’جب ساجد خان نے وقت پلٹا دیا‘

کریز پر نووارد بین سٹوکس ابھی حالات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ساجد خان کی اس فُل لینتھ گیند پر یہ سجھانا دشوار ٹھہرا کہ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں۔ گیند بہت پھرتی سے ان کے بلے کے اندرونی کنارے کو چھوتے ہوئے ہوا میں بلند ہوئی اور شارٹ لیگ پر مامور عبداللہ شفیق نے لپک کر وہ کیچ تھاما جس کا پاکستانی فیلڈنگ کے ہاتھوں ڈراپ ہو جانا غیر متوقع نہ ہوتا۔
Sajid Khan
Getty Images

ملتان میں کہر آلود شام کے سائے طول پکڑ رہے تھے۔ پچ میں پڑے شگافوں سے اڑتی دھول کے ہالے انگلش بلے بازوں کی بصیرت دھندلا رہے تھے اور پاکستانی سپنرز اس میچ میں زندگی واپس لا رہے تھے۔

بین سٹوکس جب کریز پر پہنچے تو خلافِ معمول ان کی ٹیم مشکلات کا شکار تھی۔

جو پچ اپنے رویے اور برتاؤ کے سبب ڈیڑھ ہفتے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیاں پیدا کرتی آ رہی تھی، بالآخر اپنی پیدائش کی ساتویں شام کچھ حرکت پکڑ چکی تھی اور یہ حرکت ہی سٹوکس کو اتنی جلدی کریز پر لانے کا سبب بھی بنی تھی۔

چونکہ پچھلے کچھ عرصے سے وہ تمام چیزیں پاکستان کرکٹ کے پلے پڑتی آ رہی ہیں جو ڈیڑھ صدی پر پھیلی تاریخ میں نہیں ہوئیں، شاید اسی رو میں بہتے ہوئے پاکستان نے بھی پہلے میچ کی ہی استعمال شدہ پچ کو دوبارہ کام میں لانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن اس فیصلے کے بعد بھی میچ کے پہلے پانچ سیشنز تک اس پچ کا برتاؤ ایسا رہا کہ مبصرین کو پاکستان کی ٹیم سلیکشن پر انگلیاں اٹھانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ دوسرے روز چائے کے وقفے تک یہ خدشات تقویت پانے لگ چکے تھے کہ پاکستان ایک اور میچ اپنے وقار کی بقا میں رینگتے گزار دے گا۔

پاکستان کے برعکس انگلینڈ نے پچ استعمال شدہ ہونے کے باوجود دو سپیشلسٹ سیمرز کو اپنی الیون میں جگہ دی جبکہ سپنرز پہلے میچ کی طرح صرف شعیب بشیر اور جیک لیچ ہی رہے۔ دو سیمرز کے انتخاب سے سٹوکس کو جس ریورس سوئنگ کی امید تھی، بالآخر وہ بھی بر آئی۔

جوں ہی کنڈیشنز ریورس سوئنگ کے لیے سازگار ہوئیں تو برائیڈن کارس اور میتھیو پوٹس نے پرانی گیند سے پاکستانی مڈل آرڈر کو آزمانا شروع کیا اور اس کا ثمر بھی پایا کہ سعود شکیل اس مرحلے کی آزمائش نبھانے سے چوک گئے۔

مگر برسوں سے اس موقع کے منتظر کامران غلام ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور پاکستانی بیٹنگ کو وہ استحکام فراہم کیا جو بہت عرصے سے غائب چلا آ رہا تھا۔

جس کرکٹ کلچر میں سوشل میڈیا ٹرینڈز کرکٹ بورڈ کے فیصلوں پر بھاری پڑ جاتے ہوں، وہاں بابر اعظم جیسے سپر سٹار کا متبادل بن کر سامنے آنا آسان نہیں ہو سکتا مگر کامران غلام کی اننگز میں جو عزم اور جیسی مزاحمت دیکھنے کو ملی، وہ پاکستانی شائقین کی ترسی نگاہوں کے لیے تسلی کا سامان تھی۔

ٹیسٹ ڈیبیو پر سینچری بنانا ویسے ہی بڑی بات ہے مگر کامران غلام کی اننگز کی اضافی خوبصورتی یہ رہی کہ اپنی تاریخ کے بدترین ریکارڈز سے گزرتے ڈریسنگ روم سے نکل کر جب وہ پہلی بار انٹرنیشنل کرکٹ میں کریز پر وارد ہوئے، تب ان کی ٹیم شروع میں ہی بحران کا شکار تھی۔

Pak vs England
Getty Images

اگرچہ کامران کی اننگز نے بھی عدم استحکام سے ڈولتے ڈریسنگ روم کو قرار دے دیا تھا مگر یہ تشفی مکمل نہ ہو پاتی جب تک تین سپنرز کے ساتھ کھیلنے کا فیصلہ اپنے کوئی ثمرات لا پاتا۔ پاکستانی اننگز کے اختتام تک مجموعی تجزیے اسی بات پر اٹکے تھے کہ اگر وکٹ سے متوقع سپن حاصل نہ ہو پائی تو محض ایک سیمر آل راؤنڈر کے انتخاب کا فیصلہ بے جواز ٹھہرے گا۔

دوسرے سیشن میں جس طرح بین ڈکٹ اور زیک کرالی نے پاکستانی سپنرز کو آڑے ہاتھوں لیا، وہ بھی انہی خدشات کی تائید لایا کہ کنڈیشنز سے قطع نظر، ایک ٹیسٹ الیون دو فاسٹ بولرز کا وجود لازم ہے۔

لیکن پھر چائے کا وقفہ آیا اور وقفے کے بعد پاکستانی سپنرز کی رفتار میں بدلاؤ آیا۔

دھیمے باؤنس کی پچ پر بلے باز پہلے ہی پیس کو ترستے ہیں کہ یہاں تو سپنرز نے بھی اپنی رفتار میں کمی کر دی۔نعمان علی اور ساجد خان کی گیندیں ایسے زاویوں پر گھومنے لگیں جو تکنیک اور ٹمپرامنٹ کی بحث کہیں پیچھے چھوڑ کر سارا کھیل قسمت تک لے آتے ہیں۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب وقت سر کے بل پلٹ گیا۔

کریز پر نووارد بین سٹوکس ابھی حالات سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ساجد خان کی اس فُل لینتھ گیند پر یہ سجھانا دشوار ٹھہرا کہ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں۔ گیند بہت پھرتی سے ان کے بلے کے اندرونی کنارے کو چھوتے ہوئے ہوا میں بلند ہوئی اور شارٹ لیگ پر مامور عبداللہ شفیق نے لپک کر وہ کیچ تھاما جس کا پاکستانی فیلڈنگ کے ہاتھوں ڈراپ ہو جانا غیر متوقع نہ ہوتا۔

اپنے تمام تر معروضی احوال میں یہ لمحہ ماضی کے ان بے شمار یادگار لمحوں کے مانند تھا جہاں دبئی، ابوظہبی کی پچز پر سعید اجمل اور یاسر شاہ غیر ایشیائی بلے بازوں کو دھول چٹاتے تھے۔

اور اگرچہ ممکن ہے یہ لمحہ پاکستان کے وقار کی بحالی اور فتوحات کے کسی سلسلے کا غماز ہو، یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ بالآخر اس میچ میں بھی اماوس کی رات کا اکلوتا تارہ ہی ثابت ہو مگر ایک لمحے کو ہی سہی، پاکستانی شائقین کے لیے خوشی سے سینہ پھُلانے کا موقع میسر آیا۔

شاید اسی ایک لمحے سے پی سی بی کو بھی کوئی راہ سوجھ پائے جو اپنی کرکٹنگ شناخت کی کھوج میں سرگرداں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.