ڈی آر ڈی او کی شاخیں ملک کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پورے ملک میں اس کی تقریباً 52 لیباریٹریز ہیں جہاں دفاع کے الگ الگ شعبوں میں ہزاروں سائنسدان تحقیق و ترقی کے عمل میں مصروف ہیں۔ ڈی آر ڈی او نے اپنی پانچ لیبارٹریز نوجوان سائنسدانوں کے لیے مخصوص کر رکھی ہیں جہاں صرف 35 برس سے کم عر انجینیئر ہی کام کرتے ہیں۔
انڈیا نے گذشتہ ہفتے اڑیسہ کے نزدیک ایک جزیرے سے ایک ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ آواز سے پانچ گنا زیادہ تیز رفتار سے پرواز کرنے والے میزائل کو نشانہ بنانا انتہائی مشکل ہے اور یہ ٹیکنالوجی ابھی دنیا کے چند ہی ممالک کے پاس موجود ہے۔
یہ میزائل جوہری بم سے حملہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کو میزائل ٹیکنالوجی میں انڈیا کی ایک بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اسے انڈیا کے دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او نے بنایا ہے۔
ڈی آر ڈی او انڈیا کی وزارتِ دفاع کے ماتحت جنگی سازوسامان بنانے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کا مقصد انڈیا کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی سے مزین کرنا اور اس کا مشن کلیدی جنگی ہتھیاروں اور سازوسامان کے شعبے میں خود انحصاری حاصل کرنا ہے۔
یہ سنہ 1958 میں کئی تحقیقی اداروں کو ضم کرنے کے بعد وجود میں آیا تھا اور اب اس کا کام زمین، فضا، سمندر، خلا اور سائبر شعبے کے لیے جدید ترین سینسر، ریڈار، ہر قسم کے ہتھیار، میزائل، جوہری بم، توپیں، ٹینک، آبدوزیں، جنگی جہاز اور ان سے متعلقہ سازوسامان اور پرزوں کے ڈیزائن تیار کرنا اور انھیں تخلیق کرنا ہے۔
انڈیا میں 1974 اور 1998 میں پوکھران میں جوہری دھماکہ اسی ادارے کے سائنسدانوں کی نگرانی میں عمل میں آیا تھا۔ انڈیا کا جوہری بم اور ہائیڈروجن بم بھی ڈی آر ڈی او نے ہی بنایا ہے۔
ڈی آر ڈی او کی شاخیں ملک کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پورے ملک میں اس کی تقریباً 52 لیباریٹریز ہیں جہاں دفاع کے الگ الگ شعبوں میں ہزاروں سائنسدان تحقیق و ترقی کے عمل میں مصروف ہیں۔
ڈی آر ڈی او نے اپنی پانچ لیبارٹریز نوجوان سائنسدانوں کے لیے مخصوص کر رکھی ہیں جہاں صرف 35 برس سے کم عمر کے انجینیئر ہی کام کرتے ہیں۔
ڈی آر ڈی او کے ادارے میں بیشتر گریجویٹ اور سائنسدان انجینیئرنگ اور سائنس کے ایسے تعلیمی اداروں سے آتے ہیں جنھیں ملک کے اولین اداروں میں شمار نہیں کیا جاتا بلکہ وہ نسبتاً کم معروف تعلیمی اداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
’ڈی آ ر ڈی او نے جو کامیابی حاصل کی وہ کئی ترقی یافتہ ملک بھی نہیں کر پائے‘
پلو باگلہ دفاعی امور کے صحافی ہیں۔ انھوں نے ڈی آر ڈی او کی بہت قریب سے کوریج کی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ڈی آر ڈی او کو انڈیا کی مسلح افواج کی ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ لوگ صرف یہی جانتے ہیں کہ اس نے جوہری بم بنایا ہے، ہائیڈروجن بم بنایا، وہ طرح طرح کے میزائل بنا رہا ہے، اسی نے پوکھران کا جوہری دھماکہ بھی کیا تھا۔‘
’لیکن یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ فوجیوں کے لیے مختلف موسموں کے اعتبار سے موزوں یونیفارم بناتا ہے اور آرام دہ جوتے بھی۔ کن حالات میں کس طرح کا کھانا کھانا ہے، اس کی تحقیق بھی یہیں کی جاتی ہے۔ یونیفارم اور جوتے بنانے سے لے کر ایٹم بم بنانے تک کا سارا کام ڈی آر ڈی او کرتا آیا ہے۔ چونکہ یہ ایک دفاعی تحقیق اور ترقی کا ادارہ ہے اس لیے اس کی سرگرمیوں کو انتہائی پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔‘
ڈی آر ڈی اونے سب سے بڑی کامیابی ایٹم بماور میزائل کے شعبے میں حاصل کی ہے۔ اس نے مختلف رینج اور ساخت کے انتہائی جدید کروز، بیلیسٹک، انٹر کانٹینینٹل، سپرسونک اور ہائپر سونک میزا ئل بنائے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ڈی آ ر ڈی او نے میزائل بنانے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ کئی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں حاصل ہو پائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر ابھی جو انڈیا نے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا ہے وہ ٹیکنالوجی چین اور امریکہ سمیت صرف پانچ چھ ملکوں کے پاس ہے لیکن ان کے میزائلوں کی صلاحیت انڈیا کے ہائپر سونک سے بہت کم ہے۔‘
’انھوں نے تین برس پہلے ایک ہائپرسونک گلائیڈ وہیکل بھی بنایا تھا۔ یہ گلائیڈ وہیکل ایک راکٹ کے ذریعے اپنے ہدف تک بھیجا جاتا ہے۔ کافی ترقی یافتہ ملکوں کے پاس بھی ابھی یہ صلاحیت نہیں ہے۔‘
راہل بیدی کا کہنا ہے کہ ’اس نے سب مرین بیلسٹک میزائل بھی بنائے ہیں جنھیں بنانا بہت مشکل کام ہے۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کا ریکارڈ میزائلوں کے بنانے میں بہت عمدہ ہے لیکن باقی ہتھیاروں میں جیسے اسالٹ رائفلز، فوج کے لیے ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں وغیرہ بنانے میں ان کی صلاحیت کافی کمزور ہے۔‘
ڈی آر ڈی او ابھی جنگی جہازوں میں استعمال ہونے والے طاقتور انجن بھی نہیں بنا سکا ہے۔ اس نے ’تیجس‘ نام کا ایک لائٹ کمبیٹ جنگی جہاز بنایا ہے لےکن اس کا انجن امریکہ کی کمپنی جنرل الیکٹرک سے لیا گیا ہے۔
جب انڈیا نے دفاعی ٹیکنالوجی خود بنانے کا فیصلہ کیا
ڈی آر ڈی او کی میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز 1980 کے عشرے میں ہوا تھا جب ڈاکٹر عبدالکلام کی سربراہی میں میزائل ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔
اس وقت لندن، واشنگٹن اور ٹوکیو میں انڈیا کے ڈیفنس اتاشی اور ڈی آر ڈی او کے نمائندے ہوا کرتے تھے۔ دفاعی ٹیکنالوجی پر ان ممالک کا پورا کنٹرول تھا۔
اٹل بہاری واجپئی کے دور میں سنہ 1998 کے جوہری دھماکے کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے انڈیا پر ٹیکنالوجی کی برآمد اور خاص طور سے ایسے انجن، مشینیں اور کل پرزے برآمد کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی جو جنگی مشینیوں اور ہتھیاروں میں استعمال کی جا سکتی تھیں۔
یہ پابندی کئی برس تک جاری رہی اور یہی وہ وقت تھا جب انڈیا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ٹیکنالوجی کے لیے غیر ممالک پر انحصار نہیں کرے گا۔
سنہ 80 کے عشرے سے یہ ادارہ ترقی کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا کہ اب یہ ہائپر سونک میزائل بھی بنا رہا ہے اور سب مرین بیلسٹک میزائل بھی لانچ کر سکتا ہے۔
ڈی آر ڈی او نے گذشتہ 30 برس میں پرتھوی، اگنی، آکاش، ترشول، پناکا اور برہموس جیسے جدید میزائل بنائے ہیں جو انڈیا کی مسلح افواج کا حصہ ہیں۔
انڈیا کون سے میزائل برآمد کرتا ہے؟
ڈی آر ڈی او کچھ میزائل اب برآمد بھی کر رہا ہے۔ ایک تو آکاش میزائل ہے جس کی رینج 25 سے 40 کلومیٹر تک ہے اور دوسرا برہموس میزائل ہے جو انڈیا نے روس کے اشتراک سے بنایا ہے۔ اس کی رینج 280 کلومیٹر سے 400 کلومیٹر تک ہے۔ 280 کلومیٹر رینج کے میزائل انھوں نے فلپائن کو برآمد کیے ہیں جبکہ آکاش میزائل آرمینیا کو فروخت کیا گیا ہے۔
گذشتہ مالی سال میں انڈیا نے 21 ہزار کروڑ روپے مالیت کا جنگی ساز و سامان برآمد کيا تھا۔ انڈیا کی وزارت دفاع نے آئندہ پانچ برس میں اسے 50 ہزار کروڑ روپے تک پہنچانے کا ہدف رکھا ہے۔
راہل بیدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہو ئے کہا کہ ’میزائل ٹیکنالوجی باہر سے حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ بہت ہی کلاسیفائیڈ اور خفیہ ٹیکنالوجی ہوتی ہے۔ جن ملکوں کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہوتی ہے وہ اسے دینے کے لیے راضی نہیں ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’1998 کے بعد انڈیا ایک جوہری ملک بن گیا ہے۔ ڈی آر ڈی او نے جو میزائل بنائے ہیں ان میں سے بہت سے میزائل جوہری بم گرانے کی صلاحیت والے ہیں۔ ابھی جس ہائپر سونک میزائل کا انڈیا نے تجربہ کیا ہے اس میں روایتی اور جوہری دونوں قسم کے بم نصب کیے جا سکتے ہیں۔‘
تجزیہ کار پلو باگلہ کہتے ہیں کہ ’جہاں جہاں انڈیا کو دوسرے ملکوں نے ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا ان دفاعی سسٹمز میں ڈی آر ڈی او نے کمال کا کام کیا ہے۔ ان شعبوں میں اس ادارے نے بہت کارگر حل نکالے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ڈی آر ڈی او نے اسی سال ایک ہی میزائل میں کئی ایٹم بم لے جا کر الگ الگ ٹارگٹ کو نشانہ بنانے والے ایم آئی آر وی میزائل کا بھی کامیاب تجربہ کیا ہے۔
گذشتہ کچھ سال سے ڈی آر ڈی او نے نجی کمپنیوں سے بھی اشتراک کرنا شروع کیا ہے۔ آرٹیلیری یعنی توپ خانہ سسٹم، موٹرائزڈ وہیکل بنانے اورہیلی کاپٹر یونٹ میں پرائیوٹ سیکٹر کا اشتراک شامل ہے۔