بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے رکن ملک منگولیا پر روسی صدر ولادیمر پیوٹن کو اس کے دورے کے دوران حراست میں نہ لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے معاملے کو مزید کارروائی کے لیے بھیج دیا۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق روسی صدر نے ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے ان کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے باوجود ستمبر کے اوائل میں منگولیا کے درالحکومت اولان باتور کا دورہ کیا۔
ولادیمیر پیوٹن پر 2022 میں روسی فوج کی یوکرین میں دراندازی کے دوران بچوں کی غیر قانونی ملک بدری کا الزام عائد ہے۔
آئی سی سی نے ایک بیان میں کہا کہ’ منگولیا نے ولادیمیر پیوٹن کو اپنی سرزمین پر گرفتار اور عدالت میں پیش نہ کرنے پر عدالت کے ساتھ عدم تعاون کیا ہے۔’
عدالت کے روم سٹیٹیوٹ معاہدے کی توثیق کے تحت تمام رکن ممالک پر مطلوب مجرموں کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
آئی سی سی کے ججوں کےمطابق ریاستی اور عدالتی دائرہ اختیار کو قبول کرنے والے تمام فریقین پر فرض ہے کہ وہ آئی سی سی کو مطلوب افراد کو سرکاری عہدے یا قومیت سے قطع نظر ہو کر گرفتار کریں۔
عالمی فوجداری عدالت کے ججوں نے آئی سی سی کی نگران باڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منگولیا کی جانب سے عدالت کے ساتھ عدم تعاون کی وجہ سے چیمبر نے اس معاملے کو ریاستی فریقین کی اسمبلی میں بھیجنا ضروری سمجھا ہے۔
آئی سی سی نے مارچ 2023 میں ولادیمیر پیوٹن کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ اس بات کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ روسی صدر نے یوکرینی بچوں کی روس غیر قانونی منتقلی کرکے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔’
دوسری طرف کیف کا کہنا ہے کہ 2022 میں روسی افواج کے حملے میں ملک کے بڑے حصے پر قبضے کے بعد ہزاروں یوکرائنی بچوں کو یتیم خانوں اور دیگر ریاستی اداروں سے زبردستی جلاوطن کر دیا گیا تھا۔
تاہم روس نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس نے کچھ بچوں کو اپنے تحفظ کے لیے جنگ زدہ علاقوں سے دور رکھنے کے لیے یہ اقدام کیا تھا۔
ماسکو نے وارنٹ کو بے معنی قرار دے کر مسترد کیا تھا تاہم وارنٹ جاری ہونے کے بعد 18 ماہ کے بعد روسی صدر کا آئی سی سی کے کسی بھی رکن ممالک کا یہ پہلا دورہ تھا۔
گزشتہ سال برکس اجلاس میں جنوبی افریقہ پر گرفتاری کے لیے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے بعد روسی صدر نے آئی سی سی رکن ملک میں ہونے والے برکس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
خیال رہے کہ ماضی میں آئی سی سی رکن ممالک کی جانب سے کسی بھی ایسے واقعے میں گرفتاری نہ کرنے کے خاص نتائج نہیں نکلے ہیں۔