وزیر داخلہ کا عمران خان سے مذاکرات کے حوالے سے اہم بیان

image

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ عمران خان سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، مذاکرات دھمکیوں سے نہیں ہوتے، میں مذاکرات کے حق میں ہوں لیکن ایسی کوئی صورت نہیں ہےکہ دھمکیاں دیں اور کہیں کہ بات چیت کرنی ہے، کسی کو اجازت کے بغیر کوئی جلسہ جلوس کرنےکی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کو بیلاروس کا 65 رکنی وفد آرہا ہے جس میں 10 وزرا ہیں، 25 کو بیلاروس کے صدر آرہے ہیں جن کا 3 دن کا دورہ ہے، ہم وہی کنٹینر لگارہے ہوں گے، موبائل فون سروس بند کررہے ہوں گے، ان کی حفاظت ہماری پہلی ترجیح ہوگی، اس کے بعد ہمیں اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کرنی ہے، اس لیے ہم کسی کو اجازت کے بغیر کسی جلسے جلوس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ احتجاج کو کوئی نہیں روکتا، آپ جہاں ہیں وہاں رہ کر احتجاج کریں، عدالت میں بھی یہی کہا ہے کہ ہم نے کسی کو احتجاج سے نہیں روکا لیکن اسلام آباد آکر احتجاج کرنا اور وہ بھی ان دنوں میں احتجاج کرنا جب کوئی اہم ایونٹ ہورہا ہے، عوام فیصلہ کرے کہ یہ اہم دنوں میں احتجاج کیوں کرتے ہیں، انتظامیہ اپنے انتظامات پورے کرے گی، باقی دیکھتے ہیں۔

اس سوال پر کہ وزیر دفاع نے تصدیق کی ہے کہ بانی تحریک انصاف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے مذاکرات ہورہے ہیں، وزیر داخلہ نے کہاکہ کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، دھمکیوں سے مذاکرات نہیں ہوتے، میں ذاتی طور پر میں خود اس حق میں ہوں کہ ملک میں ہر ایک کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے لیکن دھمکیوں کے ساتھ کسی صورت بات چیت نہیں ہوگی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ موبائل فون کی بندش کا فیصلہ کل رات تک کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا، چیف سیکریٹری اور آئی جی سے روزانہ کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ رہتا ہے، ابھی خیبرپختونخوا سے ایف سی کی 15 پلاٹون کی درخواست آئی ہے، وہ ہمارا ملک اور ہمارا صوبہ ہے اسے نہیں چھوڑ سکتے۔

انہوں نے کہاکہ اسلام آباد میں مقیم افغانیوں کے حوالے سے لائحہ عمل آئندہ چند دنوں میں مرتب کرلیا جائے گا، بڑی تعداد میں افغانیوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں، ہر احتجاج میں گرفتار ہونے والے 100 میں سے 25 افغانی نکلتے ہیں، پاکستانیوں کا احتجاج تو سمجھ آتا ہے، افغان کیوں احتجاج کررہے ہیں؟


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.