عقوبت خانے، بارودی سرنگیں اور خفیہ فائلیں: شام کی سکیورٹی ایجنسیوں کے دفاتر میں بی بی سی نے کیا دیکھا؟

بی بی سی عربی کے نمائندے فیراس کیلانی شام میں بشار الاسد حکومت کے ان خفیہ تہہ خانوں تک گئے ہیں جن کے بارے میں شامی عوام میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے یہاں لوگوں کو قید رکھ کر تشدد کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دنیا ہے جس تک بہت ہی کم لوگوں کو رسائی حاصل ہو سکی ہے۔
شام
BBC
ان سیلز میں کئی ماہ تک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا

بی بی سی عربی کے نمائندے فیراس کیلانی شام میں بشار الاسد حکومت کے ان خفیہ تہہ خانوں تک گئے ہیں جن کے بارے میں شامی عوام میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے یہاں لوگوں کو قید رکھ کر تشدد کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دنیا ہے جس تک بہت ہی کم لوگوں کو رسائی حاصل ہو سکی ہے۔

تہہ خانے میں شام کی سرکاری سکیورٹی ایجنسی کا ہیڈکوارٹرز ہے جہاں ہم نے ملک کی خفیہ انٹیلیجنس کے اس نیٹ ورک کو دیکھا جس کی بدولت اسد خاندان دہائیوں سے شام پر حکمرانی کر رہا تھا۔

یہاں ہر سیل کے دروازے موٹے سٹیل کے ہیں۔ یہاں قطار در قطار وہ چھوٹے چھوٹے سیل موجود ہیں جہاں قیدیوں کو پابند سلاسل رکھا جاتا تھا۔

ان میں سے ایک کے اندر ہم نے جھانک کر دیکھا تو یہ محض دو میٹر لمبا اور ایک میٹر چوڑا تھا۔ اس کی دیواروں پر کالے دھبے گندی دیواروں کے عکاس ہیں۔

یہاں جو روشنی آتی ہے وہ اونچی دیواروں پر نصب لوہے کی جالی سے گزر کر سورج کی وہ شعاعیں ہیں، جو نیچے پہنچتی ہیں۔

فیراس کیلانی، شام
BBC
بی بی سی عربی کے نمائندے فیراس کیلانی شام میں بشار الاسد حکومت کے خفیہ تہہ خانوں تک گئے ہیں

ان سیلز میں مغویوں کو کئی ماہ تک قید رکھا جاتا، ان سے پوچھ گچھ ہوتی اور ان پر تشدد کیا جاتا۔

یہ سیل وسطی دمشق کے مصروف ضلع کفر سوسا میں سڑک کی سطح سے نیچے واقع ہیں۔

ہر روز ہزاروں عام شامی شہری یہاں سے گزر کر اپنے معمول کے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں جہاں ان کے ہم وطنوں کو قید میں رکھا گیا تھا اور ان پر تشدد کیا جاتا رہا۔

راہداری میں اب یہاں فرش پر شام کے معزول صدر بشار الاسد کی پھٹی پرانی تصاویر پڑی ہیں۔ یہاں پر ان فائلوں کا بھی ذخیرہ ہے جن کو خفیہ ایجنسیاں لاکھوں شامی شہریوں کو مانیٹر کرنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔

یہاں عارضی طو پر قیدیوں کو رکھا جاتا اور پھر طویل عرصے کی قید کے لیے انھیں دارالحکومت کے نواحی علاقوں میں واقع بدنامِ زمانہ ’صیدنایا جیل‘ جیسے عقوبت خانوں میں منتقل کر دیا جاتا۔

یہ عقوبت خانہ بھی اس وسیع نیٹ ورک کا حصہ تھا جسے سابق شامی حکومت چلاتی تھی۔

شام
BBC
عقوبت خانوں کی دیواروں پر شام کے سابق حکمران حافظ اسد جو بشار الاسد کے والد بھی تھے کی تصاویر چسپاں ہیں

شام کی ایک آزادانہ مانیٹرنگ کرنے والی تنظیم ایس این ایچ آر کے مطابق جولائی 2011 میں بشار الاسد حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد سے ان عقوبت خانوں میں گذشتہ برس جولائی تک تشدد سے 15,102 اموات ہوئیں۔

ایک اندازے کے مطابق 130,000 افراد کو رواں برس اگست تک یہاں زبردستی قید میں رکھا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ دہائیوں تک شام کی سابقہ حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے تشدد اور جبری گمشدگیوں کا سہارا لیتی تھی۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی انٹیلیجنس ایجنسیز احتساب سے بالاتر ہیں۔

شام، فیراس کیلانی
BBC

شام کے سکیورٹی ہیڈکوارٹرز سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہم جنرل انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ تک پہنچے جو شام کے لیے جاسوسی کرنے والی ایجنسیوں کا ایک اور نیٹ ورک ہے۔

اسد حکومت کے مخالفین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ان تنظیموں میں سے ایک ہے جو شام کے عام شہریوں سے متعلق تمام تر تفصیلات اور سرگرمیوں کی جاسوسی کرتی تھی۔

اس کے اندر ہمیں ایک کمپیوٹر سرور روم ملا۔ اس کی دیواریں سفید ہیں اور بلیک ڈیٹا سٹوریج بھی یہاں جگہ جگہ رکھی گئی ہے۔

دمشق کے زیادہ حصے میں بجلی منقطع کی گئی مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ جگہ بہت خاص ہے کیونکہ یہاں کے لیے بجلی کی ترسیل کا ایل علیحدہ نظام موجود ہے۔

ڈیجیٹل سسٹم کے باوجود یہاں پیپر ریکارڈ بھی بہت زیادہ رکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ سب ابھی بھی محفوظ ہے۔

یہاں جگہ جگہ نوٹ بکس اور ریکارڈہے جبکہ دیوار کے ساتھ لوہے کی ٹوٹی پھوٹی الماریاں فائلوں سے بھری پڑی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ یہاں پر مامور تھے انھیں یہاں سے نکلنے سے قبل وقت ہی نہیں مل سکا کہ وہ اس ریکارڈ کو تلف کر سکتے۔

یہ ریکارڈ کئی برسوں پر محیط ہے اور اس میں سے کچھ بھی تباہ یا ضائع نہیں کیا گیا۔ ہم نے یہاں ایسے ڈبے بھی دیکھے ہیں جن میں کارتوس رکھے گئے ہیں۔

Landmines in a box
BBC

دوسرے حصے میں مارٹر اور بارودی سرنگوں سمیت دیگر ہتھیار موجود ہیں۔

ہمارے ساتھ ہیئت تحریر الشام، وہ اسلامی گروپ جو اب دمشق کا حکمران ہے، کے ایک جنگجو بھی موجود تھے۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ یہ ہتھیار یہاں پر کیوں ہیں؟

انھوں نے کہا کہ اسد حکومت کے دنوں میں روس کے تعاون سے تمام سرکاری اداروں کو ہیڈکوارٹرز میں بدل دیا گیا تاکہ شامی شہریوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے اور انھیں دباؤ میں رکھا جا سکے۔

جنرل انٹیلیجنس ڈائریکٹوریٹ میں موجود دستاویزات کا یہ پہاڑ اور کمپیوٹر ریکارڈ ان لوگوں تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے جو تشدد اور ظلم و بربریت میں ملوث رہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جو بھی گذشتہ دور حکومت میں قیدیوں پر تشدد اور ان کے قتل میں ملوث رہا، انھیں ڈھونڈا جائے گا اور ان کی معافی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ٹیلی گرام پر ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’ہم شام میں ان کا تعاقب کریں گے اور ہم دیگر ممالک سے بھی کہیں گے کہ جو یہاں سے فرار ہو کر جا چکے ہیں انھیں ہمارے حوالے کیا جائے تاکہ ہم انصاف کے حصول کو ممکن بنا سکیں۔‘

مگر یہاں کے سکیورٹی نیٹ ورک کے اثرات سرحد کے پار بھی جا سکتے ہیں۔

ہمیں ایسی متعدد فائلیں بھی ملی ہیں جن میں سوڈان، لبنان اور عراق سے متعلق بہت سی معلومات ہے۔

اگر یہ دستاویزات عام کر دی جاتی ہیں اور ان ممالک کے سرکردہ شخصیات کے اسد کے سکیورٹی سروسز سے رابطوں کو سامنے لایا جاتا ہے تو اس سے پورے خطے میں بھونچال آ سکتا ہے۔

اس ریکارڈ سے اگر بشار الاسد دور کے سکیورٹی اہلکاروں کی تفصیلات عام کر دی جائیں تو پھر انھیں بہت کچھ بھگتنا پڑے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.