کیا اسمارٹ واچ آپ کی صحت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے؟ حیران کن انکشاف

image

ایک تازہ تحقیق نے اسمارٹ واچز اور فٹنس ٹریکر استعمال کرنے والوں کے لیے چونکا دینے والی حقیقت بے نقاب کر دی ہے۔ سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان ڈیوائسز کے کلائی پر باندھے جانے والے پٹے ’فار ایور کیمیکل‘ نامی خطرناک مواد کا گڑھ ہوسکتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

تحقیق میں پتہ چلا کہ خاص طور پر فلورینیٹڈ سنتھیٹک ربڑ جیسے مہنگے مواد سے بنے پٹے بڑی مقدار میں پرفلورو ہیگزانوئک ایسڈ جیسے زہریلے کیمیکلز رکھتے ہیں۔ یہ کیمیکل پی ایف ایز کے نام سے معروف ایک گروپ کا حصہ ہے، جو روزمرہ استعمال کی کئی اشیاء میں موجود ہوتا ہے اور صحت کے کئی مسائل، جیسے ہارمونز کی خرابی اور قوت مدافعت میں کمی، کا سبب بن سکتا ہے۔

پی ایف ایز کی خصوصیات، جیسے پانی، پسینے اور چکنائی سے بچاؤ، انہیں عام مصنوعات میں مقبول بناتی ہیں، لیکن یہ کیمیکل اپنی مضبوط ساخت کی وجہ سے ماحول میں ختم نہیں ہوتے۔ اسی مزاحمت کی وجہ سے یہ کیمیکل طویل عرصے تک انسانی جلد سے جُڑے رہ سکتے ہیں، جس سے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

تحقیق کے سربراہ، یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے پروفیسر گراہم پیسلے کے مطابق، "ہمارے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ان پٹوں میں موجود کیمیکلز ہماری جلد کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، جس سے ان کے مضر اثرات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔"

تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ 30 ڈالر یا اس سے زائد قیمت والے پٹے سستے پٹوں کے مقابلے میں زیادہ فلورین رکھتے ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قیمت زیادہ ہونے کا مطلب ہمیشہ محفوظ ہونا نہیں ہے۔

اگر آپ اسمارٹ واچ یا فٹنس ٹریکر استعمال کر رہے ہیں تو یہ خبر آپ کے لیے ایک وارننگ ثابت ہوسکتی ہے۔ شاید یہ وقت ہے کہ آپ اپنی کلائی پر موجود پٹے کو دوبارہ جانچیں اور محفوظ متبادل پر غور کریں۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.