پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز بنانے والی پاکستانی ٹیم کو میچ کے چوتھے روز چائے کے وقفے کے بعد انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور چوتھے روز کے اختتام پر اس کے چھ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں اور اب بھی انگلینڈ کو پاکستان پر 115 رنز کی برتری حاصل ہے۔
پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز بنانے والی پاکستانی ٹیم کو میچ کے چوتھے روز چائے کے وقفے کے بعد انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور چوتھے روز کے اختتام پر اس کے چھ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں اور اب بھی انگلینڈ کو پاکستان پر 115 رنز کی برتری حاصل ہے۔
ایک ایسی پچ پر جہاں انگلینڈ کے بلے باز چند ہی گھنٹوں پہلے تک جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے اور پاکستانی بولرز کو ملتان کی دھوپ میں 150 اوورز تک بولنگ کروانے پر مجبور کرنے کے بعد تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے خلاف آٹھ سو رنز بنا چکے تھے، وہاں پاکستانی بلے بازوں کی لائن لگ گئی۔
چوتھے روز جو روٹ اور ہیری بروک نے انگلینڈ کی تاریخ کی سب سے بڑی 412 رنز کی شراکت بنائی اور پاکستان کے لیے تیسری اننگز کو چوتھی اننگز میں تبدیل کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ اب سارا دباؤ پاکستان پر ہو گا۔
پاکستان نے جب اپنی اننگز کا آغاز کیا تو یہ دباؤ عیاں تھا اور پہلی گیند پر عبداللہ شفیق کو ووکس نے بولڈ کیا اور پھر کپتان شان مسعود، بابر اعظم، صائم ایوب اور محمد رضوان بھی سکور میں زیادہ اضافہ کیے بغیر پویلین لوٹ گئے۔
یوں یہ اس سال چوتھا ٹیسٹ ہے جس میں پاکستان کو دوسری اننگز میں بیٹنگ میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آج اسی پچ پر انگلینڈ کے بلے بازوں نے 49 اوورز میں 331 رنز بنائے جس میں ہیری بروک کے 317 اور جو روٹ کے 262 رنز کی شاندار اننگز شامل تھیں۔ یوں انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف 267 رنز کی برتری حاصل کر لی۔
اس ٹیسٹ میچ کے آغاز سے ہی پچ کے بارے میں بحث سوشل میڈیا پر جاری ہے اور اس حوالے سے پی سی بی پر تنقید کی جا رہی ہے۔
سنہ 2022 میں جب رمیز راجہ انتظامیہ کی جانب سے پچز کو ’نیوٹرل‘ بنانے کی کوشش کی گئی تھی، اس کے بعد سے پاکستان کی ہوم سیریز میں ہر مرتبہ ہی پچز زیرِ بحث رہتی ہیں۔
میچ کے آغاز میں پچ پر کچھ گھاس چھوڑی گئی تھی جس کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید پہلے روز پچ فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہو گی۔
تاہم یہ ملتان میں ماضی کی پچز کی طرح انتہائی فلیٹ پچ ثابت ہوئی اور جہاں پاکستان کی جانب سے تین بیٹرز نے سنچریاں سکور کیں وہیں انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ اور ہیری بروک کی جارحانہ سنچریوں اور بین ڈکٹ اورزیک کرالی کی نصف سنچریوں کے باعث صورتحال یہ ہے کہ انگلینڈ کے بولرز پاکستان کے بیٹرز کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
مایوس کن ریکارڈ اور پاکستان کرکٹ کا ابہام
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو گذشتہ 10 ٹیسٹ میچوں میں سے وہ کسی ایک میں بھی ہوم گراؤنڈ پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
اس کی وجوہات میں سے ایک پاکستانی ٹیم کا ہوم گراؤنڈز پر ایسی پچز نہ بنا پانا ہے جو قومی ٹیم کے پاس موجود فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہوں۔ پاکستانی کپتان شان مسعود میچ سے پہلے کی گئی پریس کانفرنس میں اس بات سے اتفاق کر چکے ہیں کہ پاکستان کو تاحال یہ نہیں معلوم کہ بطور ٹیم کی ان کی قوت کیا ہے اور اس حوالے سے کس قسم کی پچز پاکستانی بلے بازوں اور بولرز کے لیے سازگار ہوں گی۔
پاکستان نے بنگلہ دیش کی ٹیسٹ سیریز سے پہلے گرین پچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ الٹا ان کے بلے بازوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا تھا جبکہ اس کے فاسٹ بولرز اس پچ سے وہ مدد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے جو بنگلہ دیشی بلے بازوں کو ملی تھی۔
یوں پاکستان کو بنگلہ دیش نے ہوم گراؤنڈ پر آ کر وائٹ واش کر دیا تھا جو ٹیم کے فاسٹ بولرز کی انجریز، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ پر زیادہ توجہ، ایک اچھے سپنر کی کمی اور کمزور ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچے سمیت کئی کمزوریوں کو عیاں کر گئی۔
’یہ تو ہائی وے ہے بھائی‘
سوشل میڈیا پر جہاں پچ پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں پاکستانی بولنگ او بیٹنگ بھی تنقید کی زد میں ہے اور صارفین پہلی اننگز میں بڑا سکور کرنے کے بعد برتری انگلینڈ کو دینے پر پاکستانی بولنگ سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔
جبکہ بابر اعظم کے ایک مرتبہ پھر فیل ہونے اور پاکستان کے اپنی دوسری اننگز میں مایوس کن بیٹنگ کرنے پر نالاں نظر آ رہے ہیں۔
انڈین کرکٹ کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے نے ایک پوسٹ میں کہا کہ ’کوئی ٹیم پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز بنا کر یہ تاثر کیسے دے سکتی ہے کہ مخالف ٹیم کی میچ پر گرفت زیادہ مضبوط ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستانی بیٹنگ جب اسی پچ پر کھیلتی ہے تو پچ اچانک بولرز کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔۔۔‘
اس بارے میں میچ کے پہلے ہی روز کیون پیٹرسن نے پچ کو ’بولرز کا قبرستان‘ قرار دیا تھا جبکہ آج انھوں نے کہا کہ یہ آج بھی بولرز کا قبرستان ہے اور یہ اگر آنے والے دنوں میں مددگار ثابت نہ ہوئی تو یہ ٹیسٹ کرکٹ کو تباہ کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔
’پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں ایسے کھیلتی ہے جیسے کسی دوسرے ملک میں کھیل رہی ہو۔‘