برطانوی راک بینڈ اگلے سال ممبئی میں اپنے میوزک آف دی سفیئرز ورلڈ ٹور کے تین شوز کرنے کے لیے تیار ہے اور ان شوز کے ٹکٹ فروخت کرنے کے مجاز پلیٹفار بک مائی شو (بی ایم ایس) پر ان کے ٹکٹ منٹوں میں فروخت ہونے کے بعد ٹکٹوں کو دوبارہ فروخت کرنے والے پلیٹ فارمز پر انھیں منھ مانگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔
اگر آپ انڈیا میں ہوں اور آپ کے پاس نو لاکھ روپے یا تقریباً 11 ہزار امریکی ڈالر کی رقم ہو تو آپ اس سے کیا خریدنا پسند کریں گے۔
کیا آپ ان پیسوں سے ایک نئی کار خریں گے یا دنیا کی سیر کے لیے ٹکٹ، زیورات یا کہ کولڈ پلے کے کنسرٹ کا ٹکٹ؟
برطانوی راک بینڈ اگلے سال ممبئی میں اپنے میوزک آف دی سفیئرز ورلڈ ٹوئر کے تین شوز کرنے کے لیے تیار ہے اور ان شوز کے ٹکٹ فروخت کرنے کے مجاز پلیٹ فارم بُک مائی شو (بی ایم ایس) پر ان کے ٹکٹ منٹوں میں فروخت ہونے کے بعد ٹکٹوں کو دوبارہ فروخت کرنے والے پلیٹ فارمز پر انھیں منھ مانگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔
ٹکٹوں کی فروخت گذشتہ اتوار کو شروع ہوئی اور ان کی قیمت 2,500 روپے سے لے کر 12,000 روپے تک تھی۔ ان شوز کے لیے 180,000 ٹکٹ برائے فروخت تھے جن کے لیے ایک کروڑ لوگوں میں مقابلہ تھا۔
شائقین نے گھنٹوں طویل ’ڈیجیٹل قطاروں‘ اور ویب سائٹ کے کریش ہونے کی شکایت کی جبکہ بہت سے لوگوں نے فروخت میں دھاندلی کے الزام بھی لگائے کیونکہ ری سیلرز نے ٹکٹوں کو آفیشل سائٹ پر ریلیز ہونے سے پہلے ہی پانچ گنا قیمت پر فروخت کرنا شروع کر دیا تھا اور ایک ٹکٹ کی قیمت نو لاکھ روپے تک پہنچ گئی تھی۔
رواں ماہ کے شروع میں برطانیہ میں اویسز کے کنسرٹ کے ٹکٹوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جہاں ری سیلرز نے 135 برطانوی پاؤنڈ کی قیمت والے ٹکٹوں کے لیے 350 برطانوی پاؤنڈ سے زیادہ چارج کیا۔
لیکن اس کے باوجود کولڈ پلے کے ٹکٹوں کی مہنگی قیمتیں نمایاں ہیں۔ اس کو یوں سمجھیں کہ میڈونا کے سیلیبریشن پروگرام کے دورے کے لیے وی آئی پی ٹکٹ کی قیمت 1300 پاؤنڈ سے زیادہ نظر آئی جبکہ بیونسے کے پروگرام رینیساں کنسرٹ کے بہترین ٹکٹ 2400 برطانوی پاؤنڈ میں فروخت ہوئے۔
ان واقعات نے انڈیا میں ٹکٹ سکیلپنگ کے بارے میں گفتگو کو جنم دیا ہے جس کے تحت لوگ آن لائن کی قطاروں کو نظرانداز کرنے کے لیے بوٹس یا آٹومیشن ٹولز کا استعمال کرتے ہیں اور دوبارہ فروخت ہونے والے پلیٹ فارمز پر فروخت کرنے کے لیے ایک سے زیادہ ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔
شائقین سوال کر رہے ہیں کہ آیا آفیشل سائٹ نے اسے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے تھے یا اس نے اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بی ایم ایس نے ری سیلرز کے ساتھ کسی بھی قسم کی وابستگی کی تردید کی ہے اور مداحوں پر زور دیا ہے کہ وہ 'غیر مجاز ذرائع' سے ٹکٹ لینے سے گریز کریں کیونکہ وہ جعلی ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں نے ٹکٹ ری سیل کرنے والی سائٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار نہیں کیا۔
بہت سے مداحوں نے پنجابی گلوکار دلجیت دوسانجھ کے آنے والے کانسرٹس کے ٹکٹ کی خریداری کے دوران اسی طرح کے تجربے کی شکایت کی ہے۔ ٹکٹ رواں ماہ کے شروع میں کانسرٹ کے پروموٹر زوماٹو لائیو پر جاری کیے گئے تھے اور فروخت ہونے کے بعد وہ اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قمیت پر ری سیلنگ پلیٹ فارمز پر دستیاب تھے۔
انڈیا میں ٹکٹوں کی سکیلپنگ غیر قانونی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی امکان ہے کہ جائز ٹکٹ ہولڈرز بڑے پیمانے پر ٹکٹوں کی مانگ کی وجہ سے منافع کمانے کے لیے اپنا ٹکٹ ری سیلرز کے ذریعے بیچ رہے ہیں۔
گرافک ڈیزائنر ڈوین ڈیاس ان چند خوش قسمتوں میں شامل ہیں جو کولڈ پلے کانسرٹ کے لیے آفیشل سائٹ سے ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے 6,450 روپے میں چار ٹکٹ خریدے۔
اس کے بعد سے بعض لوگ ان سے رابطہ کر رہے ہیں اور وہ انھیں ٹکٹ کے لیے 60,000 روپے تک ادا کرنے کو تیار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر میں چاہوں تو، میں تمام ٹکٹیں بیچ دوں اور جنوبی کوریا جا کر ان کا کنسرٹ دیکھوں (کیونکہ کولڈ پلے کا اگلا کنسرٹ وہیں ہونے والا ہے)۔ اس رقم سے میرے سفر کے اخراجات بھی پورے ہوں گے اور مجھے ایک نئے شہر کا تجربہ بھی ہو گا۔‘
اگرچہ کولڈ پلے کے ٹکٹوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں حیران کن ہیں لیکن مقبول بین الاقوامی فنکاروں کو پرفارم کرتے دیکھنے کے لیے ٹکٹوں کی بہت زیادہ مانگ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ درحقیقت انڈیا میں لائیو میوزک کا کاروبار پچھلے کچھ سالوں میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق میوزک کانسرٹس نے گذشتہ سال تقریباً 800 کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کی تھی اور 2025 تک اس میں 25 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ موسیقی کے کاروبار کے تجربہ کار اور مہندرا بلیوز میوزک فیسٹیول کے بانیوں میں سے ایک برائن ٹیلس کہتے ہیں کہ کانسرٹ کسی فرد اور ملک کی ثقافتی کرنسی کا حصہ بن چکے ہیں۔
ایڈ شیران، ایلن واکر اور دووا لیپا جیسے چارٹ ٹاپرز نے گذشتہ برسوں انڈیا میں پرفارم کیا ہے جبکہ ایلن واکر اور دووا لیپا رواں سال دوبارہ پرفارم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'دوسری صنعتوں کی طرح انڈیا موسیقی کے کاروبار کے لیے بھی ایک تیزی سے ترقی پزیر مارکیٹ ہے۔ یہاں ایک بہت بڑی آبادی ہے جو نوجوان ہے اور اس کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسہ ہے۔ ہر کوئی اپنا حصہ چاہتا ہے۔'
ایسے ٹکٹ کی قیمتوں میں اضافہ اور ان کی بڑھتی ہوئی مانگ واضح ہے۔ ٹیلس کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک دہائی قبل کنسرٹس کی لاگت کا 80 فیصد سپانسرز اور 20 فیصد ٹکٹوں کی فروخت کے ذریعے حاصل کیا جاتا تھا لیکن آج یہ معاملہ الٹ ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'کنسرٹ میں شرکت کرنا شیخی مارنے، روایت پرست ہونے اور اس سین کا حصہ ہونے اور ان سب کا مرکب ہے۔ اس مرکب میں موسیقی کے حقیقی چاہنے والے بھی ہیں، لیکن بہت سے لوگ اس لیے شرکت کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی پرفارمنس کے ارد گرد موجود تعریف سے متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ خود کو اس سے محروم محسوس نہیں کرنا چاہتے۔'
کولڈ پلے کنسرٹ کے ٹکٹوں کی فروخت سے کچھ دن پہلے اور پھر بعد میں سوشل میڈیا بھرے سٹیڈیمز میں ایڈونچر آف لائف ٹائم اور فکس یو جیسے ہٹ پرفارم کرنے والے بینڈ کی دلکش انسٹاگرام ریلز سے بھرا ہوا تھا۔
شائقین اپنے پسندیدہ گلوکار کے ساتھ گانا گا رہے تھے اور وہ اپنے ایل ای ڈی بریسلٹ سے اس کانسرٹ کے مقام کو ستاروں بھرے آسمان میں تبدیل کر رہے تھے۔ انفلوئنسرز بینڈ سے اپنے لگاؤ کے بارے میں بتا رہے ہیں جبکہ اس کے متعلق کولڈ پلے سے متعلق میمز کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔
میوزک انڈسٹری کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹارگٹڈ مارکیٹنگ ٹکٹوں کی فروخت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور یہ کام پروموٹرز کی ویب سائٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جتنی زیادہ مانگ پیدا ہو گی، ٹکٹوں کی قیمتیں اتنی ہی بڑھائی جا سکتی ہیں۔ کانسرٹس کا اہتمام کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان میں اکثر نقصان ہوتا ہے لیکن جہاں منافع کے مواقع ہوتے تو ان کا استحصال بھی کیا جاتا ہے۔
اگرچہ بعض شائقین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ٹکٹوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں لیکن ٹیلس اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ (یعنی ٹکٹوں کی فروخت) انٹرپرینیورشپ ہے، اس میں حکومت کی دخل اندازی درست نہیں۔ کیونکہ اگر آپ ریونیو کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اخراجات کو بھی کنٹرول کرنا پڑے گا۔‘
انڈیا میں لائیو میوزک کے کاروبار میں فروغ کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کو اب بھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے اس سے پہلے کہ وہ بین الاقوامی موسیقی کے منظرنامے کے برابر ہو سکے۔
ٹیلس کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پاس کانسرٹ کے بہت کم مقامات ہیں اور وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے پیمانے پر مانگ کے باوجود فنکار انڈیا میں کم شوز کرتے ہیں۔'
ڈیاس اور ان کے دوست حال ہی میں کولڈ پلے کانسرٹ میں شرکت کے لیے سنگاپور گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹکٹ بکنگ کا تجربہ بھی درست تھا، کانسرٹ کا مقام بھی اعلیٰ درجے کا تھا اور ہجوم کو اچھی طرح سے کنٹرول کیا گیا تھا۔
انھیں یقین نہیں ہے کہ انڈیا کے ڈی وائی پاٹل سٹیڈیم میں ہونے والے اس بینڈ کے کانسرٹس میں انھیں ویسا ہی اچھا تجربہ ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک تو یہ بہت چھوٹا ہے اور انڈیا میں ہجوم کافی حد تک بے ترتیب ہو سکتا ہے۔‘
وہ اس بارے میں بھی پریشان ہیں کہ پنڈال کتنا محفوظ رہے گا اور کیا داخلی اور خارجی راستوں پر بھیڑ کو منظم رکھنے کا مناسب انتظام کیا جا سکے گا۔
لیکن فی الحال انھوں نے اپنا ٹکٹ محفوظ رکھا ہے اور کرس مارٹن اور کمپنی کو دوبارہ پرفارم کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی ہو اسے برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔