ٹرمپ کی برکس ممالک کو ’دھمکی‘ لیکن کیا امریکی ڈالر کی جگہ کوئی اور کرنسی لے سکتی ہے؟

یاد رہے کہ برازیل اور روس کے سرکردہ سیاست دان تنظیم کی اپنی کرنسی بنانے کا مشورہ دے چکے ہیں جس کا مقصد عالمی تجارت میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنا ہے۔
برکس
Getty Images

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نو ممالک کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں لین دین کے لیے کسی نئی کرنسی کا انتخاب کیا تو ان پر 100 فیصد تک ٹیرف عائد کر دیا جائے گا۔

ہفتے کے دن ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’یہ خیال کہ برکس ممالک ڈالر سے دور ہونے کی کوشش کریں گے اور ہم دیکھتے رہیں گے، اب نہیں چلے گا۔‘

واضح رہے کہ عالمی طاقتیں چین اور روس برکس کا حصہ ہیں جس میں برازیل، انڈیا، جنوبی افریقہ، ایران، مصر، ایتھیوپیا اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔

صدارتی انتخابات سے قبل مہم کے دوران ٹرمپ نے وسیع پیمانے پر ٹیرف لگانے کا عندیہ دیا تھا لیکن حالیہ دنوں میں انھوں نے اس بارے میں دھمکی آمیز بیانات میں اضافہ کیا ہے۔

20 جنوری کو حلف اٹھانے سے قبل اس حوالے سے تازہ بیان میں ٹرمپ نے برکس کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ برازیل اور روس کے سرکردہ سیاست دان تنظیم کی اپنی کرنسی بنانے کا مشورہ دے چکے ہیں جس کا مقصد عالمی تجارت میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنا ہے۔ لیکن تنظیم کے اندر اختلافات کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔

برکس
Getty Images

تاہم ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر لکھا ہے کہ ’ہم ان ممالک سے یہ ضمانت چاہیں گے کہ وہ نہ تو نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی امریکی ڈالر کی جگہ لینے کے لیے کسی دوسری کرنسی کی حمایت کریں گے ورنہ ان کو سو فیصد ٹیرف کا سامنا کرنا ہو گا اور وہ امریکی معیشت میں تجارت کو خیرباد کہنے کی توقع رکھیں۔‘

’وہ کسی اور کو دھونڈ سکتے ہیں۔‘

ٹرمپ کے چند حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ اعلانات مزاکرات کی حکمت عملی ہیں جن کا مقصد اعلان سے زیادہ بات چیت کے لیے ماحول پیدا کرنا ہے۔

جب ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے بارے میں سی بی ایس کے پروگرام میں رپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’دیکھیں میکسیکو اور کینیڈا کے خاف ٹیرف کی دھمکی نے فوری نتائج دیے تھے۔‘

ٹیرف کیا ہوتا ہے؟

ٹیرف کسی بھی ملک کا وہ اندرونی ٹیکس ہوتا ہے جو ملک میں آنے والی مصنوعات پر عائد کیا جاتا ہے۔ یعنی امریکہ میں اگر 50 ہزار ڈالر قیمت کی گاڑی درآمد کی جاتی ہے جس پر 25 فیصد ٹیرف عائد ہے تو 12500 ڈالر اضافی خرچ ہو گا۔

ٹیرف ٹرمپ کی معاشی سوچ کا مرکزی حصہ ہیں اور وہ انھیں امریکی معیشت کو ترقی دینے، مقامی طور پر نوکریوں کو تحفظ دینے اور ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے کارآمد سمجھتے ہیں۔

وہ ماضی میں یہ دعوی کر چکے ہیں کہ ’یہ ٹیکس ایک دوسرے ملک کی جیب پر بھاری پڑیں گے، مقامی سطح پر نہیں۔‘

ٹرمپ
Getty Images

تاہم ماہرین معیشت اس دعوے کو گمراہ کن سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اضافی قیمت اس مقامی کمپنی کو ادا کرنا ہوتی ہے جو مصمنوعات درآمد کرتی ہے نہ کہ غیر ملکی کمپنی کو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک ٹیکس ہے جو مقامی کمپنیوں امریکی حکومت کو ادا کرتی ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں متعدد ٹیرف لگائے تھے جنھیں بعد میں جو بائیڈن انتظامیہ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

تو کیا امریکی ڈالر کا متبادل ممکن ہے؟ لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ ڈالر دنیا کی طاقتور کرنسی کیسے بنا

جب خفیہ مذاکرات نے ڈالر کو دنیا کی طاقتور ترین کرنسی بنا دیا

دوسری جنگ عظیم اختتام پذیر ہو رہی تھی کہ اتحادیوں کو یہ نظر آنا شروع ہوا کہ ان کی اپنی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ انھوں نے سوچنا شروع کیا کہ جب بحالی کا عمل شروع ہو گا تو بین الاقوامی تجارت کس کرنسی میں ہو گی۔

اس وقت 44 ممالک کے نمائندے 22 دن کے لیے امریکہ میں بریٹن وڈز قصبے کے ماوئنٹ واشنگٹن ہوٹل میں اکھٹے ہوئے۔ یہاں جنگ کے بعد عالمی میعشت اور تجارت کے مستقبل پر مزاکرات ہوئے۔

یورپی ممالک جنگ کے نیتجے میں تباہ حال تھے جب کہ امریکہ کے پاس دنیا میں سونے کے سب سے بڑے ذخائر تھے۔

ایڈ کونوے اپنی کتاب ’دی سمٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ 22 دن تک شدید سیاسی لڑائی اور بحث ہوئی۔ اس دوران دو شخصیات میں دو بدو لڑائی بھی ہوئی جس میں برطانوی جان کینز ایک عالمی کرنسی کا تصور لیے ہوئے تھے جبکہ دوسری جانب امریکی محکمہ خزانہ کے ہیری ڈیکسٹر تھے۔

اس کانفرنس کے بعد طے ہوا کہ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اسی ملاقات میں بنائے جانے والے ادارے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، جنگ کے بعد معاشی مشکل کا سامنا کرتے ممالک کو امریکی ڈالر میں ہی قرض دیں گے۔

کیا ڈالر کا کوئی متبادل ہے؟

ذخائر رکھنے کے لیے مغربی کرنسیوں کا واحد متبادل یوآن ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے چین کو بہت کچھ بدلنا ہو گا۔ اصلاحات اور شفافیت، بچت کی ترغیبات، سرمائے کی نقل و حرکت کے کنٹرول کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ لیکویڈیٹی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ چین اپنی مالیاتی منڈیوں اور سرمائے کی برآمدات دونوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندی لگاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ پابندیاں ہٹا دی جاتی ہیں، تو نجی سرمایہ ان کے دائرہ اختیار میں جائے گا۔

تاہم، ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ یوآن آہستہ آہستہ ایک ریزرو کرنسی بن سکتا ہے۔ امریکی اور یورپی ماہرین اقتصادیات نے ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین اپنی کرنسی میں تجارتی تصفیوں کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے، اس طرح اس کے تجارتی شراکت داروں کے مرکزی بینکوں میں یوآن جمع ہو رہے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’چین کی اپنی کرنسی کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش یوآن کے غلبہ کو یقینی نہیں بنائے گی، بلکہ ایک کثیر قطبی کرنسی کی دنیا جہاں ڈالر، یورو اور یوآن ایک ساتھ موجود ہوں گے۔‘

یہ ٹھیک ہے مگر ایسا ہونا ابھی بہت دور ہے۔ یوآن میں پیسے رکھنے کے قابل ہونا ایک چیز ہے، اس کی خواہش کرنا دوسری چیز۔

دنیا بھر میں ڈالر کی خرید و فروخت کی صلاحیت لامحدود ہے، جبکہ یوآن کی تجارت چین سے باہر صرف ہانگ کانگ اور چند درجن چھوٹے مراکز میں ہوتی ہے۔

مورخ فرگوسن ڈالر، یورو اور یوآن کے درمیان غلبے کی دوڑ کو ’کچھوے کی دوڑ‘ کہتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے حریف ممالک ہی ڈالر کا متبادل تلاش کر رہے ہیں، ترقی یافتہ جمہوریتوں اور امریکہ کے اتحادیوں کو ڈالر سے بالکل کوئی ’الرجی‘ نہیں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.