حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے اس بل پر کھل کر تنقید بھی کی۔ اپوزیشن اس قانون پر تنقید کر رہی ہے اور حکمران جماعت اسے ترقی کے ضمانن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔بی بی سی نے اس معاملے کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

انڈیا کی پارلیمان نے سال 2047 تک ایٹمی توانائی سے 100 گیگا واٹ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے بڑے ہدف کے ساتھ ’شانتی‘ بل منظور کر لیا ہے۔
اس بل کو ’سیسٹین ایبل ہارنسنگ اینڈ ایڈوانسمنٹ آف نیوکلیئر انرجی فار ٹرانسفارمنگ انڈیا‘ (شانتی) 2025 کا نام دیا گیا ہے۔
حزب اختلاف نے اس بل کی مخالفت کی اور ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا۔ حزب اختلاف کا یہ مطالبہ تھا کہ اس بل کو پارلیمان کی مستقل کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے اس بل پر کھل کر تنقید بھی کی۔
اپوزیشن اس قانون پر تنقید کر رہی ہے اور حکمران جماعت اسے ترقی کے ضمانن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔بی بی سی نے اس معاملے کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
سب سے پہلے یہ سوال کہ ایٹمی توانائی یا نیوکلئیر انرجی کیا ہے؟
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق جوہری توانائی، توانائی کی ایک شکل ہے جو ایٹم کے نیوکلیئس سے خارج ہوتی ہے (ایک ایٹم کا مرکز جو پروٹون اور نیوٹران سے بنا ہوتا ہے)۔
یہ توانائی دو طریقوں سے حاصل کی جا سکتی ہے: فِشن یا تقسیم (جب ایک ایٹم کا مرکز کئی حصوں میں بٹ جاتا ہے) یا فیوژن یعنی امتزاج (جب ایٹم کے مراکز آپس میں جڑتے ہیں)۔
آج دنیا بھر میں بجلی پیدا کرنے کے لیے جو ایٹمی توانائی استعمال کی جاتی ہے وہ نیوکلئیر فِشن کے ذریعے حاصل ہوتی ہے جبکہ فیوژن سے بجلی پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی تحقیق کے مرحلے میں ہے۔ اسی لیے یہاں ہم فشن سے پیدا ہونے والی ایٹمی توانائی پر بات کریں گے۔
ایٹمی توانائی کیا ہے؟

جوہری فیشن ایک ایسا عمل ہے جس میں ایٹم کا مرکز دو یا دو سے زیادہ چھوٹے مراکز میں تقسیم ہو جاتا ہے اور اس دوران توانائی خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر، جب یورینیم-235 کے مرکز پر نیوٹرون ٹکراتا ہے تو وہ دو چھوٹے مراکز میں ٹوٹ جاتا ہے، جیسے بیریم کا مرکز اور کرپٹون کا مرکز، اور ساتھ ہی یہ دو یا تین نیوٹرون پیدا کرتا ہے۔ یہ اضافی نیوٹرون قریبی یورینیم-235 ایٹموں سے ٹکراتے ہیں، جس سے وہ بھی تقسیم ہو کر مزید نیوٹرون پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح چند ہی سیکنڈ میں ایک زنجیری عمل شروع ہو جاتا ہے۔
جب بھی یہ عمل ہوتا ہے تو حرارت اور شعاعوں کی شکل میں توانائی خارج ہوتی ہے۔ ایٹمی بجلی گھروں میں اس حرارت کو بجلی میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئلہ، گیس اور تیل جیسے ایندھن سے نکلنے والی حرارت کو بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایٹمی بجلی گھروں کے اندر، ری ایکٹر اور اس کے آلات اس زنجیری عمل کو قابو میں رکھتے ہیں، جو عام طور پر یورینیم-235 سے چلایا جاتا ہے۔ یہ حرارت ری ایکٹر کے کولنگ ایجنٹ، جو عموماً پانی ہوتا ہے، کو گرم کر کے بھاپ پیدا کرتی ہے۔ پھر اس بھاپ سے ٹربائن چلتی ہیں، جس سے بجلی کا جنریٹر فعال ہوتا ہے اور کم کاربن اخراج والی بجلی پیدا ہوتی ہے۔
انڈیا کو ایٹمی توانائی کی ضرورت کیوں؟

ایٹمی طاقت رکھنے کے باوجود انڈیا پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے استعمال میں فی الحال کافی پیچھے ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق انڈیا اپنی توانائی پیداوار کا صرف 3.1 فیصد ہی جوہری توانائی سے حاصل کرتا ہے۔
حکومت کی جانب سے بُدھ کو لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ ایٹمی توانائی ایک صاف اور بنیادی ذریعہ ہے جو 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن دستیاب رہتی ہے۔
جوہری توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی،پانی اور ہوا سے حاصل توانائی کے برابر ہے۔ اسی لیے ایٹمی توانائی 2070 تک انڈیا کی ’کلین انرجی‘ کی جانب منتقلی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
سرکاری ادارے پی آئی بی سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ 2047 تک 100 گیگاواٹ ایٹمی توانائی کی صلاحیت حاصل کرنے کے ہدف کے ساتھ ایک پرعزم ایٹمی توانائی مشن (این ای ایم) کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس کا مقصد ملکی اور غیر ملکی تعاون کے ذریعے موجودہ اور نئی ایٹمی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے 2047 تک تقریباً 100 گیگاواٹ بجلی حاصل کرنا ہے۔
اس مقصد کے لیے ایک روڈ میپ بھی تیار کیا گیا ہے، جس میں این پی سی آئی ایل غیر ملکی تعاون سے 2047 تک 54 گیگا واٹ کا حصہ ڈالے گا جس میں مقامی پریشرائزڈ ہیوی واٹر ری ایکٹر اور لائٹ واٹر ری ایکٹر پر مبنی نئے نیوکلیئر پاور پلانٹس قائم کیے جائیں گے۔
توانائی پالیسی اور جیو پولیٹکس کے ماہر نریندر تنیجا جو ماضی میں حکمران جماعت بی جے پی سے بھی وابستہ رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ’ہمارے یہاں جتنی بھی توانائی آتی ہے اس کا زیادہ تر حصہ فوسل فیول ہے اور اس کے اثرات آج دہلی میں صاف نظر آ رہے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہماری درآمدی توانائی پر انحصار بہت زیادہ ہے۔ تیل اور گیس ہمیں درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ قابلِ تجدید توانائی میں بھی جو سولر پینل اور سیل استعمال ہوتے ہیں وہ بھی درآمد کرنے پڑتے ہیں۔‘
نریندر تنیجا کی رائے میں ’اگر ہم چاہتے ہیں کہ آلودگی نہ ہو، توانائی کی کمی ختم ہو اور گھریلو و کاروباری توانائی کی ضرورت پوری ہو یعنی ملک توانائی کے لحاظ سے آزاد اور خود کفیل ہو پائے تو ہمیں متبادل توانائی کی طرف جانا ہوگا۔ اس میں ہمارے پاس دو راستے ہیں: پہلا شمسی توانائی اور دوسرا ایٹمی توانائی یا نیوکلئیر پاور۔‘
انڈیا کی جوہری توانائی پیدا کرنی کی صلاحیت کتنی ہے؟
حکومت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ 2024-25 میں بھارت کی کل بجلی پیداوار میں ایٹمی توانائی کا حصہ تقریباً 3.1 فیصد تھا۔ ایٹمی توانائی کی موجودہ صلاحیت 8780 میگاواٹ ہے، جبکہ 2024-25 کے دوران 56,681 ملین یونٹ ایٹمی بجلی پیدا کی گئی۔
توانائی امور کے ماہر نریندر تنیجا کہتے ہیں کہ انڈیا میں فی کس توانائی کا استعمال بہت کم ہے، جس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو مناسب بجلی دستیاب نہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر ملک کو آٹھ یا نو فیصد جی ڈی پی کی شرحِ نمو حاصل کرنی ہے تو یہ توانائی کے بغیر ممکن نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے لیے ضروری ہے کہ انڈیا توانائی کے معاملے میں خود کفیل ہو۔ ورنہ جیسے روس سے سستا تیل خریدنے پر امریکہ کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، ویسی صورتحال دوبارہ پیش آ سکتی ہے۔‘
نریندر تنیجا کے مطابق انڈیا میں ایٹمی توانائی کا دائرہ اس لیے نہیں بڑھ پایا کیونکہ اب تک اس شعبے میں جو کچھ ہوا ہے وہ حکومت نے کیا ہے۔ یہ محکمہ براہِ راست وزیراعظم کے کنٹرول میں رہا ہے، اور کئی وجوہات کی بنا پر یہ جتنا وسیع ہو سکتا تھا اتنا نہیں ہوا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے نجی سرمایہ کاری نہیں آئی ہے۔
انڈیا کے نجی شعبے کی بڑی کمپنیاں یا فرانس اور امریکہ کی غیر ملکی کمپنیاں جوہری توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کر پاتی ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور ابوظہبی کے خودمختار فنڈز، جو توانائی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی نہیں آ پاتے۔
نریندر تنیجا کا کہنا ہے کہ اسی لیے یہ بل لایا گیا تاکہ نجی شعبہ بھی ایٹمی توانائی کے شعبے میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ کئی ممالک میں نجی کمپنیاں جوہری توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے پلانٹ چلاتی ہیں۔ امریکہ اور فرانس کی کچھ کمپنیاں اس شعبے میں کافی آگے ہیں۔ روس بھی اس میدان میں نمایاں ہے اور اسی لیے جب صدر ولادیمیر پوتن انڈیا آئے تھے تو ایٹمی توانائی پر بھی معاہدہ ہوا تھا۔
بل کی مخالفت کرنے والے کیا کہہ رہے ہیں؟
پارلیمنٹ میں پہلے اپوزیشن سپیکر کے طور پر خطاب کرتے ہوئے منیش تیواری نے جوہری پاور پراجیکٹس میں پرائیویٹ شراکت داری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایکپرائیویٹ گروپ کے اس شعبے میں داخل ہونے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا۔
منیش تیواری نے پوچھا کیا یہ محض اتفاق ہے؟
مرکزی وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے منیش تیواری کے بیان میں مداخلت کرتے ہوئے اسے ’بے بنیاد اور سیاسی‘قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ 2010 میں جوہری حادثات کے ذمہ دار سپلائرز کو ٹھہرانے اور آپریٹرز کو قانونی کارروائی کا حق دینے پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
انھوں نے وضاحت کی کہ اس شعبے میں غیر ملکی سپلائرز کے داخلے کے ساتھ یہ بندوبست اہم ہو گیا تھا، اور بی جے پی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔
منیش تیواری نے کہا کہ یہ حصہ نئے بل میں شامل نہیں ہے اور اسے بل میں ہونا چاہیے۔
منیش تیواری نے سوال اٹھایا کہ ’اگر کوئی جوہری حادثہ ہوتا ہے، چونکہ ہم ابغیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کر رہے ہیں تو کیا انھیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے؟‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کی خود مختاری پر شدید تحفظات ہیں اور ملک کے جوہری شعبے میں غیر ملکی کمپنیوں کے داخلے کی صورت اس کا آزاد اور غیر جانبدار ہونا سب سے اہم ہے۔
بل پر بحث کے دوران رکن اسمبلی ششی تھرور نے اسے ’پرائیویٹائزڈ جوہری توسیع کی طرف خطرناک چھلانگ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں مناسب حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے۔
انھوں نے زور دیا کہ ’ہم سرمائے کے حصول کو عوامی تحفظ، ماحولیاتی تحفظ اور متاثرین کے لیے انصاف کی ضروریات کو نظرانداز کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
ششی تھرور نے کہا کہ اس قانون میں بھی کسی حادثے کی صورت میں جرمانہ تقریباً 460 ملین ڈالر تک محدود ہے اور مہنگائی کے باوجود یہ حد کئی سالوں میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
ششی تھرور نے کہا کہ ’اگر دیکھا جائے تو فوکوشیما جوہری پلانٹ پر حادثے کے بعد صفائی کے اخراجات پہلے ہی 182 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ چرنوبل کا مجموعی اقتصادی اثر 700 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ پھر بھی ہم نے اپنے قانون میں ہرجانے کی حد نصف ارب ڈالر سے کم رکھنے کی تجویز پیش کی ہے اور یہناکافی ہے۔‘
ششی تھرور نے کہا کہ سب سے سنگین شق یہ ہے کہ آپریٹرکی لاپرواہی کو قابلِ سزا جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن مرکز یا اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کا صرف ایک مجاز شخص ہی شکایت درج کرا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر ایک جوہری تنصیب کا آپریٹر مجرمانہ طور پر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے، تو متاثرہ کمیونٹی شکایت درج نہیں کر سکتی۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں شکایت درج نہیں کر سکتیں، اور یہاں تک کہ ریاستی حکومتیں بھی براہ راست مجرمانہ کارروائی شروع نہیں کر سکتیں۔‘
سیکورٹی کے بارے میں خدشات؟

ایٹمی بجلی گھروں کے بارے میںخدشات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ 1986 کے چرنوبل اور 2011 کے فوکوشیما حادثے آج بھی لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔
توانائی امور کے ماہر نریندر تنیجا کہتے ہیں کہ جہاں تک مخالفت کا تعلق ہے تو دنیا بھر میں جوہری توانائی کے خلاف کئی حلقے موجود ہیں اور وہمخالفت کرتے ہیں۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ ’جب آپ کار کی مرمت کرواتے ہیں یا ریلوے انجن کی مرمت کرتے ہیں تو آپ کی نفسیات اور مرمت کا طریقہ مختلف ہوتا ہےلیکن جب آپ کسی ہوائی جہاز کی مرمت کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ اس میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ وہی شخص جو کار کی مرمت کرتا ہے اگر جہاز کی مرمت کرے تو وہ زیادہ ذمہ داری سے کرے گا۔‘
نریندر تنیجا مزید کہتے ہیں کہ ’اسی طرح جب ایٹمی توانائی اور اس کے ڈھانچوں کی مرمت کی بات آتی ہے تو یہ ایک الگ کلچر کی بات ہوتی ہے اور اس میں انڈیا کسی سے کم نہیں ہے۔ انڈیا میں کئی پرانے ایٹمی پلانٹ ہیں لیکن آج تک کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ اس لیے فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘
وہ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ انڈیا ان چند ممالک میں شامل ہے جو اپنی مقامی ٹیکنالوجی سے ایٹمی آبدوز بنا رہا ہے، اور اس آبدوز میں لگنے والا ری ایکٹر بھی مقامی ٹیکنالوجی سے تیار کیا گیا ہے۔
تاہم اپوزیشن نے لوک سبھا میں بحث کے دوران ریڈیو ایکٹیو فضلے کے خطرے پر سوال اٹھائے۔
اس کے جواب میں نریندر تنیجا کہتے ہیں کہ ’اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والی تنظیم، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) دنیا بھر کے تمام ایٹمی بجلی گھروں کی نگرانی کرتی ہے۔ چاہے وہ انڈیا میں ہوں، امریکہ میں یا دنیا کے کسی اور ملک میں، سب کو آئی اے ای اے کے اصولوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ ایٹمی فضلے یا ریڈیو ایکٹیو ویسٹ کے بارے میں بھی اس کے واضحکردہ اصول ہیں جن پر عمل کرنا لازمی ہے۔‘
دنیا کی جوہری توانائی کی پیداوار
دنیا کی کل ایٹمی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت کا 71 فیصد حصہ صرف پانچ ممالک کے پاس ہے۔ یہ مجموعی صلاحیت کا تقریباً دو تہائی ہے۔
انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی کے جون 2025 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ صلاحیت امریکہ کے پاس ہے، اس کے بعد فرانس، چین، روس اور جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔
عالمی سطح پر 31 ممالک میں 416 ایٹمی ری ایکٹر کام کر رہے ہیں، جن کی مجموعی پیدواری صلاحیت 376 گیگاواٹ ہے۔
امریکہ میں 94 ایٹمی ری ایکٹر فعال ہیں اور سب سے زیادہ جوہری بجلی امریکہ میں پیدا ہوتی ہے۔سنہ 2024 میں امریکہ کی بجلی پیداوار میں ایٹمی توانائی کا حصہ 19 فیصد تھا۔
فرانس کے پاس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور یورپ کا سب سے بڑا ایٹمی ری ایکٹرز ہیں۔جس میں 57 ری ایکٹر شامل ہیں جن کی مجموعی صلاحیت 63 گیگاواٹ ہے۔
چین میں ایٹمی توانائی کی ترقی کی رفتار دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
1991 سے اب تک 57 ری ایکٹر فعال ہو چکے ہیں۔ آئی اے ای اے کے مطابق 30 گیگاواٹ کی مشترکہ صلاحیت والے 28 ری ایکٹر اس وقت زیرِ تعمیر ہیں۔ ان کے مکمل ہونے پر چین کی مجموعی ایٹمی صلاحیت فرانس سے زیادہ ہو جائے گی۔
روس میں 36 ایٹمی ری ایکٹر کام کر رہے ہیں جن کی مجموعی صلاحیت 27 گیگاواٹ ہے۔ مزید چار گیگاواٹ صلاحیت والے چار یونٹ زیرِ تعمیر ہیں۔
جنوبی کوریا نے 1970 کی دہائی میں اپنا ایٹمی توانائی پروگرام شروع کیا تھا اور اب وہاں 26 ری ایکٹر فعال ہیں، جبکہ دو مزید زیرِ تعمیر ہیں۔