بنگلہ دیش کے خلاف بُری کارکردگی کے بعد انگلش کرکٹ ٹیم کے سامنے گرین شرٹس کی پرفارمنس کیسی رہے گی اور کیا وہ بحیثیتِ ٹیم کم بیک کرنے میں کامیاب ہوگی؟ ان تمام سوالات کے جواب سمیع چوہدری کی اس تحریر میں۔
شان مسعود کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔ آخر بنگلہ دیش کے ہاتھوں کلین سویپ کی تاریخی ندامت کا بوجھ ہی کچھ ایسا تھا۔ مگر خوبی یہ رہی کہ اس ناقابلِ جواز کارکردگی کے لیے شان نے بھی کوئی جواز لانے کی کوشش نہیں کی۔
انھوں نے یہ دلیل بھی خوب پیش کی تھی کہ ریڈ بال کرکٹ میں کارکردگی کے لیے معیار ریڈ بال کرکٹ کو ہی مانا جانا چاہیے کہ میتھ کے پرچے کی تیاری سائنس پڑھ کر نہیں کی جا سکتی۔ مگر اب ستم ظریفی یہ ہے کہ بین سٹوکس کی انگلش ٹیم پھر سے پاکستان کے میتھ کا ’ٹیسٹ‘ لینے آ چکی ہے جبکہ پاکستان نے پچھلے تین ہفتے نیا ون ڈے ٹورنامنٹ کھیل کر سائنس کی تیاری کی ہے۔
جس بمپر ہوم سیزن کی بدولت پاکستان کو ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل تک رسائی کی ایک مدھم سی اُمید اٹھی تھی، بنگلہ دیش کے ہاتھوں کلین سویپ کے بعد وہ تو بالکل ختم ہو ہی چکی، اب سوال صرف یہ ہے کہ اتنے برسوں بعد ایک کیلنڈر سال میں اتنی زیادہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی ٹیم اپنی آبرو کیسے بچائے گی؟
اوپننگ کی بحث
بنگلہ دیش کے خلاف امام الحق کو آرام دے کر پاکستان نے اپنی نئی اوپننگ جوڑی کو مکمل موقع فراہم کیا۔ لیکن معمہ عجب ہو گیا تھا جب صائم ایوب نے تو دو اچھی اننگز کھیل کر اپنے عزم کا ثبوت دے دیا مگر آزمودہ کار عبداللہ شفیق کی ناکامیوں کا سلسلہ تھم نہیں پایا۔
ایسے میں سوال یہ ابھرتا ہے کہ انگلش ٹیم کی میزبانی کے ہنگام پاکستان کا اوپننگ کمبینیشن کیا ہونا چاہیے؟
پچھلے ڈومیسٹک سیزن نے جو نیا اوپننگ ٹیلنٹ فراہم کیا ہے، وہ محمد حریرہ کی شکل میں اس سکواڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ چیمپئینز کپ کے دوران بھی حریرہ نے اپنی بہترین تکنیک اور فارم کا ثبوت پیش کیا۔
سو، یہاں پاکستان کے پاس موقع رہے گا کہ فارم سے محروم عبداللہ شفیق کو آرام دے کر صائم ایوب کے ہمراہ محمد حریرہ سے اوپننگ آزما سکے۔
مڈل آرڈر کی فارم
پچھلے چند سال میں ٹیسٹ کرکٹ کا تقابلی ڈیٹا دیکھا جائے تو پاکستانی مڈل آرڈر دنیا بھر سے آگے نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بابر اعظم کی فارم کے علاوہ محمد رضوان کی فارم اور سعود شکیل کے آہنی اعصاب رہے ہیں۔
لیکن بنگلہ دیشی بولرز کے زبردست ڈسپلن نے نہ صرف بابر اعظم کی ابتر فارم کا سلسلہ طویل کر ڈالا تھا بلکہ سعود شکیل کی تکنیک میں بھی کچھ گوشے بے نقاب کر دیے۔ ایسے میں کیا پاکستان کو اپنے مڈل آرڈر میں بدلاؤ لانے کی ضرورت ہے؟
بھلے اس سوال کا جواب اثبات میں بھی ہو مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے پاس فی الحال ان بلے بازوں کا کوئی موزوں متبادل موجود نہیں۔ قائد اعظم ٹرافی کے گزشتہ سیزن کے ٹاپ سکوررز پر نظر ڈالی جائے تو سرفراز احمد اور اسد شفیق کی ٹاپ پر موجودگی ہی نئے ٹیلنٹ کے ذخائر کا بخوبی پتہ دے دیتی ہے۔
خوش قسمتی سے چیمپئینز کپ میں بابر کی فارم کچھ بحال ہوتی دکھائی دی اور ویسے بھی پاکستان کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں کہ انھیں ایک سیریز کے لیے آرام دے کر کوئی نیا آپشن آزما سکتا۔
مگر پاکستانی تھنک ٹینک یہ ضرور کر سکتا ہے کہ مڈل آرڈر بلے بازوں کو اپنے اپنے طریقے سے اننگز جوڑنے کی سہولت فراہم کرے نہ کہ ان پر بھی ٹاپ آرڈر کی طرز کی ’شان مسعودانہ‘ بیٹنگ کرنے کا دباؤ برقرار رکھا جائے۔
سپیشلسٹ سپنر کا کردار
دہائیوں تک اپنے سپنرز کی بدولت ہوم کنڈیشنز میں راج کرنے والی پاکستانی کرکٹ کے تازہ المیوں میں سے نہایت تکلیف دہ یہ امر ہے کہ اب پاکستان کو کوئی ایک ورلڈ کلاس سپنر بھی دستیاب نہیں ہے۔ سعید اجمل اور یاسر شاہ کے بعد یہ سسٹم کوئی ایک بھی ایسا سپنر پیدا نہیں کر پایا جو ورلڈ کلاس بلے بازوں کے اعصاب پہ سوار ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
بنگلہ دیش کے خلاف پہلا ٹیسٹ نہ کھلائے جانے پہ ابرار احمد کو تو مایوسی رہی ہی ہو گی مگر ان سے زیادہ غوغا میڈیا سکرینوں پر مچا رہا اور جب اس شور سے مرعوب ہو کر پاکستانی تھنک ٹینک دوسرے ٹیسٹ میں ابرار کو واپس بھی لایا تو وہ کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا پائے۔
اگرچہ طویل عرصے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے ابرار کی اس کارکردگی کو معیار ماننا زیادتی ہو گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سپیشلسٹ لیگ سپنر یا آف سپنر کے برعکس ابرار احمد کی گیند میں بھی نیچرل ٹرن اتنا ہی ہے جتنا کسی مسٹری سپنر کو میسر ہو سکتا ہے۔
اب یہاں پاکستان کے آپشنز خاصے محدود ہیں کہ اگر انھیں انگلش بلے بازوں کے لیے کوئی سرپرائز پیکج لانا بھی ہے تو نعمان علی اور ساجد خان کے بعد مبسر خان، کاشف علی اور مہران ممتاز کے محدود سے نام سامنے آتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی انٹرنیشنل کرکٹ کی مسابقت کا تجربہ نہیں رکھتا۔ جبھی پاکستان نے پہلے ٹیسٹ کے لیے ابرار ہی کے ہمراہ نعمان علی کو سکواڈ میں جگہ دی ہے۔
ایسے میں ممکنہ کاوش محض یہی ہو سکتی ہے کہ ڈسپلن میں بہتری کی مشق کے علاوہ تھنک ٹینک ابرار کو مکمل تزویراتی مدد بھی فراہم کرے اور جارح مزاج انگلش مڈل آرڈر کے لئے سٹریٹیجی بنا کر فراہم کرے۔
فاسٹ بولنگ کا قحط
بنگلہ دیش کے خلاف سیریز نے پاکستان کے ان فخریہ دعووں کی بھی قلعی کھول کر رکھ دی ہے جو پچھلے سالوں میں پاکستانی پیسرز کو دنیا کا بہترین پیس اٹیک قرار دینے سے متعلق ہوتے تھے۔ نو آموز بنگلہ دیشی سیمرز نے نہ صرف ڈسپلن میں پاکستانی بولنگ کو مات دی بلکہ رفتار میں بھی کوئی پاکستانی بولر اس اوسط کے قریب نہ پہنچ پایا جو بنگلہ دیشی بولرز نے دکھائی۔
اگرچہ پیس ہی سب کچھ نہیں ہے مگر ٹیسٹ کرکٹ میں جب کنڈیشنز بیٹنگ کے لیے سازگار ہوں اور پرانی گیند ریورس سوئنگ ہونے سے بھی انکاری ہو تو پیس کسی بھی بولر کے لیے ایک مہلک ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔
عامر جمال کی انجری سے واپسی پاکستان کے لیے نوید ہو گی کہ ایک سیمر کے علاوہ بیٹنگ لائن کو بھی اضافی سہارا ملے گا۔ شاہین آفریدی کی حالیہ فارم اور رویہ اگرچہ ان کی ڈومیسٹک سرکٹ میں واپسی کا تقاضہ کرتے ہیں مگر پہلے ٹیسٹ کی الیون میں وہ پھر سے پاکستانی اٹیک کی قیادت کر رہے ہوں گے۔
سو، اگر پاکستان کو نسیم شاہ، میر حمزہ، شاہین آفریدی اور عامر جمال کی شکل میں چار سیمرز مہیا ہوں تو یہ بولنگ لائن انگلش بیٹنگ کا کچھ مقابلہ تو کر سکتی ہے۔ مگر یہ مقابلہ شاہین کی فارم اور پیس سے مشروط رہے گا۔
’شان مسعودانہ‘ بیٹنگ کا المیہ
ٹیسٹ کرکٹ کی حرکیات کا جو ادراک شان مسعود رکھتے ہیں، اس کی بدولت یہ درست ہے کہ پی سی بی نے ان پر اعتماد کا بالکل بجا فیصلہ کیا تھا۔ اگرچہ ان کی کرئیر بیٹنگ اوسط بھی خوش کن نہیں رہی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں اکثر مواقع ہی نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اورجنوبی افریقہ کی کنڈیشنز میں ملے جہاں امام الحق اکثر انجرڈ ہو جایا کرتے تھے۔
لیکن ان سب عوامل کے باوجود ایک مستقل الجھن ہے جو سالہا سال سے شان مسعود کی بیٹنگ میں چلی آ رہی ہے کہ جب بھی وہ کریز پر مکمل جم چکے ہوتے ہیں اور دیگر سبھی بلے بازوں سے کہیں بہتر کھیل رہے ہوتے ہیں، اچانک کوئی ایک ایسی شاٹ چن بیٹھتے ہیں جو انھیں پویلین لوٹنے اور مبصرین کو سر پیٹنے پر مجبور کر ڈالے۔
پاکستانی کرکٹ زوال کی جن کھائیوں میں جا پڑی ہے، اسے وہاں سے نکالنے کو لازم ہے کہ بطور بلے باز شان مسعود ذمہ داری کا ثبوت دیں کہ اب یہ صرف ان کی قیادت ہی نہیں، پاکستان کرکٹ کی بھی بقا کی جنگ ہے۔
اسی بارے میں