"بابا بہت اچھے تھے، مجھے جو کچھ چاہیے ہوتا تھا، وہ ہمیشہ لے کر آتے تھے۔" مقتول فرحان کی بیٹی نے یہ بات آنسوؤں کے ساتھ کہی، اس کی معصومیت میں چھپا درد سب کچھ کہہ گیا۔ فرحان، جو اپنی بیمار بیٹی کے علاج کے لیے اپنی زندگی کی امیدیں جوڑ رہا تھا، اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ کراچی کے سائٹ سپر ہائی وے انڈسٹریل ایریا میں ڈاکوؤں کی بے رحمی کا شکار بن گیا، جنہوں نے اسے بے دردی سے گولیاں مار کر زندگی سے محروم کر دیا۔
فرحان کے سسر کا کہنا ہے کہ وہ میڈیسن کمپنی میں ملازم تھا، اور مالی مشکلات کی بنا پر اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر آ رہا تھا تاکہ بیٹی کا علاج کرا سکے۔ لیکن زندگی کے بدقسمت موڑ نے اس کی تمام کوششوں کو خاک میں ملا دیا۔ واقعے کے بعد پولیس سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا، اور اسپتال میں بھی کہا گیا کہ ایف آئی آر درج کرانے تھانے آنا ہوگا۔
کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم کی فہرست میں یہ واقعہ ایک اور بے گناہ کی موت کا اضافہ ہے، جہاں اس سال ڈکیتی مزاحمت پر جان گنوانے والوں کی تعداد 100 ہو چکی ہے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق، معاملہ بظاہر ذاتی دشمنی کا لگتا ہے، اور فرحان کسی سے فون پر رابطے میں تھا جب اس پر فائرنگ کی گئی۔
یہ واقعہ کراچی کی بے رحم حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کے لیے امید کا دیپ جلانے نکلا، مگر خود اندھیروں کی نذر ہوگیا۔