تقسیم ہند کے خون خرابے اور فضل محمود سمیت دیگر کھلاڑیوں کے شامل نہ ہونے کے باوجود انڈیا نے آسٹریلیا کا دورہ مکمل کیا۔
کرکٹ کے میدان میں انڈیا اور آسٹریلیا ایک دوسرے کے پرانے حریف ہیں۔ اس دشمنی کی تاریخ سنہ 1947 سے چلی آ رہی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان جاری حالیہ سیریز کا کرکٹ مداحوں کو بے صبری سے انتظار بھی رہا۔
تاہم جب پہلی بار انڈین ٹیم سیریز کھیلنے آسٹریلیا جا رہی تھی تب برصغیر کی تاریخ کا ایک باب بند ہونے جا رہا تھا۔ ایک طرف انڈین کرکٹرز کو ملک میں خون خرابہ اور فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا تھا جبکہ دوسری جانب انھیں کھیل کے میدان میں آسٹریلیا کے لیجنڈری ڈونلڈ بریڈمن اور ان کے ’ناقابل تسخیر‘ کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی تھی۔
1947 میں جب انڈین ٹیم اپنے پہلے کرکٹ دورے کے لیے آسٹریلیا گئی تھی تو اُس وقت قوم کو غیر معمولی دشواریوں کا سامنا تھا۔
انڈیا کی آزادی اُس دردناک تقسیم کے ساتھ آئی جس میں پاکستان کا قیام ہوا اور جس نے تاریخ کی سب سے بڑی اور خونریز نقل مکانی میں سے ایک کو جنم دیا۔ اس افراتفری میں جیسے جیسے لاکھوں لوگ سرحد عبور کرتے گئے ویسے ویسے سرحد کی ایک طرف مذہبی تشدد نے ہندوؤں اور سکھوں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور دوسری طرف مسلمانوں کو۔
انڈیا کا 16 رکنی کرکٹ سکواڈ تقسیم ہند سے کچھ مہینوں پہلے ہی منتخب کیا گیا تھا۔ جب سکواڈ خود کو ایک تاریخی سیریز کے لیے تیار کر رہی تھی تو کھلاڑیوں کو ذاتی زندگی اور قومی سطح دونوں پر سخت تناؤ کا سامنا رہا۔
اس وقت انتھونی ڈی میلو انڈیا کے بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ کے صدر تھے۔ انھوں نے جس وقت انڈین ٹیم کا اعلان کیا تو کہا تھا کہ یہ ٹیم پورے انڈیا کی نمائندگی کرے گی۔
اس وقت انڈین کرکٹ ٹیم کو ’آل انڈیا‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ ٹیم سنہ 1932 اور سنہ 1946 کے درمیان صرف تین بار ٹیسٹ میچز کے دوروں پر ملک سے باہر گئی تھی جس میں انھوں نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیلی تھی جبکہ تینوں بار آل انڈیا آل آؤٹ ہو کر لوٹی تھی۔
سنہ 1946 میں دوسری عالمی جنگ میں اتحادیوں کی جیت منانے کے لیے جب آسٹریلوی ٹیم کے مستقبل کے کپتان لنزی ہیسٹ اپنے ساتھ آسٹریلین سروسز ٹیم کو انڈیا لائے تھے تو انھوں نے آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے ساتھ ایک غیر رسمی ٹیسٹ سیریز کھیلی تھی۔
اس ٹیسٹ سیریز کے تین میچز میں سے ایک میں انڈین ٹیم جیت گئی تھی۔ ٹیم کی کارکردگی دیکھتے ہوئے لنزی ہیسٹ نے آسٹریلین کرکٹ حکام کو ان کے بارے میں بتایا اور کہا کہ انڈین ٹیم سرکاری ٹیسٹ سیریز کے لیے تیار ہے۔
اس خبر سے انڈین کرکٹ حلقوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہو گیا کیونکہ انڈیا کا سامنا ایک طاقتور ٹیم سے ہونے جا رہا تھا۔ آسٹریلین ٹیم کی رہنمائی لینجنڈری بلے باز ڈونلڈ بریڈمن کرنے جا رہے تھے۔ سنہ 1948 میں انگلینڈ میں شکست کے بغیر واپسی پر ان کی ٹیم کو’بریڈمن کے ناقابل تسخیر‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
انڈین سکواڈ کی کپتانی وجے مرچنٹ کو سونپی گئی تھی جبکہ مشتاق علی ان کے نائب کپتان مقرر ہوئے تھے۔ ان دوںوں کھلاڑیوں کو ان کے سنہ 1936 اور 1946 کے دورہ برطانیہ میں ان کی کارکردگی کی وجہ سے سراہا گیا تھا۔
سکواڈ میں روسی مودی بطور بلے باز کھیل رہے تھے جبکہ ٹیم میں ایک نئے فاسٹ بولر فضل محمود کو بھی متعارف کروایا گیا تھا۔ سکواڈ میں تجربہ کار کھلاڑیوں اور فریش ٹیلنٹ دونوں کا زبردست ملاپ موجود تھا۔
لیکن صحت کے مسائل کی بنا پر روسی مودی اور وجے مرچنٹ نے دورے سے اپنا نام واپس لے لیا۔ اپنے بڑے بھائی کی موت کی وجہ سے مشتاق علی بھی دورے میں شامل نہ ہو سکے تھے۔
اب انڈین ٹیم کی کپتانی لالہ امرناتھ کو سونپ دی گئی تھی جبکہ وجے ہزارے بطور نائب کپتان مقرر کر دیے گئے تھے۔
تاہم تقسیم ہند کے دوران جنم لینے والے تشددکی وجہ سے لالہ امرناتھ کا آسٹریلیا جانا مشکل نظر آ رہا تھا۔
سنہ 2004 میں ان کے بیٹے کی جانب سے قلم بند کی گئی ان کی سوانح عمری میں بتایا گیا ہے کہ انڈین پنجاب میں فرقہ وارانہ مشتعل ہجوم کی زد میں آنے سے لالہ امرناتھ بال بال بچ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور میں اپنے گھر اور اس کے انمول نوادرات ہمیشہ کے لیے کھو دیے۔
جب وہ دلی جانے کے لیے ٹرین سے سفر کر رہے تھے تو انڈین پنجاب میں ایک سٹیشن پر ایک پولیس اہلکار نے انھیں پہچان لیا اور ایک کڑا دے دیا جو زیادہ تر سکھ اور ہندو اپنی مذہبی شناخت کی نشاندہی کے لیے پہنتے ہیں۔
پھر جب ایک سٹیشن پر ان کا سامنا ایک مشتعل ہجوم سے ہوا تو شاید اسی کڑے کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی۔ شاید اُن لوگوں کو لگا کہ امر ناتھ ان ہی کے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
سرحد کی دوسری طرف پیس بولر فضل محمود کو بھی ٹرین پر ایک قاتلانہ مشتعل ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹیم کو 15 اگست سے پونا میں تربیتی سرگرمیاں شروع کرنی تھیں۔ اُس وقت تک یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ یہی وہ دن ہو گا جب برصغیر کی تقسیم کی تاریخ مقرر کر دی جائے گی۔
تاہم اس تناظر میں پابندیوں کے باوجود فضل محمود پونا کے تربیتی کیمپ پہنچ گئے۔ اس کے بعد وہ ممبئی گئے جہاں سے انھوں نے لاہور کا رخ کیا۔
سنہ 2003 میں شائع ہوئی اپنی سوانح عمری میں انھوں نے بتایا کہ ٹرین پر دو آدمیوں نے انھیں نقصان پہچانے کی کوشس کی لیکن سابق انڈین کپتان سی کے نائڈو نے ہاتھ میں بلا پکڑ کر ان آدمیوں کو ڈرا کے بھگا دیا۔
جب فضل محمود کرفیو زدہ لاہور پہنچے تو وہاں کا خون خرابہ اور ہولناک منظر دیکھ کر صدمے میں چلے گئے تاہم انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں رہیں گے اور دورے کے لیے آسٹریلیا نہیں جائیں گے۔
بعد ازاں فضل محمود پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل ہو گئے اور اپنا پہلا ٹیسٹ میچ 1953 – 1952 میں انڈیا کے خلاف کھیلا۔
انڈین سکواڈ کے دو اور کھلاڑی گل محمد اور عامر الہی جو آسٹریلیا کے دورے پر جا رہے تھے بعد ازاں پاکستان منتقل ہو گئے اور 1953 – 1952 میں انڈیا کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔
ان تمام مشکلات کے باوجود انڈین ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر گئی جبکہ ٹیم میں اس کے چار بہترین کھلاڑی شامل نہیں ہو سکے تھے تاہم انڈیا سیریز کے چاروں میچز ہار گئی تھی لیکن یہ بھی کسی معجزے سے کم نہیں کہ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی انڈیا نے اپنا آسٹریلیا کا دورہ مکمل کیا۔