سمیتا پٹیل، بالی وڈ کی عہد ساز ایکٹرس جو ’آنکھوں سے اداکاری کرتی تھیں‘

image

فٹ بال کے کھیل میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’آپ کو ہمہ وقت درست وقت پر درست جگہ پر رہنا ہے۔ زیادہ بار مگر ایسا نہیں ہوگا کہ گیند آپ کی جانب آئے۔‘ دنیا کے مشہور ترین کھیل کے حوالے سے یہ کہاوت انڈیا کی منفرد اور بے مثل اداکارہ سمیتا پٹیل پر صادق آتی ہے جنہوں نے ٹیلی ویژن نیوز پریزینٹر کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کیا، متوازی سنیما کی بہترین اداکارہ قرار پائیں اور پھر کمرشل سنیما میں بھی منفرد پہچان بنائی کیوں کہ وہ ہمیشہ درست وقت پر درست جگہ پر رہیں اور اپنے مختصر فنی کیریئر میں اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

سمیٹا پاٹیل فلمی دنیا میں آنے سے قبل ممبئی میں سرکاری ٹیلی ویژن چینل ’دور درشن‘ پر مراٹھی زبان میں خبریں پڑھا کرتی تھیں۔ اُن کی شخصیت میں کچھ ایسا سحر تھا کہ سکرین پر نظر آتیں تو نظر ہٹانا مشکل ہو جاتا جس کے باعث دیوآنند اور منوج کمار سے لے کر بالی ووڈ میں متوازی سنیما کی روایت کے بانیوں میں سے ایک شیام بینیگل بھی ان کے مداح تھے۔

شیام جی نے تو آج سے تقریباً نصف صدی قبل سال 1975 میں ریلیز ہونے والی بچوں کی فلم ’چرن داس چور‘ کے ذریعے اداکارہ کو بریک بھی دی۔

مہاراشٹر کے شہر پونے میں پیدا ہونے والی سمیتا کے والدین سیاسی اور سماجی منظرنامے میں متحرک تھے اور سوشلسٹ نظریات کی جانب جھکائو رکھتے تھے۔ اُن کے والد شیواجی رائو تو ریاستی کابینہ کے رُکن بھی رہے۔

ان دنوں کا پونے شہر تھیٹر کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ وجے ٹندولکر اور جبار پٹیل کی طرح کے مصنف اور ہدایت کار سرگرم تھے۔اور فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ (ایف ٹی آئی آئی) بھی چوں کہ پونے میں ہی تھا تو یوں یہ شہر انڈیا میں پرفارمنگ آرٹس کا مرکز تھا، اداکارہ نے اس ماحول میں سال 1974 میں پہلی بار ایف ٹی آئی آئی کے ایک طالب علم ارون وسنت خوپکار کی فلم میں کام کیا جو انہوں نے ادارے سے ڈپلومہ حاصل کرنے کے لیے بنائی تھی۔ یہ وہ ارون خوپکار ہی ہیں جنہوں نے سال 2002 میں فلم ’ہاتھی کا انڈا‘ کی ہدایات دی تھیں جس میں عرفان پٹھان مرکزی کردار میں نظر آئے تھے۔

 بالی ووڈ کی یہ منفرد اداکارہ آج ہی کے روز سال 1955 میں پیدا ہوئیں۔ یونیورسٹی آف ممبئی سے ادب بڑھا اور پھر پونے اور ایف ٹی آئی آئی کی ہو کر رہ گئیں۔ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے فلم یا تھیٹر کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہو مگر ایک جنون تھا، کیمرے سے محبت تھی جو انہیں فلموں کی جانب لے آئی۔

شیام جی نے ’چرن داس چور‘ کے بعد جب سال 1976 میں فلم ’منتھن‘ بنائی تو سمیتا دیہاتی دلِت خاتون بنداس بندو کے کردار میں نظر آئیں۔ اس فلم میں یوں تو نصیرالدین شاہ، امریش پوری اور کلبھوشن کھربندا جیسے اداکار نظر آئے مگر بندو یعنی سمیتا پٹیل کی آنکھوں سے کی گئی اداکاری اَمر ہو گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں برس اس فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں پیش کیا گیا جسے فلم ہریٹیج فائونڈیشن آف انڈیا نے ریسٹور (ازسرِنو بحال) کیا تھا۔

یہ فلم اس اعتبار سے بھی رجحان ساز تھی کہ ریاستِ گجرات کے پانچ لاکھ کسانوں نے یہ فلم بنانے کے لیے دو دو روپے کا چندہ دیا تھا۔

‘منتھن‘ بالی ووڈ کے اتہاس کی ایک اہم فلم مانی جاتی ہے جسے بہترین فلم کے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

سمیتا پٹیل ایک فلم کے منظر میں اداکارہ شبانہ اعظمی کے ہمراہ۔ فائل فوٹو: سکرین گریبذکر نکلا ہے تو بتاتے چلیں کہ لیجینڈ اداکارہ ریکھا بھی سمیتا پٹیل کی آنکھوں کے ذریعے اداکاری کی مداح رہی ہیں۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق، سال 2017 میں جب ریکھا کو سمیتا پٹیل میموریل ایوارڈ سے نوازا گیا تو انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ناصرف یہ اعتراف کیا کہ سمیتا پٹیل ان سے بہتر اداکارہ تھیں بلکہ یہ بھی کہا کہ ’سمیتا پٹیل کیمرے کے سامنے بے خوف ہو کر اداکاری کیا کرتی تھیں، ان کی آنکھیں اتنی خوبصورت تھیں کہ وہ کوئی لفظ کہے بغیر بھی بہت کچھ کہہ جاتی تھیں۔‘

اور سال 1977 میں بالی ووڈ کی ایک اور یادگار فلم ’بھومیکا‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ایک بار پھر سمیتا پٹیل نے مرکزی کردار ادا کیا تھا جب کہ ان کے ساتھ امول پالیکر، اننت ناگ، نصیرالدین شاہ اور امریش پوری جیسے اداکار نظر آئے۔ یہ فلم مراتھی کی ایک اداکارہ کی زندگی پر مبنی تھی جس میں سمیتا پٹیل نے اُشا کا کردار اس خوبصورتی سے ادا کیا کہ فلم بین اَش اَش کر اُٹھے۔

اور بالی ووڈ میں اپنے ڈبیو کے صرف تین برس بعد ہی سمیتا پٹیل بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شبانہ اعظمی متوازی سنیما میں اپنی منفرد پہچان قائم کر چکی تھیں۔ نوآموز اداکارہ سمیتا پٹیل کو ملنے والی پذیرائی پر اُن کا ’سیخ پا‘ ہونا فطری تھا۔ دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے مگر دونوں ہی جانب سے ایسی خبروں کی تردید کی جاتی رہی۔

انڈیا کے مؤقر اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ نے کے مطابق، شبانہ اعظمی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ہم دونوں کے کیریئر کے عروج پر آنجہانی اداکارہ کے حوالے سے دیے گئے کچھ بیانات پر ’شرمندگی‘ محسوس کرتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اس معاملے میں کچھ حقیقت بھی تھی۔ میں اور سمیتا ایک دوسرے کو اپنا حریف خیال کرتی تھیں لیکن میڈیا نے اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، تھوڑا سا تڑکا، مرچ لگا کر اُس کو اور بڑھایا لیکن میں پوری ذمہ داری میڈیا پر عائد نہیں کرتی۔‘

دونوں اداکارائیں مہیش بھٹ کی فلم ’ارتھ‘ میں بڑے پردے پر ایک ساتھ نظر آئیں۔ شبانہ جی نے فلم میں کلبھوشن کھربندا کی بیوی کا کردار ادا کیا تھا تو سمیتا نے اُن کی محبوبہ کا۔

شبانہ اعظمی نے اس انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ ’ہم دونوں میں مخاصمت افسانوی نہیں تھی، اس میں حقیقت بھی تھی اور پھر اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا لیکن میں محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس (سمیتا) کے بارے میں کچھ غلط کہا جس پر میں شرمندہ ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ‘

اداکارہ نے آنے والے برسوں میں کئی یادگار فلموں میں کام کیا جن میں ’آکروش‘ اور ’چکرا‘ نمایاں ہیں۔

مہاراشٹر کے شہر پونے میں پیدا ہونے والی سمیتا کے والدین سیاسی اور سماجی منظرنامے میں متحرک تھے۔ فائل فوٹو: سکرین گریبسال 1981 میں ریلیز ہونے والی فلم ’چکرا‘ میں اداکارہ نے اپنی حقیقت پسندانہ اداکاری سے فلم بینوں کو ایک بار پھر چونکا دیا۔ اس فلم پر سمیتا پٹیل کو بہترین اداکارہ کا دوسرا نیشنل ایوارڈ اور بہترین اداکارہ کا اپنے کیریئر کا اولین اور واحد فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ سمیتا جی نے اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے ممبئی کی جھونپڑپٹی کا رخ کیا اور وہاں کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔

سمیتا پٹیل کی اُس زمانے کی یادگار فلموں میں ’بازار‘، ’آج کی آواز‘، ’منڈی‘ اور ’ارتھ‘ نمایاں ہیں۔ ’ارتھ‘ شبانہ اور سمیتا جی کی ایک ساتھ چند یادگار ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ دونوں اداکارائیں اور بھی بہت سی فلموں میں ایک ساتھ نظر آئیں جن میں ’نشانت‘ نمایاں ہے۔

اس زمانے میں سمیتا جی نے مظفر علی کی فلم ’گمن‘ کے علاوہ بے مثل بنگالی ہدایت کار ستیہ جیت رے کی ٹیلی فلم ’سدگتی’ میں بھی کام کیا جو اُردو اور ہندی زبان کے عظیم افسانہ نگار منشی پریم چند کے ایک افسانے پر مبنی تھی۔

اداکارہ اچھے کرداروں کی جستجو میں تھیں تو انہوں نے اس زمانے میں علاقائی زبانوں جیسا کہ بنگالی، مراٹھی اور گجراتی زبانوں کی فلموں میں بھی کام کیا اور مرینل سین اور کیتن مہتا جیسے مہان ہدایت کاروں کی فلموں میں نظر آئیں۔

انہوں نے اسی زمانے میں کمرشل سنیما میں قدم رکھا اور بلاک بسٹر فلم ’نمک حلال‘ میں امیتابھ بچن کے مقابل نظر آئیں۔ اس فلم کا اُن پر پکچرائز ہوا گیت،

’آج رپٹ جائیں تو

تو ہمیں نہ اٹھئیو

آج پھسل جائیں تو

ہمیں نہ اٹھئیو

ہمیں جو اٹھئیو تو

خود بھی رپٹ جئیو‘

میں سنجیدہ، حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنے والی سمیتا جی ایک مختلف چھوَی میں نظر آئیں اور اپنی چلبلی اداکاری سے فلم بینوں کو مبہوت کر دیا۔

رمیش سپی کی فلم ’شکتی‘ میں امیتابھ بچن اور سمیتا پٹیل پھر ایک ساتھ بڑے پردے پر نظر آئے۔ اس فلم کے گیت،

’ہم نے صنم کو خط لکھا

خط میں لکھا

اے دل رُبا، دل کی گلی

شہرِ وفا

ہم نے صنم کو خط لکھا‘

میں سمیتا جی نے اپنی آنکھوں کے ذریعے یوں اداکاری کی کہ یہ گیت ایورگرین قرار پایا اور یہ ثابت کیا کہ وہ صرف سنجیدہ نوعیت کے سنیما کے لیے ہی موزوں نہیں بلکہ مسالہ فلموں میں بھی یکساں طور پر اپنی صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کر سکتی ہیں۔

اداکارہ نے متوازی سنیما سے کمرشل سنیما کی جانب اپنے سفر کے حوالے سے  جریدے ’دی سنڈے انڈین‘ سے بات کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں تقریباً پانچ برس تک چھوٹے بجٹ کی فلموں تک محدود رہی۔ میں نے کمرشل فلموں میں کام کرنے کی ہر پیشکش ٹھکرا دی۔ سال 1977-78 کے دوران چھوٹے بجٹ کی فلموں کی تحریک شروع ہوئی تو ان کو (بڑے) نام چاہیے تھے۔ مجھے اچانک فلموں کی کاسٹ سے نکال دیا گیا۔ یہ معمولی سی بات تھی مگر مجھ پر اس کا گہرا اثر ہوا۔ میں نے خود سے کہا کہ میں یہاں ہوں اور میں نے پیسے کی پروا نہیں کی۔ میں نے بڑی، کمرشل پیشکشوں کو رَد کیا کیوں کہ میں چھوٹے بجٹ کی فلموں میں کام کرنے کے لیے یکسو تھی لیکن مجھے بدلے میں کیا ملا؟ ان کو اگر نام ہی چاہییں تو میں اپنے لیے اپنا نام خود پیدا کروں گا۔ چناں چہ اس عرصے میں مجھے جو پیشکش ہوئی، وہ میں نے قبول کی۔‘

سال 1982 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ارتھ‘ میں اداکارہ نے ’دوسری عورت‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ فوٹو: سکرین گریباس دوران ہی سال 1982 میں سمیتا پٹیل اور راج ببر کی ایک ساتھ پہلی فلم ’بھیگی پلکیں‘ ریلیز ہوئی جس کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ کئی فلموں میں نظر آئے جن میں ’آج کی آواز‘، ’وارث‘، ’مرچ مسالہ‘، ’انسانیت کے دشمن‘، ’عوام‘ اور ’جواب‘ نمایاں ہیں۔ ان دونوں اداکاروں کی آن سکرین کیمسٹری کو ناصرف فلم بینوں نے پسند کیا بلکہ وہ دونوں پہلی ہی فلم میں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ راج ببر پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کی بیوی نادرہ ببر بائیں بازو کے نظریہ ساز سید سجاد ظہیر کی صاحب زادی تھیں، دونوں کی ملاقات دہلی کے نیشنل سکول آف ڈرامہ میں ہوئی تھی جہاں نادرہ راج ببر کی سینئر تھیں اور ڈرامے لکھنے کے علاوہ ان کی ہدایت کاری بھی کیا کرتی تھیں۔

نادرہ اور راج کی پریم کہانی کا آغاز ان دنوں ہی ہوا اور ان دونوں نے سال 1975 میں شادی کر لی جب راج ببر ابھی بالی ووڈ میں نام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی صاحب زادی جوہی ببر کی پیدائش بھی دہلی میں ہی ہوئی۔ اس لیے جب ’بھیگی پلکیں‘ کی شوٹنگ کے دوران سمیتا اور راج کے افیئر کی خبریں آنے لگیں تو ان پر نادرہ نے فوری طور پر اعتبار نہیں کیا مگر جب اداکار نے خود اپنی بیوی کے روبرو یہ اعتراف کیا کہ وہ سمیتا سے محبت کرتے ہیں تو گویا نادرہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔

بھارتی چینل نیوز 18 کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق،’نادرہ (ببر) نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے جب راج  سے ان کی پریم کہانی کے بارے میں سنا تو ان کو دھچکا لگا۔ وہ ٹوٹ گئیں مگر اپنے بچوں کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔‘

سمیتا اور راج کی شادی نے بہت سے تنازعات کو جنم دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ سمیتا ہمیشہ سے خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہی تھیں مگر جب وہ ایک شادی شدہ مرد سے پریم کے بندھن میں بندھیں تو ان کی والدہ بھی ان پر تنقید کرنے والوں میں شامل تھیں۔

معروف مصنفہ مائتھلی رائو اداکارہ پر اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’اداکارہ کی والدہ بھی اس رشتے کے خلاف تھیں۔ انہوں نے سمیتا سے کہا کہ وہ خاندان کو توڑ رہی ہیں جب کہ وہ خود فیمینسٹ ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ بعدازاں جب سمیتا اور راج ببر کے رشتے میں تنائو پیدا ہوا اور اداکارہ کی صحت خراب ہوئی تو ان کی والدہ بہت زیادہ دُکھی ہو گئیں کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اداکارہ نے پہلے ہی کیوں ان کی بات نہیں مانی۔‘

یہ بھی ایک تلخ اتفاق ہے کہ سال 1982 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ارتھ‘ میں اداکارہ نے ’دوسری عورت‘ کا کردار ادا کیا تھا اور اسی برس وہ راج ببر اور نادرہ کی زندگی میں ’دوسری عورت‘ کے طور پر داخل ہوئیں۔

دونوں پہلی ہی نظر میں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار نہیں ہوئے۔ راج ببر نے اس بارے میں انڈین ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’ریڈف‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری پہلی ملاقات ایک طرح سے لڑائی پر ختم ہوئی، یہ ایک خوشگوار لڑائی تھی جس نے بعدازاں ہمارے تعلق کی بنیاد رکھی۔‘

اداکارہ نے مگر اپنے فنی سفر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے اس زمانے میں سپرسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا جن میں ’آخر کیوں‘، ’امرت‘ اور ’نذرانہ‘ نمایاں ہیں۔

’آخر کیوں‘ کا گیت،

’دشمن نہ کرے

دوست نے وہ کام کیا ہے

عمر بھر کا غم

ہمیں انعام دیا ہے‘

آج بھی فلم بینوں کی سماعتوں میں رَس گھولتا ہے۔

اداکارہ کی یادگار فلموں میں سے ایک کیتن مہتا کی ’مرچ مسالہ‘ بھی ہے جن کے ساتھ وہ اس سے قبل ایک گجراتی فلم میں کام کر چکی تھیں۔ اداکارہ مگر بالی ووڈ کی اس اتہاسک فلم کی ریلیز سے قبل ہی 13 دسمبر 1986 کو دوران زچگی پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث اپنے بیٹے پراتیک ببر کی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی چل بسیں، اُس وقت ان کی عمر محض 31 برس تھی۔ انہوں نے اپنے 12 سال کے مختصر فنی سفر کے دوران ہندی کے علاوہ مراٹھی، بنگالی اور ملیالم زبان کی تقریباً 80 فلموں میں کام کیا۔

اسّی کی دہائی میں اداکارہ نے اگرچہ کمرشل سنیما میں زیادہ کام کیا مگر متوازی سنیما سے ان کا ناتا جڑا رہا اور وہ اپنی اداکاری سے سب کو حیران کرتی رہیں۔ اس کی ایک مثال فلم ’مرچ مسالہ‘ بھی ہے جس کے بارے میں جریدے ’فوربز‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’(سمیتا) پٹیل ایک عظیم اداکارہ تھیں۔ ان کی بہت سی عظیم پرفارمنسز میں چند چیزوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ’ارتھ‘ میں خواہش اور تکلیف دہ صورتِ حال کا بیان ہے۔ ’جیت رے جیت‘ (مراٹھی فلم) زندہ جذبوں اور خواہش کے متعلق ہے۔ ’مرچ مسالہ‘ میں ان کے پورے فنی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ابتدائی فریمز سے فلم کے آخری مناظر تک ان کے کردار میں بدلائو بے مثل ہے۔‘

’فلم کمپینیئن‘ نے اداکارہ کی سات بہترین فلموں میں ایک ملیالم فلم ’چدمبرم‘ کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ عظیم انڈین ہدایت کار جی اراوندن کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔ جی اراوندن نے یہ فلم چوں کہ خود پروڈیوس کی تھی تو بجٹ بہت محدود تھا لیکن سمیتا پٹیل ہدایت کار کی مداح تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ وہ ان کی فلم میں کام کریں جس کا اظہار انہوں نے ہدایت کار سے بھی کیا تھا۔

اس بارے میں جی اراوندن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’اس فلم کی ریلیز سے بہت عرصہ قبل سمیتا نے مجھ سے میری کسی بھی فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ (بھرت) گوپی بھی کام کرنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے جب یہ سنا کہ میں خود فلم پروڈیوس کر رہا ہوں تو بہت سے فنکار میری مدد کے لیے آ گئے۔ کسی نے بھی معاشی فائدے کی امید کے ساتھ فلم میں کام نہیں کیا۔ انہوں نے یہ میرے لیے کیا۔‘

اداکارہ کی بے وقت موت کے بعد بھی ان کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں ’ہم فرشتے نہیں‘، ’انسانیت کے دشمن‘، ’ٹھکانا‘، ’اونچ نیچ بیچ‘ اور ’وارث‘ شامل ہیں۔ ان کی وفات کے دو سال بعد ریلیز ہونے والی فلم ’گلیوں کا بادشاہ‘ کی شوٹنگ کے دوران اداکارہ امید سے تھیں اور یہ ان کی آخری فلم تھی۔

سمیتا پٹیل کا کیریئر اگرچہ چند برسوں پر ہی محیط تھا مگر وہ اپنے اس مختصر سفر میں بھی سب کو حیران کرتی رہیں۔ وہ متوازی سنیما کی اہم ترین اداکارہ قرار پائیں اور انہوں نے اخلاقی طور پر پیچیدہ نسوانی کردار ادا کرکے روایت سے ہی انحراف نہیں کیا بلکہ اداکاری کی ایک مختلف جہت متعارف کروائی جیسا کہ ’منتھن‘ میں وہ ایک دیہاتی دلت خاتون کے کردار میں نظر آتی ہیں تو ’بھومیکا‘ میں اپنی پہچان پانے کی جستجو کرتی اداکارہ کا کردار ادا کرتے ہوئے، ’آکروش‘ میں ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کے روپ میں تو ’چکرا‘ میں جھونپڑ پٹی میں رہنے والی ایک عورت کے کردار میں، ’ارتھ‘ میں ایک شادی شدہ مرد کی محبوبہ کے طور پر کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں اور ’منڈی‘ میں طوائف اور کلاسیکی گلوکارہ کے روپ میں، ’آخر کیوں‘ میں ایک طلاق یافتہ عورت کے کردار میں اور ’مرچ مسالہ‘ میں ایک ایسی مضبوط عورت کے روپ میں جو استحصال کرنے والوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔

سمیتا پٹیل کے ادھورے فنی سفر کو اب ان کے اکلوتے بیٹے پراتیک ببر پورا کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے بالی وڈ میں اپنی منفرد پہچان بنا چکے ہیں۔ معروف شاعر کیفی اعظمیؔ نے درست ہی تو کہا تھا، ’سمیتا پٹیل مری نہیں ہیں۔ ان کا بیٹا اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔‘

اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی فلمیں بھی ان کی موجودگی کا ہمیشہ احساس دلاتی رہیں گی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.