو بے کار سمجھ کر اسے گھر کے کسی کونے میں پھینک دیتے ہیں تو جناب آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہر اسمارٹ فون میں سونا، چاندی، تانبہ، پلاٹینم اور پلاڈیم جیسی قیمتی دھاتوں کی کچھ مقدار بھی موجود ہوتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ برقی آلات میں موجود ان قیمتی دھاتوں کو کیسے بہترین طریقے سے استعمال میں لایا جائے؟
ہمارے اسمارٹ فون میں دراصل ہے کیا؟
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آپ کی جیب میں سما جانے والا چھوٹا سا اسمارٹ فون دراصل زمین سے نکلنے والی قیمتی دھاتوں سے لیس ہوتا ہے۔
ایک عام آئی فون میں 0.034 گرام سونا، 0.34 گرام چاندی، 0.015 گرام پلاڈیم اور کچھ مقدار میں پلاٹینم بھی موجود ہوتا ہے جبکہ 25 گرام المونیم اور 15 گرام تانبہ بھی ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک ٹن آئی فونز میں سے ایک ٹن سونے کی خام دھات کے مقابلے میں 300 گنا زیادہ سونا نکل سکتا ہے جبکہ ایک ٹن چاندی کی خام دھات سے 6.5 گنا زیادہ چاندی نکل سکتی ہے۔
یہ تو محض شروعات ہے، اسمارٹ فونز میں کچھ ایسی دھاتیں بھی موجود ہوتی ہیں جو زمین میں بڑی مقدار میں موجود تو ہیں لیکن انہیں نکالنا بہت ہی مشکل اور مہنگا ہوتا ہے۔
ان دھاتوں میں ایٹیریم لینتھانم، ٹیربیم، نیوڈیمیم، گیڈولینیم اور پریسیوڈینیم شامل ہیں۔
البتہ مذکورہ تمام دھاتیں ایک اسمارٹ فون میں بہت کم مقدار میں موجود ہوتی ہیں لیکن آج دنیا میں تقریباً 2 ارب افراد اسمارٹ فونز استعمال کرتے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اگر ان تمام اسمارٹ فونز کو اکھٹا کیا جائے تو ان میں سے بڑی مقدار میں سونا اور چاندی نکالا جاسکتا ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمارٹ فونز میں استعمال ہونے والے سونے کا ارتکاز کچ دھات سے نکلنے والے سونے سے زیادہ ہوتا ہے۔
پھر مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ اسمارٹ فونز استعمال کرنے والے دو ارب افراد اوسطاً ہر 11 ماہ بعد اپنا فون تبدیل کرلیتے ہیں اور ان کا پرانا اسمارٹ فون گھر کے کسی کونے میں پڑا رہتا ہے۔
ان میں سے مشکل سے 10 فیصد موبائل فونز ری سائیکل ہوپاتے ہیں اور ان میں سے قیمتی دھاتوں کو نکال پر دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کی الماریوں، درازوں اور ڈبوں میں ناکارہ سمجھ کر رکھ دیے جانے والے اسمارٹ فونز کی شکل میں سونے کی ایک کان پنہاں ہے۔
آپ خود سونا نکالنے کا تو نہیں سوچ رہے؟
اگر آپ اپنے متروکہ اسمارٹ فون سے خود سونا نکالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو یہ خیال رد کردیں کیوں کہ انفرادی سطح پر ایسا کرنا بے سود ہے۔
البتہ اگر بڑے پیمانے پر یہ کام کیا جائے تو تقریباً 10 لاکھ موبائل فونز سے 16 ٹن تانبہ، 350 کلو چاندی، 34 کلو سونا اور 15 کلو پلاڈیم نکالا جاسکتا ہے۔
تاہم اس راہ میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان دھاتوں کو بحفاظت اور کم سے کم لاگت میں کس طرح نکالا جائے۔
استعمال شدہ برقی آلات کا ایک بڑا حصہ جن میں اسمارٹ فونز بھی شامل ہیں چین کو ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے جہاں غیر تجربہ کار مزدور صحت اور ماحول کے لیے مضر کیمیکلز کے ذریعے ان میں سے دھاتوں کو الگ کرتے ہیں تاہم اس کی وجہ سے مقامی آبادی کو صحت کے خطرات درپیش ہوگئے ہیں اور ان سے دریاؤں اور فضا کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
تاہم یہ امید کی جارہی ہے کہ مستقبل میں ایسی ’مائیکرو فیکٹریاں‘ سامنے آجائیں گی جن میں محفوظ اور صاف طریقے سے متروکہ موبائل فونز سے قیمتی دھات نکالے جاسکیں گے۔