بھوت بنگلہ جو سپر سٹار راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کا در ثابت ہوا

فلم بینوں میں سے بیشتر’منت‘ کے نام سے ہی بالی ووڈ سٹار شاہ رخ خان کی رہائش گاہ کو جان جاتے ہیں، بالکل اسی طرح برسوں پہلے انڈین فلم انڈسٹری پر راج کرنے والےسپر سٹار راجیش کھنہ کا بنگلہ ’آشیرواد‘ اپنے آپ میں مکمل پتے (ایڈریس) کی حیثیت رکھتا تھا۔ بالی ووڈ سٹار راجندر کمار سے خریدا جانے والا یہبنگلہ اپنے پہلے مالک کی طرح راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کی علامت بن گیا تاہم اس سے پہلے یہ بھوت بنگلہ کے نام سے مشہور تھا۔
بالی ووڈ سپر سٹار راجیش کھنہ کی رہائش گاہ آشیرباد
Getty Images

ایک دور تھا جب فلمی ستاروں کی شہرت اور عروج ان کے پرتعیش بنگلوں سے جان لیا جاتا تھا۔ فلم سٹارز کی شاندار کامیابی سے لے کر دل دہلا دینے والی ناکامی تک یہ بنگلے ہر دور کے خاموش گواہ سمجھے جاتے تھے۔

فلم بینوں میں سے بیشتر جس طرح ’منت‘ کے نام سے ہی بالی ووڈ سٹار شاہ رخ خان کی رہائش گاہ کو جان جاتے ہیں، بالکل اسی طرح برسوں پہلے انڈین فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے سپر سٹار راجیش کھنہ کا بنگلہ ’آشیرواد‘ اپنے آپ میں مکمل پتے (ایڈریس) کی حیثیت رکھتا تھا۔

بالی ووڈ سٹار راجندر کمار سے خریدا جانے والا یہ بنگلہ اپنے پہلے مالک کی طرح ہی راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کی علامت بن گیا۔ تاہم اس سے پہلے ایک دور میں یہ بھوت بنگلے کے نام سے مشہور تھا اور اسی لیے اداکار راجندر کمار کو سستے دام میں ملا۔

یہی بنگلہ راجندر کمار اور پھر راجیش کھنہ کے لیے خوش قسمتی کے وہ در کھول گیا جس کی لوگ تمنا ہی کر سکتے ہیں۔

بھوت بنگلے کے نام سے مشہور ’بانو وِلا‘

ممبئی کے مغربی حصے میں واقع باندرہ ایک مشہور مضافاتی علاقہ ہے۔ آج یہاں کے باندرا بینڈ سٹینڈ اور قریبی کارٹر روڈ کو ایک تاریخی مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔

سمندر کے سامنے واقع اس عالیشان علاقے میں آج بھی کئی بڑے فلمی ستارے اور بزنس مین رہتے ہیں۔

اب تو بہت سی اونچی عمارتوں کی وجہ سے یہ علاقہ بہت گنجان آباد محسوس ہوتا ہے تاہم بغور جائزہ لیں تو ان بلند و بالا شاندار عمارتوں کے درمیان آج بھی کچھ خستہ حال عمارتیں اور پرانے بنگلے نظر آتے ہیں جو برسوں سے وہاں موجود ہیں اور اپنے اندر ایک مکمل تاریخ رکھتے ہیں۔

کارٹر روڈ پر انیس و پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ان میں سے زیادہ تر بنگلوں میں ایسٹ انڈین اور پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے رہائش پزیر تھے۔

اسی کارٹر روڈ پر سمندر کی طرف واقع بنگلہ ’آشیانہ‘ اس وقت ہندی سنیما کے بہترین موسیقار نوشاد کا ہوا کرتا تھا۔

’آشیانہ‘ کے قریب ایک اور دو منزلہ بنگلہ تھا جو انتہائی خستہ حال اور بری حالت میں تھا۔

انٹرنیٹ پر کئی مضامین میں لکھا گیا ہے کہ اس سے قبل یہ بنگالی اداکار بھارت بھوشن کا تھا لیکن یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔

اس بنگلے کی بیرونی دیوار پر انگریزی میں ’بانو ولا‘ لکھا ہوا تھا۔ آس پاس کے لوگ اس بنگلے کو بھوت بنگلہ کہتے تھے۔ کوئی اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

راجیش کھنہ کا گھر آشیرواد
Getty Images
2016 کی تصویر جب آشیرواد کی فروخت کے بعد اسے گرا کر نئی عمارت بنائی گئی

اس عرصے کے آس پاس اداکار راجندر کمار، جو ہندی سنیما میں جگہ بنانے کے لیے 10سال تک جدوجہد کر رہے تھے، نے مدر انڈیا (1957) اور پھر دھول کا پھول (1959) میں کامیابی حاصل کی۔

ان کے گھر ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی، جس کا نام انھوں نے ڈمپل رکھا۔

جیسے جیسے ان کا خاندان بڑھ رہا تھا، راجندر سانتا کروز میں واقع اپنے چھوٹے سے کرائے کے فلیٹ سے بڑے مکان میں شفٹ ہونا چاہتے تھے۔

تین فروری 1959 کی صبح انھیں ایک پراپرٹی بروکر کا فون آیا ’کارٹر روڈ پر ایک دو منزلہ مکان ہے بالکل وہی جو آپ ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا آپ ابھی آسکتے ہیں؟‘

یہ بھی پڑھیے

یہ بھی پڑھیے

یہ معلومات مصنفہ سیما سونی علیم چند سے موصول ہوئی ہیں جنھوں نے راجندر کمار کی سرکاری سوانح عمری ’جوبلی کمار: دی لائف اینڈ ٹائمز آف اے سپر سٹار‘ لکھی ہے۔

انھوں نے بتایا، ’اسی وقت راجندر کمار وہاں پہنچ گئے۔ انھوں دیکھا کہ یہ پرانا خوبصورت گھر سمندر کے سامنے تھا جہاں سے ٹھنڈی ہوا آرہی تھی۔ انھیں فوراً اپنے خاندانی نجومی کی بات یاد آگئی جنھوں نے پیش گوئی کی تھی کہ راجندر کا نیا گھر سمندر کے قریب ہوگا۔ بانو ولا سے پہلی نظر میں ہی راجندر کو پیار ہو گیا۔

’پراپرٹی بروکر سے جب کرائے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ مالک مکان کرایہ پر نہیں دینا چاہتا بلکہ بیچنا چاہتا ہے۔‘

’یہاں ایک لکھاری رہتا ہے جو لوگوں کو بتاتا رہتا ہے کہ اس گھر میں بھوت بستے ہیں، اس لیے یہ مکان نہیں بیچا جا سکتا۔ اور وہ خود یہاں رہتا ہے۔ مالک مکان اسے بہرحال بیچ دے گا اور میں آپ کو اچھی ڈیل دے سکتا ہوں۔‘

ڈیل 65 ہزار روپے میں طے پائی۔ راجندر کی بیوی پردیس گھر کے بارے میں سن کر خوفزدہ ہوگئیں۔ لیکن ان کی والدہ نے سمجھایا کہ ’بمبئی جیسے شہر میں انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے، بھوتوں کو تو رہنے دو۔‘

راجندر کمار
Getty Images
اداکار راجندرکمار نے مدر انڈیا (1957) اور پھر دھول کا پھول (1959) میں کامیابی حاصل کی

گھر نے راجندر کمار کی تقدیر بدل دی

اور یوں فیصلہ ہو گیا۔ لیکن راجندر کمار کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ انھوں نے مشہور فلمساز بی آر چوپڑا کو بتایا کہ وہ نہ صرف اپنی فلم قانون (جس میں گانے نہیں تھے) بلکہ دو اور فلموں میں بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ انھیں معاوضہ پیشگی ادا کیا جائے۔

بی آر چوپڑا نے رضامندی ظاہر کی اور راجندر کمار نے بھوت بنگلہ کے نام سے مشہور ’بانو ولا‘ خرید لیا اور اس کا نام اپنی بیٹی کے نام پر ’ڈمپل‘ رکھا۔

تاہم قریبی دوست اداکار منوج کمار کے مشورے پر راجندر کمار گھر میں داخل ہونے سے پہلے بھوتوں کو بھگانے کے لیے خصوصی دعا کروانا نہیں بھولے۔

فلم انڈسٹری کے پرانے لوگوں کو یاد ہے کہ اس گھر نے راجندر کمار کی تقدیر بدل دی تھی۔ وہ بڑی کامیابی جسے وہ پچھلے دس سال سے تلاش کر رہے تھے، اس گھر میں آتے ہی انھیں اچانک مل گئی۔

جس دور میں وہ اس بنگلے میں رہتے تھے وہ راجندر کمار کا سب سے سنہری وقت تھا۔ فلم میرے محبوب، گھرانہ، سنگم، آرزو، سورج، ان کی زیادہ تر فلموں نے جوبلی منائی جس کی وجہ سے انھیں ہندی سنیما کا ’جوبلی کمار‘ کہا جاتا تھا۔

راجندر کمار مصنف سیما سونی علیم چند کی لکھی ہوئی سوانح عمری ’جوبلی کمار: دی لائف اینڈ ٹائمز آف اے سپر سٹار‘ میں کہتے ہیں،

’میں نے اپنی زندگی کے سب سے کامیاب اور بہترین سال اس گھر میں گزارے۔‘

بہت دولت کمانے اور شہرت حاصل کرنے والے راجندر کمار نے چند سال بعد یہ بنگلہ چھوڑ دیا اور پالی ہل کے علاقے میں اپنے نئے بنگلے میں شفٹ ہو گئے۔ کارٹر روڈ پر واقع یہ بنگلہ، جو راجندر کمار کے بہترین دور کا گواہ تھا، اب اپنے نئے مالک کا انتظار کر رہا تھا۔‘

’ برخوردار، ڈمپل تمھارے حوالے‘

1969 میں راجیش کھنہ نے پے در پے اپنی فلموں سے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔

وہ پہلے انڈیا کے ایسے اداکار تھے جنھیں قسمت کا دھنی جان کر’سپر سٹار‘ کی اصطلاح وضع کی گئی تھی۔

راجیش کھنہ بمبئی میں پلے بڑھے تھے اور سمندر سے محبت کرتے تھے اور ان کا پرانا خواب تھا کہ وہ سمندر کے پاس گھر بنائیں۔

انھوں نے یہ بنگلہ اپنے خوابوں کے بہت قریب پایا۔

1969 کا نصف سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ ایک دن جب ڈائریکٹر رمیش بہل اور راجیش کھنہ راجندر کمار کے گھر بیٹھے تھے تو راجیش کھنہ نے راجندر کمار سے کہا،

’پاپا جی، کارٹر روڈ پر آپ کا بنگلہ خالی پڑا ہے اور میں ایک گھر خریدنا چاہتا ہوں۔‘

راجیندر کمار نے جواب دیا، ’مجھے وہ گھر بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

پاپا جی، پلیز اس کے بارے میں سوچیں۔ میں نے اپنا کیریئر شروع کیا ہے اور آپ ملک کے سب سے بڑے سٹار ہیں۔ اگر میں آپ کا گھر خریدوں تو میری زندگی بھی بدل جائے گی۔ شاید مجھے بھی آپ کی طرح تھوڑی سی کامیابی مل جائے۔‘

راجیش کھنہ نے کافی دیر التجا کی۔ آخر کار راجندر کمار مسکرائے۔ ، ’برخوردار، اگر ایسا ہے تو ڈمپل تمہارے حوالے۔ مجھے امید ہے کہ یہ گھر آپ کی قسمت کھول دے گا۔‘

یہ سنتے ہی راجیش کھنہ نے راجندر کمار کے پاؤں چھو کر آشیرواد لیا۔

راجیش کھنہ
Getty Images

بمبئی ٹورسٹ ڈپارٹمنٹ کا خاص سیاحتی مقام

سیما سونی علیم چند ن لکھتی ہیں کہ راجندر کمار کی بیوی شکلا اس بات سے بہت ناراض ہوگئیں۔ انھوں نے راجندر کمار سے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں تھی، پھر بھی آپ نے وہ گھر صرف ساڑھے تین لاکھ میں بیچ دیا۔

لیکن راجندر اپنی زبان پہلے ہی دے چکے تھے۔ بنگلے کی فروخت کے بعد راجندر کمار کی فلمیں حیران کن طور پر ناکام ہونے لگیں۔ ایک ہیرو کے طور پر ان کا کیریئر نیچے کی طرف چلا گیا۔

بہت سے لوگ اس کو راجندر کے لیے خوش قسمت سمجھے جانے والے ’ڈمپل‘ کی فروخت سے جوڑتے تھے تاہم خود راجندر کمار نے اس پر یقین نہیں کیا۔

سپر سٹار راجیش کھنہ بڑے دھوم دھام سے بنگلے میں شفٹ ہوئے۔ اپنے والد چننی لال کھنہ سے بنگلے کا نام بتانے کو کہا۔

اس بے مثال کامیابی کے بعد راجیش کے والدین خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کے بیٹے کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔

اداکار سچن پِلگاونکر نے مجھے اس بنگلے کے نام سے متعلق ایک دلچسپ بات بتائی، ’کاکا جی (راجیش کھنہ) کے والد نے کہا کہ بنگلے کا نام آشیرواد رکھا جائے گا۔‘

’اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ اس کا بیٹا ہمیشہ ’آشیرواد‘ کے سائے میں رہے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص جو جتن (راجیش) سے حسد کرے گا، بے شک اسے خط میں برا بھلا بھی لکھے تو وہ پھر بھی راجیش کھنہ کو ان کے ایڈریس کے طور پر آشیرباد لکھنا پڑے گا یعنی راجیش کھنہ کو ان کے گھر آنے والے ہر خط اور پیغام کے ذریعے برکت اور دعائیں ملتی رہیں گی۔

جیسے ہی وہ بنگلے میں شفٹ ہوئے، راجندر کمار سے بھی زیادہ کرشماتی کامیابی راجیش کھنہ کی زندگی میں آگئی۔

لگاتار پندرہ سپرہٹ فلمیں، سپر سٹار کے نئے بنگلے کی تصاویر فلمی میگزین اور اخبارات میں شائع ہوئیں۔

آشیرواد بھی راجیش کھنہ کی طرح مشہور ہوا اور بمبئی ٹورسٹ ڈیپارٹمنٹ کا خاص سیاحتی مقام بن گیا۔

ملک بھر سے بمبئی آنے والے لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ انھیں سپر سٹار کا بنگلہ ضرور دکھایا جائے۔

ہر روز انھیں مداحوں کی طرف سے ایسے ہزاروں خطوط موصول ہوتے تھے، جن میں صرف ایک ہی بات لکھی جاتی تھی - راجیش کھنہ، آشیرواد، بمبئی۔

ان میں راجیش کھنہ کی محبت میں دیوانی لڑکیوں کی خوشبو سے مہکتے خطوط، شادی کی پیشکش اور خون میں لکھے خطوط بھی شامل تھے، جن کے بارے میں پہلے بھی بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔

آشیرواد حاصل کرنے والے خطوط کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ راجیش کھنہ نے انھیں ترتیب دینے اور جواب دینے کے لیے ایک شخص کی خدمات حاصل کیں۔

یہ شخص پرشانت رائے تھا۔ پرشانت تقریباً 20 سال تک آشیرواد میں کام کرتے رہے۔

’اوپر آقا، نیچے کاکا‘ اور ’کھنہ دربار‘

پرشانت نے مجھے بتایا، ’آشیرواد کو ہر روز مداحوں کے میل کا ڈھیر ملتا تھا۔ کاکا جی اکثر آتے اور پوچھتے کہ پرشانت نے آج کون سے بہترین خط چنے تھے؟ وہ اونچی آواز میں خط پڑھتے اور ہماری طرف دیکھ کر مسکراتے۔‘

وہ شائقین کے جذبات دیکھ کر حیران ہو جاتے تھے اور ہنستے ہوئے پنجابی میں کہتے - ’میں کیا کروں؟ یہاں کے لوگ... وہاں کے لوگ، خون سے لکھے خط؟ کیوں؟ یہ کیا ہو گیا ہے؟‘

حالات ایسے تھے کہ انڈسٹری میں ایک نئی کہاوت پیدا ہو گئی تھی ’اوپر آقا، نیچے کاکا۔‘

اس بنگلے میں راجیش کھنہ کا وہ مشہور کمرہ بھی تھا جو تصویروں اور ٹرافیوں سے سجا ہوا تھا جس میں وہ بیٹھ کر انٹرویو دیتے تھے۔

مصنف سلیم خان نے بتایا۔ ’آج میرا بیٹا سلمان ایک بڑا سٹار ہے، ہر روز اسے دیکھنے کے لئے ہمارے گھر کے باہر ایک ہجوم ہوتا ہے۔ ‘

لوگ مجھے کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلے کبھی کسی سٹار کا ایسا دیوانہ نہیں دیکھا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ نہیں میں نے دیکھا ہے۔ اس سڑک سے کچھ فاصلے پر آشیرواد کے سامنے ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں جو راجیش کھنہ کے بعد میں نے کسی اور سٹار کے لیے فینز کو ایسا دیوانہ نہیں دیکھا۔

ہر شام ’آشیرواد‘ میں ایک محفل جمتی تھی جسے فلم انڈسٹری میں ’کھنہ دربار‘ کہا جاتا تھا۔

آشیرباد میں نئی مالکن ڈمپل

یہ عجیب اتفاق تھا کہ بنگلے کا نام جو پہلے ’ڈمپل‘ تھا وہاں اس کی نئی مالکن بن کر بھی ڈمپل ہی آئیں۔

راجیش کی غیر موجودگی میں، پرشانت رائے کا کام تھا کہ وہ گھر پر فون کالز وصول کریں اور انھیں ایک نوٹ بک میں لکھیں۔

انھوں نے مجھے بتایا، ’کاکا کے گھر کا فون نمبر 53117 تھا اور تقریباً ہر منٹ میں وہ ایک کال وصول کرتے تھے۔‘

’ایک صبح ایک لڑکی کا فون آیا۔ وہ کاکا جی سے بات کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے اپنا نام ڈمپل بتایا۔ میں نے انھیں بتایا کہ کاکا جی شوٹنگ کے لیے گئے ہیں۔‘

’پھر تین چار دن تک مسلسل کالز آتی رہیں، وہ مجھ سے بہت عزت سے بات کرتی تھیں، مجھے پرشانت صاحب کہہ کر پکارتی تھیں۔ ایک شام میں نے کاکا جی سے کہا کہ ڈمپل نامی لڑکی روز فون کر کے آپ کے بارے میں پوچھتی ہیں۔

کاکاجی مسکرائے۔۔۔ کہا ہاں ہاں، وہ بوبی کی ہیروئن ہیں، ان کی کال ٹھیک سے اٹینڈ کرو۔

چند دنوں کے بعد چونی بھائی کپاڈیہ آشیرواد آئے اور ان کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ پرشانت کو دیکھ کر انھوں نے کہا، ’پرشانت، یہ میری بیٹی ڈمپل ہے۔‘

اس پر ڈمپل نے ہنستے ہوئے کہا ’پرشانت صاحب، کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ ہم نے کئی بار بات کی ہے۔‘

پرشانت ہنسے اور مہمانوں کو گھر کے اندر لے آئے۔ یہ ڈمپل کا اس گھر سے پہلا تعارف تھا۔

مارچ 1973 میں، اپنی پہلی فلم بوبی کی ریلیز سے پہلے ہی ڈمپل نے راجیش کھنہ کے جیون ساتھی کے طور پر آشیرواد میں قدم رکھا۔

اس وقت انھیں نہ صرف بمبئی بلکہ ملک کی سب سے بڑی شادی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ابتدائی سال کامیابی اور خوشی کے سال تھے۔

ڈمپل نے فلم انڈسٹری کو الوداع کہہ دیا تھا۔اس جوڑے کی دو بیٹیاں تھیں لیکن پھر امیتابھ بچن کی انٹری اور فلم انڈسٹری میں رومانوی فلموں کے برعکس ایکشن فلموں کے نئے دور نے وقت بدل دیا۔

چند ہی سالوں میں امیتابھ ایک نئے سپر سٹار کے طور پر ابھرے۔ کرشماتی کامیابی کے بعد راجیش کھنہ کے زوال پذیر کیریئر نے انھیں بری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا۔

فلم محبوبہ، اجنبی، عاشق ہوں بہاروں کا جیسی بڑی فلموں کی ناکامی نے راجیش کے خود اعتمادی کو گہری ٹھیس پہنچائی۔

ہر شام شراب نوشی نے ان کے اندر ناکامی کی آگ کو مزید بھڑکا دیا۔

اور پھر ایک رات، آشیرواد کی چھت پر، وہ واقعہ ہوا جسے راجیش کھنہ نے برسوں بعد مووی میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بیان کیا،

’مجھے یاد ہے ایک بار صبح کے تین بج رہے تھے۔ میں نے بہت زیادہ شراب پی۔ اچانک میرے لیے سب کچھ برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا کیونکہ میں پہلی بار اس طرح کی ناکامی کا سامنا کر رہا تھا۔‘

’میری سات فلمیں یکے بعد دیگرے فلاپ ہوئیں۔ اس رات بارش ہو رہی تھی، مکمل اندھیرا تھا اور میں اپنے ٹیرس پر اکیلا تھا۔ اچانک میں اپنے حواس کھو بیٹھا اور چیخا - ’خداوند! ہم غریبوں کو اس قدر سختی سے مت آزماؤ کہ ہم تیرے وجود سے انکار کر دیں۔‘

ڈمپل کے ساتھ اس کے تعلقات میں تناؤ بھی بڑھ رہا تھا۔ راجیش کھنہ اور ڈمپل تقریباً نو سال ساتھ رہنے کے بعد الگ ہو گئے۔

ڈمپل نے آشیرباد کو خیرباد کر دیا۔ 1992 میں، راجیش کھنہ نے فلموں سے وقفہ لیا اور سیاست میں قسمت آزمائی کی اور کانگریس کے ٹکٹ پر دہلی سے الیکشن جیتے20 سال آشیرواد میں رہنے کے بعد وہ اسے چھوڑ کر دہلی چلے گئے۔

آشیرواد کے عملے میں کام کرنے والے بہت سے لوگ بھی دھیرے دھیرے دوسری جگہوں پر جا کر کہیں اور کام کرنے لگے۔

بنگلہ چھوڑنے کا دکھ

راجیش کھنہ کی زندگی میں کئی مراحل آئے اور اس دوران وہ قریبی لوگوں کی حمایت کھوتے رہے۔

اگر کوئی ایسی چیز تھی جس نے ان کی زندگی کے کسی بھی لمحے کبھی نہیں چھوڑا تو وہ ان کی تنہائی تھی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ مزید تنہا ہوتے چلے گئے۔

برسوں بعد وہ سیاست سے بھی بیزار ہو گئے۔ وہ اپنے شہر لوٹ آئے جو اب بمبئی سے ممبئی بن چکا تھا۔

لیکن اس دوران انکم ٹیکس سے متعلق ایک مسئلہ بڑھ جانے پر آشیرواد کو ٹیکس حکام نے سیل کر دیا۔

ایک وقت ایسا آیا جب راجیش کھنہ نے ایک بار پھر آشیرواد چھوڑ دیا اور باندرہ لنکنگ روڈ پر ٹائٹن شوروم کے اوپر واقع اپنے دفتر میں شفٹ ہو گئے۔ وہ دفتر بہت بڑا تھا لیکن انھیں اپنا بنگلہ چھوڑنے کا بہت دکھ تھا۔

ان کی آخری فلم ریاست کے ڈائریکٹر اشوک تیاگی نے مجھے بتایا ’یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ لنکنگ روڈ پر دفتر میں رہتے تھے۔ ان کے بنگلے کو محکمہ انکم ٹیکس نے سیل کر دیا تھا۔ ایک دن وہ مجھے ڈرائیو پر لے گئے اور گاڑی سیدھا آشیرواد کے سامنے روک دی۔ ہم ایک دوسرے کے سامنے ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔

اس رات ہلکی بارش کے درمیان راجیش کھنہ نے اشوک تیاگی کو اپنے سنہری دور کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔ انھوں نے اشوک کو بتایا، ’ایک زمانے میں سینکڑوں لوگ روزانہ اسی بنچ کے پاس گھنٹوں انتظار کرتے تھے جس پر ہم آج خود بیٹھے ہیں۔‘

اشوک ماضی کے سپر سٹارز کے درد کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے کہا، ’کاکا فکر نہ کریں، آپ دیکھیں گے کہ وہ پرستار پھر سے ضرور آئیں گے۔

اس بات پر راجیش کھنہ نے ہلکے سے مسکرائے۔

راجیش کھنہ ، ڈمپل کپاڈیہ
Getty Images
راجیش کھنہ کی بیماری کا سن کر ایک بار پھر ملک بھر سے سینکڑوں مداح اور میڈیا کے لوگ آشیرواد کے سامنے جمع ہونے لگے

’وقت ختم ہو گیا ہے۔۔۔ پیک اپ‘

اور پھر ان کے مداح ’آشیرواد‘ کے ساتھ واپس آگئے۔

راجیش کھنہ کا بنگلہ کسی نہ کسی طرح انکم ٹیکس محکمہ کی جانب سے لگائی گئی مالی مشکلات سے نکل آیا اور اپنی زندگی کے آخری سالوں میں راجیش کھنہ آشیرواد میں اکیلے رہنے لگے۔

تاہم وہ کبھی بھی فلموں میں اس ڈیمانڈ کے ساتھ واپس نہیں آ سکے۔ برسوں بعد جب اچانک ان کی سنگین بیماری کی خبر آئی تو راجیش کھنہ اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ وہ بار بار بے ہوش بھی ہو جاتے تھے۔ انھیں ممبئی کے لیلاوتی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

جب انھیں 20 جون کو ہسپتال میں ہوش آیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ وہ ہسپتال میں نہیں رہنا چاہتے۔ وہ اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔

اس دن جب وہ کارٹر روڈ پر واقع اپنے بنگلے آشیرواد پہنچے تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ تاریخ دہرائی جا رہی تھی۔

آج ایک بار پھر ملک بھر سے سینکڑوں مداح اور میڈیا کے لوگ آشیرواد کے سامنے جمع تھے۔ ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ ملک کے پہلے سپر سٹار کی حالت اب کیسی ہے؟

21 جون 2012 کی دوپہر کو سیاہ چشمہ پہنے، گلے میں شال اوڑھے، راجیش کھنہ، اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے، کارٹر روڈ پر واقع اپنے بنگلے آشیرواد کی اسی مشہور بالکونی میں نکلے۔

سامنے کھڑے ان کے مداح انہیں دیکھ کر خوشی سے چیخ اٹھے۔ اس وقت باقی تمام خبروں کو بھول کر ملک کا تقریباً ہر نیوز چینل راجیش کھنہ کو لائیو دکھا رہا تھا۔

راجیش کھنہ نے اپنے جانے پہچانے انداز میں ہاتھ اٹھایا اور بڑے سٹائل سے سب کی طرف اشارہ کیا... ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔ جی ہاں، ان کے چاہنے والے لوٹ آئے تھے۔ پورا ماحول ان کے عروج کے دنوں کی یاد تازہ کر رہا تھا۔

21 جون 2012، جب راجیش کھنہ ایک بار پھر اپنے مداحوں سے اس طرح ملے۔ اگلے ہی دن یعنی 23 جون کو انھیں دوبارہ لیلاوتی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔

ان کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی تھی۔ ان کے گھر والے چاہتے تھے کہ وہ ہسپتال میں ہی رہیں لیکن وہ اس بات پر بضد تھے کہ وہ اپنی آخری سانسیں اپنے آشیرباد میں ہی لینا چاہتے ہیں۔

ان کی خواہش کے مطابق 17 جولائی کو انھیں ممبئی کے لیلاوتی ہسپتال سے آخری بار ڈسچارج کروا کے ان کے بنگلے آشیرواد لے جایا گیا۔

میں نے راجیش کھنہ کی زندگی اور فلمی کیرئیر پر ایک کتاب لکھی ہے اور وہ کتاب لکھتے ہوئے مجھے ان کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ 18 جولائی کو جب انھوں نے آشیرواد میں اپنے بیڈ روم میں آخری سانس لی تو انھوں نے کہا، ’وقت ختم ہو گیا ہے۔۔۔ پیک اپ!‘

2014 میں خاندان نے آشیرواد کو ایک صنعت کار کو بیچ دیا۔ آشیرواد کو چند سال بعد ایک نئی عمارت بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا۔

شاید راجیش کھنہ کے ساتھ عنایات کا دائرہ بھی مکمل ہو گیا تھا۔ جب بھی فلمی تاریخ کے صفحات میں راجیش کھنہ کا ذکر آئے گا، آشیرواد کو بھی سنیما کے ایک اہم دور کے گواہ کے طور پر شامل کیا جائے گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.