قندھار ہائی جیکنگ پر سیریز اور ’نام‘ کا تنازع: ’لوگ سوچیں گے IC 814 ہندوؤں نے ہائی جیک کی تھی‘

سوشل میڈیا پر صارفین کا الزام ہے کہ فلم میکر انوبھو سنہا نے ویب سیریز IC 814 میں جان بوجھ کر حقائق کو تبدیل کیا اور اس سیریز کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

نیٹ فلکس پر حال ہی میں پیش کی جانے والی نئی ویب سیریز IC 814 ریلیز ہونے کے ساتھ ہی متنازع بن گئی ہے اور سوشل میڈیا پر اس سیریز کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ انڈین فلم میکرانوبھو سنہا کی ویب سیریز IC 814 ایک طیارے کی ہائی جیکنگ کے واقعے پر مبنی ہے۔

یاد رہے کہ 1999 میں انڈین ایئر لائنز کے طیارے 814 کو کھٹمنڈو سے نئی دہلی کے لیے اڑان بھرنے کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیم حرکت الانصارنے ہائی جیک کیا تھا اور پھر اسے تین ایئرپورٹس پر اتارنے کے بعد قندھار پہنچایا گیا۔ اس ایئربس میں 176 مسافروں کے علاوہ پائلٹس سمیت جہاز کے عملے کے 15 افراد سوار تھے۔

اس سیریز میں ہائی جیکرز کے نام ’چیف‘، ’ڈاکٹر‘، ’برگر‘، ’بھولا‘ اور ’شنکر‘ بتائے گئے ہیں اور انھی ناموں کے باعث سوشل میڈیا صارفین شدید تنقید کر رہے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ویب سیریز میں چار ہائی جیکرز کے نام جان بوجھ کر تبدیل کیے گئے ہیں۔

انڈیا میں سوشل میڈیا صارفین کا الزام ہے کہ فلم میکر انوبھو سنہا نے جان بوجھ کر حقائق کو تبدیل کیا ہے اور اس سیریز کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث سامنے آنے پر انڈیا کی وزارت اطلاعات و نشریات نے اس معاملے پر باز پرس کے لیے نیٹ فلکس کے ’کونٹینٹ ہیڈ‘ کو طلب کر لیا ہے۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے آل انڈیا ریڈیو اور ڈی ڈی نیوز نے بتایا کہ نیٹ فلکس حکام وزارت اطلاعات و نشریات کے سامنے پیش ہو کر معاملے کی وضاحت دیں گے۔

’لوگ سوچیں گے کہ IC 814 کو ہندوؤں نے ہائی جیک کیا تھا‘

اس تنازع میں بی جے پی کے سوشل میڈیا ہیڈ امیت مالویہ نے پروڈیوسرز کو مورد الزام ٹہرایا ہے۔ انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’آئی سی 814 کے ہائی جیکرز دہشت گرد تھے۔ انھوں نے اپنے مسلمان ہونے سے متعلق شناخت چھپا رکھی تھی۔ انوبھو سنہا نے انھیں غیر مسلم نام دے کر اپنا جرم چھپانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

’دہائیوں کے بعد، لوگ سوچیں گے کہ IC 814 کو ہندوؤں نے ہائی جیک کیا تھا۔‘

فلم ساز انوبھو سنہا نے ابھی تک اس معاملے میں کوئی بیان نہیں دیا لیکن انھوں نے کانگریس کے ترجمان ڈاکٹر ارونیش کمار یادو کی ایک پوسٹ دوبارہ شیئر کی ہے۔

اس پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈین حکومت نے خود ہائی جیکروں کے نام ظاہر کیے تھے۔ تاہم ڈاکٹر یادو نے بھی یہ صحافی سدھانت موہن کی پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے۔

صحافی سدھانت موہن نے لکھا ہے کہ ’کچھ لوگ ہائی جیکروں کے نام پر ہنگامہ کھڑا کر رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے اصلی نام کیوں استعمال نہیں کیے گئے؟ انھیں ’بھولا‘ اور ’شنکر‘ کہنا ہندو مذہب کی توہین ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ویب سیریز کے کاسٹنگ ڈائریکٹر مکیش چھابرا نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’شو پیش کرتے وقت مکمل تحقیق کی گئی ہے۔ اغوا کار ایک دوسرے کو انہی ناموں سے پکار رہے تھے۔‘ انھوں نے اپنے مراسلے میں حکومت کی پریس ریلیز کا ایک حصہ بھی شامل کیا ہے۔

نیٹ فلیکس کی یہ ویب سیریز صحافی شرن جوئے چودھری اور کیپٹن دیوی شرن (فلائٹ آئی سی 814 کے پائلٹ) کی کتاب ’فلائٹ ان فیئر: دی کیپٹن سٹوری‘ پرمبنی ہے۔

یہ قندھار طیارہ ہائی جیک کے واقعے پر مبنی ہے۔ اس سیریز میں وجے ورما، نصیر الدین شاہ، پنکج کپور، منوج پاہوا، اروند سوامی، انوپم ترپاٹھی، دیا مرزا، پترلیکھا، امریتا پوری، دبیندو بھٹاچاریہ اور کمود مشرا شامل ہیں۔

درحقیقت انڈیا کی وزارت داخلہ کی طرف سے چھ جنوری 2000 کو جاری کردہ بیان میں مطابق ہائی جیکرز کے اصلی نام بتائے گئے تھے۔

اسی بیان میں بتایا گیا کہ مسافروں کے سامنے ہائی جیکر ایک دوسرے کو ’چیف، ڈاکٹر، برگر، بھولا اور شنکر‘ کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔

وزارت داخلہ کا یہ بیان اب بھی انڈیا کی وزارت خارجہ کی ویب سایٹ پر موجود ہے۔ وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’طیارہ ہائی جیک کے واقعے کے بعد خفیہ ایجنسیوں نے ممبئی سے چار شدت پسندوں کو گرفتار کیا تھا۔‘

1999 میں قندھار میں کیا ہوا تھا؟

یہ 24 دسمبر 1999 کی بات ہے جب انڈین ایئر لائنز کا طیارہ 814 نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے لیے اڑا۔ اس ایئربس میں 176 مسافروں کے علاوہ پائلٹس سمیت جہاز کے عملے کے 15 افراد سوار تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنی منزل کی جانب روانگی پر مسافر انتہائی خوش تھے لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی کیونکہ جب یہ طیارہ انڈین فضائی حدود میں داخل ہوا تو ایک نقاب پوش شخص اٹھا اور کاک پٹ کی جانب بڑھا۔

اس نقاب پوش نے طیارے کے پائلٹ کو دھمکی دی کہ اگر انھوں نے طیارے کا رخ لکھنؤ کے بجائے مغرب میں لاہور کی جانب نہیں موڑا تو وہ طیارے کو بم سے اڑا دیں گے۔

اس کے ساتھ ہی اس کے چار دیگر نقاب پوش ساتھی بھی کھڑے ہوئے اور جہاز کے مختلف حصوں میں پوزیشن سنبھال لیں۔

طیارہ ہائی جیک کرنے کے چند گھنٹوں کے اندر شدت پسندوں نے ایک مسافر روپن کٹیال کو قتل کر دیا۔ 25 سالہ روپن کٹیال پر انتہا پسندوں نے چاقو سے کئی وار کیے۔

رات پونے دو بجے کے قریب طیارہ دبئی پہنچا۔ وہاں ایندھن بھرنے کے بدلے کچھ مسافروں کی رہائی کا معاہدہ طے پایا۔

دبئی میں 27 مسافروں کو رہا کیا گیا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اس کے بعد طیارے کو قندھار لے جایا گیا۔

معدے کے کینسر میں مبتلا سیمون برار نامی خاتون کو قندھار میں علاج کے لیے طیارے سے نکلنے کی اجازت دی گئی اور وہ بھی صرف 90 منٹ کے لیے۔

ابتدائی طور پر شدت پسندوں نے اپنے 36 انتہا پسند ساتھیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ 200 ملین امریکی ڈالر کے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

اغوا کار کشمیری علیحدگی پسند کی لاش حوالے کرنے کے مطالبے پر بھی بضد تھے تاہم طالبان کی درخواست کے بعد انھوں نے رقم اور لاش کا مطالبہ ترک کردیا۔ لیکن وہ انڈین جیلوں میں قید انتہا پسندوں کی رہائی کے مطالبے پر بضد تھے۔

آٹھ دن تک جاری رہنے والا یہ یرغمالی بحران اس وقت ختم ہوا جب واجپائی حکومت نے انڈین جیلوں میں بند کچھ انتہا پسندوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

ٹھیک آٹھ دن بعد سال کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو حکومت نے معاہدے کا اعلان کیا۔ انڈین وزیر اعظم واجپائی نے نئے سال کے موقع پر قوم سے کہا کہ ان کی حکومت اغوا کاروں کے مطالبات کو کافی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

اس وقت کی اٹل بہاری واجپائی حکومت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ خود 31 دسمبر 1999 کو اپنے ساتھ تین انتہا پسندوں کو لے کر قندھار گئے۔ رہا ہونے والے شدت پسندوں میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر، احمد زرگر اور احمد عمر سعید شیخ شامل تھے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.