اینٹون سے ہماری ملاقات روس کے باہر ایک خفیہ مقام پر ہوئی۔ وہ روس کے جوہری ہتھیاروں کے ایک اڈے پر بطور افسر تعینات تھے۔ ان کی حفاظت کے پیشِ نظر ان کا نام اور ملاقات کی جگہ کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
اینٹون بتاتے ہیں کہ فروری 2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو جس جوہری ہتھیاروں کے اڈے پر وہ تعینات تھے اسے حملے کے لیے مکمل طور پر تیار رہنے کا حکم تھا۔
وہ بتاتے ہیں، 'اس سے قبل ہم نے صرف مشقیں کی تھیں۔ لیکن جس روز جنگ کا آغاز ہوا، تمام ہتھیار مکمل طور پر تیار تھے۔'
ہم ہوا میں، سمندر میں اپنی فورسز بھیجنے کے لیے تیار تھے، الغرض ہم جوہری حملےکے لیے تیار تھے۔'
بی بی سی اینٹون کے دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے لیکن ان کے دعوے اس وقت روس کی جانب سے کیے جانے والے بیانات سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔
یوکرین جنگ کے آغاز کے تین روز بعد ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا کہ روس کی جوہری ڈیٹرنس فورسز کو 'خصوصی جنگی خدمات' کے لیے تیار رہنے کا حکم ہے۔
اینٹون نے اپنی تعیناتی کے ثبوت کے طور پر ایسے دستاویزات پیش کیے جن میں ان کے عہدے، رینک اور جہاں وہ تعینات تھے اس اڈے کے متعلق تفصیلات درج تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے یونٹ کو جنگ کے پہلے ہی روز سے تیار رہنے کا کہ دیا گیا تھا اور ان کے یونٹ کو اڈے کے اندر ہی رہنے کا حکم تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھیں صرف روسی سرکاری ٹی وی تک رسائی تھی۔ 'ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس سب کا کیا مظلب ہے۔ میں بس اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ ہم جنگ میں لڑ نہیں رہے تھے، ہم تو بس جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کر رہے تھَے۔'
ان کے مطابق یہ ہنگامی صورتحال دو سے تین ہفتوں تک جاری رہی تھی۔
اینٹون کے بیانات سے روسی جوہری فورسز کے کام کرنے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالنے پر مدد ملتی ہے۔ عام طور پر روسی سروسز کے ممبران صحافیوں سے بات ہیں کرتے ہیں۔
سابق افسر بتاتے ہیں کہ جوہری فورسز میں انتخاب کا عمل کافی سخت ہے اور اس میں صرف پیشہ ور فوجی ہی شامل ہیں اور کسی کو اس میں زبردستی بھرتی نہیں کیا جاتا ہے۔
اینٹون کہتے ہیں کہ ہر وقت لوگوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ 'تنخواہ بھی کافی زیادہ ہے اور ان فوجیوں کو جنگ پر بھی نہیں بھِجا جاتا ہے۔ ان کی واحد ذمہ داری جوہری حملہ روکنا یا کرنا ہے۔'
سابق افسر بتاتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری تھی کہ ان کے ماتحت فوجی جوہری اڈے پر موبائل فون نہ لائیں۔
'وہاں کوئی بھی اجنبی نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے والدین کو بھی بلانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو روسی خفیہ سروس ایف ایس بی کو تین ماہ پہلے درخواست دینی پڑتی ہے۔'
اینٹون اڈے کی اس سکیورٹی یونٹ کا حصہ تھے جو جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر مامور تھے۔
وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ ان کی یونٹ محض دو منٹ کے قلیل وقت میں ردِ عمل دے سکتی تھی۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق روس کے پاس 4 ہزار 380 ہتھیار ہیں جن میں سے 1700 فوری استعمال کے قابل ہیں۔
یہ تعداددیگر نیٹو ممبر ممالک کے پاس مجموعی طور پر موجود جوہری ہتھیاروں جتنی ہے۔
اس بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں کہ آیا پیوٹن ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کا حکم دیں گے؟
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار دراصل چھوٹے میزائل ہوتے ہیں جو عام طور پر بڑے پیمانے پر تابکار اثرات کا سبب نہیں بنتے ہیں۔
تاہم اس سے جنگ میں خطرناک حد تک اضافے کا امکان ہے۔
گذشتہ ہفتے ہی روسی صدر نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی نئی پالیسی کی منظوری دی ہے۔
اس نئی پالیسی کے مطابق اگر کوئی غیر جوہری ملک 'جوہری ریاست کی شرکت یا حمایت' سے روس پر روایتی میزائلوں سے بڑا حملہ کرتا ہے تو اس کے جواب میں روس جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
روسی حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ اس پالیسی کے بعد روس کی میدان جنگ میں شکست ناممکن ہو گئی ہے۔
مگر کیا روسی جوہری ہتھیار مکمل طور استعمال کے قابل ہیں؟
کئی مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ روس کے زیادہ تر جوہری ہتھیار سوویت زمانے کے ہیں جو اب شاید کام نہ کریں۔
تاہم سابق روسی افسر اینٹون اس نقطہ نظر یکسر مسترد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شاید کچھ پرانے ہتھیار بھی موجود ہوں لیکن روس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جو نہ صرف آپریشنل ہیں بلکہ کسی بھی وقت جنگ میں استعمال کیے جانے کے قابل ہیں۔
یہ تعداد دیگر نیٹو ممبر ممالک کے پاس مجموعی طور پر موجود جوہری ہتھیاروں جتنی ہے۔
اس بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں کہ آیا پیوٹن ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کا حکم دیں گے؟
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار دراصل چھوٹے میزائل ہوتے ہیں جو عام طور پر بڑے پیمانے پر تابکار اثرات کا سبب نہیں بنتے ہیں۔
تاہم اس سے جنگ میں خطرناک حد تک اضافے کا امکان ہے۔
گذشتہ ہفتے ہی روسی صدر نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی نئی پالیسی کی منظوری دی ہے۔
اس نئی پالیسی کے مطابق اگر کوئی غیر جوہری ملک 'جوہری ریاست کی شرکت یا حمایت' سے روس پر روایتی میزائلوں سے بڑا حملہ کرتا ہے تو اس کے جواب میں روس جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
روسی حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ اس پالیسی کے بعد روس کی میدان جنگ میں شکست ناممکن ہو گئی ہے۔
مگر کیا روسی جوہری ہتھیار مکمل طور استعمال کے قابل ہیں؟
کئی مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ روس کے زیادہ تر جوہری ہتھیار سوویت زمانے کے ہیں جو اب شاید کام نہ کریں۔
تاہم سابق روسی افسر اینٹون اس نقطہ نظر یکسر مسترد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شاید کچھ پرانے ہتھیار بھی نوجود ہوں لیکن روس کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جو نہ صرف آپریشنل ہیں بلکہ کسی بھی وقت جنگ میں استعمال کیے جانے کے قابل ہیں۔
’ہتھیاروں کی دیکھ بھال مستقل بنیادوں پر کی جاتی ہے، یہ کام ایک منٹ کے لیے بھی نہیں رکتا۔‘
اینٹون کہتے ہیں جنگ کے آغاز کے بعد انھیں ایک ایسا حکم دیا گیا جو ان کی نظر میں مجرمانہ تھا۔ انھیں اپنے فوجیوں کو پہلے سے لکھے گائیڈلائنز کے مطابق لیکچر دینے کو کہا گیا۔
’انھوں نے کہا کہ یوکرینی شہری جنگجو ہیں اور انھیں ختم کر دینا چاہیے۔‘
اینٹون کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ ’میں نے انھیں کہا کہ میں یہ پروپیگنڈا نہیں پھیلاوں گا۔ٔ‘
اس کے بعد اینٹون کو سزا کے طور پر ملک کے ایک دوسرے حصے میں ایک عام فوجی اڈے پر ٹرانسفر کر دیا گیا۔ انھیں بتایا گیا کہ جلد ہی انھیں جنگ میں بھیج دیا جائے گا۔
یہ وہ دستے ہوتے ہیں جنھیں جنگ کے ابتدائی مرحلے میں لڑنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ کئی سابق روسی فوجیوں کے مطابق ایسے افراد جو جنگ پر اعتراض کرتے ہیں انھیں سزا کے طور پر سب سے آگے بھیجا جاتا ہے۔
جب لندن میں روسی سفارتخانے سے اس بارے میں موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اس سے قبل کہ انھیں محاذ پر بھیجا جاتا اینٹون نے جنگ نے جانے سے منع کر دیا اور ان کے خلاف فوجداری کا مقدمہ دائر ہوگیا۔
انھوں نے بی بی سی کو اپنے ٹرانسفر اور اپنے خلاف درج مقدمے کے دستاویزات بھی دکھائے۔
اس کے بعد انھوں نے ملک سے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
ان کا خیال ہے کہ اگر وہ نیوکلیئر بیس سے فرار ہونے کی کوشش کرتے تو ایف ایس بی یقیناً ان کے پیچھے لگ جاتی اور وہ کبھی روس سے نکل نہ پاتے۔
اینٹون کے مطابق کیونکہ ان کا تبادلہ عام فوجی یونٹ میں کر دیا گیا تھا اس ہی لیے شاید وہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
اینٹون کہتے ہیں کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ بہت سے روسی فوجی اس جنگ کے خلاف ہیں۔
سابق روسی فوجیوں کو ملک سے فرار کروانے والی رضاکارانہ تنظیم ’ایڈیٹی لیسم‘ نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک سے فرار ہونے والے فوجیوں کی تعداد ماہانہ 350 تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری طرف فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ کئی افراد کو زبردستی واپس لے جا کر ان کے خلاف مقدمے بھی چلائے گئے ہیں۔
اینٹون روس سے فرار تو ہو چکے ہیں لیکن ان کو لگتا ہے کہ خفیہ اداروں کے افراد اب بھی ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ’میں یہاں بھی احتیاط سے کام لیتا ہوں۔‘
اینٹون نیوکلیئر بیس پر کام کر رہے اپنے دوستوں سے بات بھی نہیں کرتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ اس سے ان کے دوست خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ’انھیں لائی ڈیٹیکٹر ٹیست سے گزرنا پڑتا ہے اور مجھ سے رابطے میں رہنے کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
وہ جانتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنے کی وجہ سے انھیں خود بھی خطرات لاحق ہیں۔ ’مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ میں جتنا کروں گا، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ مجھے مارنے کی کوشش کی جائے۔‘