خواجہ معین الدین چشتی کیاس درگاہ کے روحانی فیض کا شہرہ سن کر انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش سے دور امریکہ، فرانس اور جرمنی کے سیاست دان بھی اجمیر میں ان کے مزار پر چادر چڑھانے پہنچتے ہیں۔
’ایک ایسے وقت میں جب انڈیا میں سماجی انصاف کی جگہ شدید ناانصافی تھی اور کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔ اس دوران کچھ اولیا تھے جنھوں نے غریبوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی فریادیں سنیں۔ ان کی طرح وہ بھی غربت میں رہتے اور کئی کئی دن بھوکے رہ کر معاشی تفاوت کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔'
یہ الفاظ مشہور مصنف اور مورخ راہل سنکرتیان کے ہیں۔ راہل سنکرتیان نے مغل حکمراں اکبر اور ان کے دور پر لکھی اپنی مشہور کتاب 'اکبر' میں کچھ صوفی بزرگوں کو سماجی برابری دلانے والا یا کمیونسٹ کہا ہے جن میں صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اولیت رکھتے ہیں۔
معین الدین چشتی ایران کے سنجر (سیستان) میں پیدا ہوئے۔ وہ واحد مسلمان بزرگ ہیں جن کی شہرت برصغیر پاک و ہند میں مذاہب یا فرقوں کی تنگ نظری کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی پنچی۔
اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ برصغیر پاک و ہند میں سب سے زیادہ قابل احترام درگاہوں میں سے ایک ہے۔
لیکن ان دنوں وہ کچھ مختلف وجوہات سے خبروں میں ہے۔ یہ ایک ایسی مقدس درگاہ ہے، جہاں خواتین بغیر کسی پابندی کے داخل ہوتی ہیں۔ غیر مسلم خواتین بھی بڑی تعداد میں پہنچتی ہیں اور منتیں مانگتی ہیں۔
اس درگاہ کے روحانی فیض کا شہرہ سن کر انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش سے دور امریکہ، فرانس اور جرمنی کے سیاست دان بھی وہاں چادر چڑھانے پہنچتے ہیں۔
یہ برصغیر پاک و ہند میں تصوف، سیاست اور ولایت کی روایت کا منفرد گلستان ہے۔
ایسا گلستان جس نے مذہب، فرقہ اور جغرافیہ کی تمام حدیں توڑ کر اپنی خوشبو اور فیض چاروں جانب پھیلایا ہے۔
غریب نواز کی مہمان نوازی
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہم درگاہ کی تاریخ کی کتنی چھان بین کرتے ہیں۔ یہاں اس ولی اللہ کو جاننا اہم اور دلچسپ ہے کہ یہ کس کے نام پر بنائی گئی ہے۔ ’غریب نواز‘ کے نام سے مشہور خواجہ کی پیدائش سنہ 1142 میں ہوئی۔
خواجہ اپنے زمانے کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ عثمان ہارونی کے شاگرد رہے اور سنہ 1192 میں پہلے لاہور، پھر دہلی اور پھر اجمیر پہنچے۔
اس سے پہلے وہ بغداد اور ہرات کے راستے کئی بڑے شہروں میں صوفیوں سے فیض حاصل کر چکے تھے۔
اجمیر میں خواجہ کی آمد شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج کے درمیان ترائن کی لڑائی کے بعد ایک ایسے وقت میں ہوئی جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت شروع ہو رہی تھی۔ یہ قطب الدین ایبک، التمش، آرام شاہ، رکن الدین فیروز اور رضیہ سلطان کا دور تھا۔
خواجہ بہت پرفتن دور کے بزرگ اور صوفی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی شہرت سن کر التمش خود ایک بار ان سے ملنے پہنچے۔
کہا جاتا ہے کہ رضیہ سلطان بھی کئی بار ان کے ہاں پہنچی تھیں۔
وہ کہتے تھے کہ انسان پرسکون رہ کر کسی کے بھی جبر کا جواب انتہائی جمالیاتی انداز میں دے سکتا ہے۔ یہ وہ پیغام تھا جس کے لیے اس وقت ہندوستان کے لوگ پیاسے تھے۔
مشہور سماجی مصلح اور آریہ سماج کے پیروکار ہرولاس سردا نے اپنی کتاب ’اجمیر: ہسٹاریکل اینڈ ڈسکرپٹو‘ میں ان کے زہد و تقوی کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ پیوند والے کپڑے پہنا کرتے تھے۔ وہ اوپر انگرکھا اور نیچے دو ٹکڑوں کو جوڑ کر دوتائی پہنتے تھے۔
اس کتاب میں انھوں نے اس درگاہ کو اجمیر کے تاریخی کارنامے کے طور پر بیان کیا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خواجہ ہمیشہ فاقہ کشی کرتے تھے اور ایک روٹی کئی کئی دنوں تک چلتی تھی۔ لیکن ان کے ہاں بھوکوں کے لیے ہر وقت لنگر تیار رہتا تھا۔ نامعلوم اور بھوکے غریبوں کے ساتھ ان کی مہمان نوازی کے قصے بہت مشہور ہیں۔
خواجہ کی وفات 1236 میں ہوئی۔ اس وقت تک ان کا نام ملک میں بہت مشہور ہو چکا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ خواجہ کئی دنوں تک مراقبہ میں رہا کرتے تھے اور ایسے ہی ایک مراقبے کے دوران کی قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
مورخ رانا صفوی لکھتی ہیں: ’خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے وعظ سے بادشاہوں اور کسانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اجمیر کا نام سنتے ہی خواجہ غریب نواز اور ان کی درگاہ کی تصویر ذہن میں آجاتی ہے۔ یہ ولی سمندر کی طرح سخی اور زمین کی طرح مہمان نواز تھے۔‘
درگاہ کیسے بنی؟
خواجہ کی وفات کے بعد اسی جگہ پر ایک درگاہ تعمیر کی گئی جسے 13ویں صدی میں دہلی سلطنت کی سرپرستی حاصل تھی۔
اس کے بعد پرآشوب دور میں تقریباً دو سو سال تک کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔
لیکن مانڈو کے سلطان محمود خلجی اور ان کے بعد غیاث الدین نے پہلی بار یہاں مستقل مقبرہ بنایا اور ایک خوبصورت گنبد تعمیر کرایا۔
محمد بن تغلق غالباً پہلا شہنشاہ تھے جنھوں نے 1325 میں درگاہ کی زیارت کی۔
تغلق حکمران ظفر خان نے سنہ 1395 میں درگاہ پر حاضری دی تھی۔ اس دورے کے دوران ظفر خان نے درگاہ سے وابستہ لوگوں کو بہت سے تحائف دیے تھے۔
مانڈو کے خلجی نے سنہ 1455 میں اجمیر پر قبضہ کیا جس سے درگاہ کو وسیع سرپرستی ملی اور اس جگہ ایک بلند و بالا دروازہ اور ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی۔
اس وقت تک یہاں کوئی ٹھوس ڈھانچہ نہیں تھا۔
مورخین کے مطابق اصل درگاہ لکڑی سے بنی تھی۔ بعد میں اس پر پتھر کی چھتری بنوائی گئی۔
مورخ رانا صفوی کے مطابق ’درگاہ کے احاطے میں تعمیر کا پہلا ٹھوس ثبوت درگاہ کا گنبد ہے، جسے سنہ 1532 میں سجایا گیا تھا، جس کا ثبوت مزار کی شمالی دیوار پر سنہری حروف میں لکھا ہوا ایک نوشتہ ہے۔‘
’یہ وہ خوبصورت گنبد ہے جو آج ہم دیکھتے ہیں۔ ہند اسلامی فن تعمیر کو مدنظر رکھتے ہوئے گنبد کو کمل سے سجایا گیا ہے اور اس کے اوپر رام پور کے نواب حیدر علی خان کی طرف سے پیش کردہ سنہری تاج رکھا گیا ہے۔‘
فضل اللہ جمالی (وفات 1536) کے مطابق اس وقت یہ مزار سبزوار، میہنا، زیل، بغداد اور ہمدان کے لوگوں میں مشہور تھی۔
جمالی نے شیخ معین الدین چشتی کے بارے میں بہت سی کہانیاں جمع کی تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ درگاہ پر بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے اور ہندوؤں کی جانب سے مجاوروں کو تحائف بھی دیے جاتے تھے۔
مغل بادشاہ اکبر درگاہ کو درگاہ سے عقیدت
جس وقت اکبر نے پہلی بار درگاہ کا دورہ کیا یہ چشتی صوفیانہ روایات کی ایک مقبول زیارت گاہ کے طور پر ابھر چکا تھا۔
راہل سنکرتیان اپنی کتاب ’اکبر‘ میں لکھتے ہیں: ’ایک رات اکبر آگرہ کے قریب ایک گاؤں سے شکار کے لیے جا رہا تھا، جب اس نے کچھ گلوکاروں کو خواجہ اجمیری کی تعریف کرتے سنا تو ان کے دل میں خواجہ کے لیے عقیدت پیدا ہوئی اور جنوری 1562 کے وسط میں وہ چند لوگوں کے ساتھ اجمیر کے لیے روانہ ہوئے۔‘
ابوالفضل نے اس کی بابت لکھا ہے کہ ’ایک رات جب عالی شان شکار کے لیے فتح پور گئے تو آگرہ سے فتح پور کے راستے میں ایک گاؤں میں کچھ لوگ خواجہ معین الدین کی شان میں خوبصورت گیت گا رہے تھے۔ مقدس ہیں وہ جو اجمیر میں رہتے ہیں۔ جن کے کارنامے اور معجزات مشہور ہیں۔‘
مغل بادشاہ اکبر کو درگاہ سے گہری عقیدت تھی۔
راہل سنکرتیان نے لکھا ہے کہ ’اپریل سنہ 1572 میں دل میں اولاد کی خواہش لیے اکبر پیدل سفر پر روانہ ہوئے اور 14 میل فی دن کی رفتار سے 16 مراحل عبور کرنے کے بعد اجمیر پہنچے۔‘
تاہم بعض حوالوں کے مطابق وہ بچے کی منت کے لیے فتح پور سیکری میں شیخ سلیم چشتی کی درگاہ پر ننگے پاؤں گئے تھے۔
اکبر ہر سال آگرہ سے اجمیر تک پیدل درگاہ جاتے تھے۔ اکبر نے درگاہ میں ایک مسجد بھی بنوائی جسے اکبری مسجد کہا جاتا ہے۔
مورخ ابوالفضل لکھتے ہیں: ’اکبر پہلے مغل حکمران تھے جنھوں نے پہلی بار 1562 میں درگاہ کا دورہ کیا اور انھوں نے درگاہ سے وابستہ لوگوں کو 'تحفے اور عطیات' دیے۔‘
1568 میں اکبر پیدل درگاہ پر پہنچے تاکہ وہ اپنی سابقہ منت کو پورا کر سکے۔
جب اکبر نے دیکھا کہ یہاں ہزاروں غریبوں اور زائرین کے لیے لنگر کا اہتمام کیا گیا ہے تو انھوں نے اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اجمیر، چتور اور رنتھمبور کے 18 گاؤں لنگر کے نام کر دیے۔
اکبر نے جب دیکھا کہ اتنے لوگوں کے لیے لنگر پکانے میں دقت ہو رہی ہے تو انھوں نے درگاہ کے لیے پیتل کی ایک بڑی دیگ عطیہ کی۔ فی الحال درگاہ میں موجود دیگیں اکبر کے دور کی بتائی جاتی ہیں۔
لیکن اجمیر کے رہنے والے ہرولاس سردا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’اکبر اور جہانگیر کے دیے ہوئے دیگ اب لنگر پکانے کے قابل نہیں رہے تھے، اس لیے سندھیا کے ایک وزیر ملا مداری نے سیٹھ اکھے چند مہتا کی نگرانی میں دو بہت اچھی کڑیاں بنوائیں۔ یہ بھی خراب ہو گئے تو نظام حیدرآباد نے دو غیرمعمولی دیگیں فراہم کیں، لیکن درگاہ شریف کے خدمت گار صرف اکبر کے دیے ہوئے دیگوں کا ذکر کرتے ہیں۔‘
1614میں جہانگیر نے ایک اور دیگ متعارف کروائی تھی۔ آج دستیاب دیگچیوں میں بیک وقت 72 ہزار افراد کے لیے کھانا پکایا جا سکتا ہے۔
اکبر نے 1569 میں اجمیر میں ایک مسجد اور خانقاہ بنانے کی ہدایت دی تھی۔ سرخ سینڈ سٹون میں تعمیر اکبری مسجد انہی احکامات کا نتیجہ ہے۔ شاہجہاں نے بھی سنہ 1637 میں ایک خوبصورت مسجد بنوائی اور یہ شاہجہانی دروازے کے ساتھ درگاہ کے مغرب میں ہے۔
درگاہ کو 25 فیصد نمک سمبھر جھیل سے ملا جس سے سات روپے آئے اور درگاہ کے لنگر کے لیے مجموعی طور پر پانچ ہزار سات روپے دیے جاتے تھے۔
بیرم خان کی حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد 1560 کا ایک سند ہے جس میں درگاہ کے خادم کو 20 بیگھہ زمین دینے کا ذکر ہے۔
مغل حکمرانوں کا درگاہ سے گہرا تعلق
1562 میں اکبر کی اجمیر کی پہلی زیارت سے پہلے بھی درگاہ کو سرپرستی حاصل تھی اور یہ مغلوں کے اقتدار میں آنے تک اور اس کے بعد بھی جاری رہی۔
درگاہ کے معاملات میں دلچسپی دراصل اکبر کی ہندوستانی عناصر کو اپنے حکمران طبقے میں شامل کرنے کی پالیسی سے شروع ہوتی ہے۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ مغل روایتی طور پر تصوف کے نقشبندی سلسلے کے پیروکار تھے۔
اس سلسلے کے صوفیاء سے ان کے ازدواجی تعلقات تھے۔ یہ وراثت تیمور کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ سب سے پہلے تیمور نے خواجہ عطاء کا مقبرہ بنایا اور ان کے مزار کو عزت بخشی۔
اکبر نہ صرف خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ بلکہ دہلی میں دیگر چشتی صوفیاء کے مقبروں پر بھی جایا کرتے تھے۔
مورخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ درگاہ کی اہمیت نہ صرف اکبر کے روحانی فائدے کے لیے تھی بلکہ اس نے ہندوستان میں مغل حکومت کی مقبولیت میں بھی مدد کی۔
اکبر نے اپنے بیٹوں کا نام چشتی صوفیاء کے نام پر رکھا۔ شیخ سلیم کے نام پر بادشاہ جہانگیر کا نام سلیم تھا جبکہ درگاہ اجمیر کے خادموں میں سے ایک شیخ دانیال کے نام پر ایک بیٹے کا نام دانیال رکھا۔
شاہجہاں اور دیگر مغل بادشاہوں نے بھی درگاہ کی تعمیر میں تعاون کیا۔ شاہجہاں نے یہاں سنگ مرمر کی ایک خوبصورت مسجد بنوائی جسے شاہجہاں مسجد کہا جاتا ہے۔
مغل حکمران درگاہ سے اس قدر گہرے تعلق رکھتے تھے کہ درگاہ میں اس بھشتی کی قبر بھی ہے جس نے شہنشاہ ہمایوں کو گنگا میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔
بدلے میں ہمایوں نے اس بھشتی کو آدھے دن کی حکومت دی تھی جس دوران اس نے چمڑے کی کرنسی کا حکم دیا تھا۔
ایک صوفی شہزادی اور شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم نے درگاہ میں کچھ خوبصورت محرابیں بنوائی تھیں۔
جہاں آرا بیگم نے ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم بھی بنایا تھا جسے بیگمی پلیٹ فارم کہا جاتا ہے۔
یہ درگاہ برطانوی دور حکومت میں بھی روحانی اہمیت کا مرکز رہی۔ تاہم انتظامی نظام میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔
درگاہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے عقیدت کا مرکز بن گئی۔
یہاں منعقد ہونے والے سالانہ عرس اور میلے نے لاکھوں عقیدت مندوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا، جو اب بھی درگاہ کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
جدید دور میں درگاہ کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہے، تاکہ عقیدت مندوں کو بہتر تجربہ حاصل ہو سکے۔ یہ اب بھی ایک مذہبی اور سیاحتی مقام کے طور پر مشہور ہے۔
درگاہ نہ صرف غریبوں، ناداروں یا مذہبی سوچ رکھنے والوں کے لیے راحت کا ذریعہ رہی ہے بلکہ اس نے سیاسی اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان ایک 'تار' کا کام بھی کیا ہے۔
یہ جگہ اتنی محترم تھی کہ دشمنی کے باوجود مقامی طاقتوں نے لوگوں کو یہاں آنے سے نہیں روکا۔
تعمیرات
بلند دروازہ: مرکزی دروازہ۔
محفل خانہ: جہاں قوالی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
شاہجہاں مسجد: مغل فن تعمیر کا بہترین نمونہ۔
جنتی دروازہ: مانا جاتا ہے کہ اسے عبور کرنے سے خواہش پوری ہوتی ہے۔
روحانی اور ثقافتی اہمیت
درگاہ محبت، خدمت اور اتحاد کی صوفی اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ قوالی موسیقی اور صوفی ادب کا مرکز ہے۔
درگاہ تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت ہے۔
اہم تقریبات
عرس میلہ: یہ خواجہ معین الدین چشتی کی برسی کا عرس ہے جو اسلامی مہینے رجب کے پہلے چھ دنوں میں منایا جاتا ہے۔
میلاد النبی: پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر خصوصی دعائیں اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
تصوف کے چشتیہ سلسلے کے طرز عمل اور نظریات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی نے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کر کے روحانیت کے میدان میں ایک نیا سنگِ میل قائم کیا جو پہلے ہندوؤں کی ایک بڑی زیارت گاہ تھی۔
پوری دنیا میں برہما کا واحد مندر وہیں ہے اور اس کے ساتھ ایک انوکھی درگاہ ہے جو روحانیت کے دروازے ایک ساتھ کھولتے ہیں، جہاں ذہنی خوشی اور سکون کی متلاشی نہ جانے کس جگہ سے اور کیسی کیسی مرادیں لے کر آتے ہیں۔