’ایران کو دھچکا‘: شام کے شہر حلب پر قبضہ کرنے والا عسکریت پسند گروہ جو ماضی میں القاعدہ کا اتحادی تھا

حلب شہر پر تازہ حملے حیات تحریر الشام کی قیادت میں ہوئے ہیں جس کا شامی تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔ حیات تحریر الشام کا وجود سنہ 2011 میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔
syria
Getty Images

شام میں باغی فورسز نے ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب کے ’اکثریتی‘ علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔

شام پر نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق سنہ 2016 کے بعد سنیچر کی شام روس نے پہلی مرتبہ حلب پر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔

شامی ادارے کا کہنا تھا کہ ملک میں بدھ سے شروع ہونے والی لڑائیوں میں اب تک 20 عام شہریوں سمیت 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

سنہ 2016 میں صدر بشارالاسد کی افواج نے حلب سے باغیوں کو علاقہ بدر کر دیا تھا اور اس کے بعد سے یہاں پر کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا تھا۔

شامی فوج نے سنیچر کو تصدیق کی ہے کہ باغی شہر کے ’بڑے حصے‘ میں داخل ہو گئے ہیں اور اس دوران درجنوں فوجی ہلاک اور زخمی بھی ہوئے ہیں۔

شام میں عسکری ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ حلب میں ایئرپورٹ جانے والے اور شہر کے اندر جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔

سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق باغی کسی بھی بڑی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر ’شہر کے اکثریتی علاقوں‘ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ادارے کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ علاقے میں کوئی لڑائی دیکھنے میں نہیں آئی کیونکہ شام کی سرکاری افواج وہاں سے نکل گئی تھیں۔

’سٹی کونسل، پولیس سٹیشنز اور انٹیلیجنس دفاتر سب بند ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘

جمعے کو شامی فوج نے کہا تھا کہ انھوں نے حلب شہر اور ادلب کے کچھ علاقوں کا کنٹرول حیات تحریر الشام اور اتحادی گروہوں سے واپس لے لیا ہے۔

سوشل میڈیا پر حیات تحریر الشام سے منسلک ایک چینل نے ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی جس میں حلب شہر میں باغیوں کی گاڑیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی ویریفائی نے تصدیق کی ہے کہ یہ ویڈیو مغربی حلب کے نواحی علاقوں میں بنائی گئی ہے۔

سنہ 2011 میں ملک جمہوریت کی حمایت ہونے والے مظاہروں کے بعد شروع ہونے والی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

شام
Getty Images
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعے کو حلب میں روس نے 23 فضائی حملے کیے تھے

اس وقت صدر بشارالاسد کے مخالفین بشمول جہادی گروہ نے اس خانہ جنگی کا فائدہ اُٹھایا تھا اور ملک کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

تاہم بعد میں شامی حکومت نے روس، ایراناور دیگر اتحادیوں کی مدد سے تقریباً تمام علاقوں کا کنٹرول واپس لے لیا تھا۔

صرف ادلب وہ واحد علاقہ تھا جس کا کنٹرول حیات تحریر الشام کے پاس تھا۔ اس صوبے میں کچھ علاقوں میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجو بھی موجود ہیں۔

سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعے کو حلب میں روس نے 23 فضائی حملے کیے تھے۔

روسی نیوز ایجنسیوں کے مطابق روس کا کہنا ہے کہ اس نے شام میں ’انتہاپسند قوتوں‘ پر حملہ کیا ہے۔

کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوو کے مطابق روس ’شام میں امن قائم رکھنے کے لیے حکومت‘ کی حمایت جاری رکھے گا۔

حلب پر حملہ کرنے والے باغی کون ہیں؟

حلب شہر پر تازہ حملے حیات تحریر الشام کی قیادت میں ہوئے ہیں جس کا شامی تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔

حیات تحریر الشام کا وجود سنہ 2011 میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔

نام نہاد دولت اسلامیہ کے سابق سربراہ ابو بکر البغدادی کا بھی اس گروہ کو بنانے میں کردار تھا۔

اس گروہ کو شام میں صدر بشارالاسد کا سب سے خطرناک ترین مخالف سمجھا جاتا تھا۔

سنہ 2016 میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر گروہوں سے اتحاد کر کے حیات تحریر الشام کی بنیاد رکھ دی۔

القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد حیات تحریر الشام کا مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔

’ایران کو دھچکا‘

گذشتہ چار برسوں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے شام میں جنگ اب ختم ہو گئی ہے اور صدر بشار الاسد کی حکومت ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا۔

دوسری جانب ایران یہ ماننے کو تیار نہیں کہ حلب کا کنٹرول شامی حکومت کے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔

ایرانی نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق لبنان میں ایرانی سفیر مجتبیٰ امانی کا کہنا ہے کہ حلب پر ’دہشتگردوں کے قبضے‘ کی غلط افواہیں ’سائبر آرمی‘ کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہیں۔

مجتبیٰ امانی کا کہنا تھا کہ ’اب شامی حکومت مضبوط ہے اور روسی حکومت بھی شام کا دفاع کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ مزاحمتی محاذ اور ایران شامی حکومت اور اس کے عوام کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘

شام
Getty Images
بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا

لیکن دوسری جانب عرب میڈیا حلب میں باغی جنگجوؤں کی پیش قدمی کو ’ایران کے لیے ایک دھچکا‘ قرار دے رہا ہے۔

ممتاز سعودی لکھاری مشاری التھیدی نے عرب اخبار الشرق الاوسط کو بتایا کہ شام میں باغیوں کی پیش قدمی روس اور شامی حکومت کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی ایک ’دھچکا‘ ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ حلب اور دیگر علاقوں میں جاری تازہ لڑائیاں شام میں ایران اور دیگر غیرملکی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ ہیں۔

ایک اور عرب اخبار العرب نے شام کے حوالے سے ایک مضمون کی سرخی کچھ اس انداز میں دی: ’پانچ برسوں کے امن کے بعد حلب بشار الاسد کے لیے ایک پیچیدہ امتحان ثابت ہوگا۔‘

اس مضمون میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’آپ کو یہ انتخاب کرنا پڑے گا کہ آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

اس مضمون کے مطابق مغربی قوتوں کو چاہیے کہ وہ بشار الاسد سے پوچھ لیں کہ کیا وہ ایران کی حمایت جاری رکھیں گے۔

اس تحریر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ حلب میں تازہ حملے کے پیچھے ایک منصوبہ نظر آتا ہے کیونکہ باغی گروہ ابھی ایران اور اس کے پراکسی گروہوں کی ’کمزوری‘ سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.