شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو ایران کے لیے ایک بڑے دھچکے کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ایران نے معزول صدر کو اقتدار میں رکھنے کے لیے وہاں کافی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد نہ صرف ایران کے مغربی ممالک سے تعلقات خراب ہوئے بلکہ خطے میں بھی اس کے مخالفین میں اضافہ ہوا تھا۔
صرف ایک برس بعد ہی سنہ 1980 میں عراق نے ایران پر حملہ کر دیا اور یہ جنگ سنہ 1988 تک جاری رہی۔
اس وقت ایران اور سعودی عرب کے تعلقات تیزی سے خراب ہوئے اور ان تعلقات میں آج تک سرد مہری نظر آتی ہے۔ انقلابِ ایران کے بعد تہران نے شام، یمن، فلسطین اور عراق میں اپنے زیرِ اثر مسلح گروہوں کی حمایت کی، جو کہ آگے جا کر ایک بڑی طاقت کے روپ میں اُبھرے۔
لیکن یہ طاقت اب کم ہو رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت شام میں بشار الاسد کی معزولی ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو ایران کے لیے ایک بڑے دھچکے کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ایران نے معزول صدر کو اقتدار میں رکھنے کے لیے وہاں کافی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
اب لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ شام میں لگے ایرنی سرمایے کا کیا ہوگا؟ یہ آوازیں ایران کے اندر بھی اُٹھ رہی ہیں اور انھیں ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی پالیسی پر بھی ایک سوالیہ نشان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایرانی صحافی اور تجزیہ کار محمد مہاجری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’بشار الاسد آخری الیکشن 95 فیصد ووٹوں سے جیتے تھے۔
’لیکن تین سال بعد ہی جب انھیں اقتدار سے باہر دھکیلا گیا تو ایک بھی شامی شہری ان کے دفاع کے لیے باہر نہیں آیا۔‘
ایران میں لوگوں کے سوالات
بعد ازاں محمد مہاجری نے بغیر کوئی وضاحت دیے ایکس سے اپنی پوسٹ حذف کر دی۔ لیکن ایران میں دیگر لوگ ضرور پوچھ رہے ہیں کہ گذشتہ 14 برسوں میں ایران نے جو شام کو قرض دیا تھا اس کا اب کیا ہوگا؟
یہ بات واضح ہے کہ شام میں اقتدار میں آنے والے باغی گروہ کا رویہ ایران کے ساتھ مختلف ہوگا۔ ایران اور روس نے بشار الاسد کی حمایت کی تھی اور یہ باغی گروہ ان تینوں طاقتوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔
تاہم اب ایران اور روس دونوں ہی نئی شامی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب بشار الاسد کو شام چھوڑنے اور روس فرار ہونے پر مجبور کیا گیا تو ایران کی جانب سے بہت ہی نپا تُلا ردِ عمل سامنے آیا۔
ایران کی جانب سے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’شام آج تاریخ کے ایک مشکل موڑ پر کھڑا ہے۔ اس صورتحال میں بیرونی ممالک سے زیادہ شامی شہریوں کی حفاظت زیادہ اہم ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نئی شامی حکومت کے ساتھ مشترکہ مفادات پر ماہمی تعلقات جاری رہیں گے۔‘
ایران نے شام کو کتنا قرض دیا تھا؟
سرکاری طور پر تاحال یہ معلومات منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں کہ ایران نے شامی صدر بشار الاسد کو کتنا قرض دیا تھا لیکن ایران میں سوشل میڈیا پر یہ موضوع زیرِ بحث ہے۔
7 دسمبر کو سابق ایرانی رُکنِ پارلیمان بحرام پارسائی نے دعویٰ کیا کہ ایران نے بشار الاسد کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ رقم قرض کی مد میں دی تھی۔
یہ رقم صرف بحرام پارسائی کا اندازہ ہے، کہا جا رہا ہے کہ اصل رقم اس سے بھی زیاد ہو سکتی ہے۔ شام میں حزِب اختلاف کے گروہوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2011 سے لے کر اب تک ایران نے بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے تقریباً 50 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نتن یاہو نے بھی جمعرات کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ایرانی حکومت نے بشار الاسد کو بچانے کے لیے 30 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں جانتا ہوں کہ ایرانی عوام ابھی کیا محسوس کر رہے ہوں گے۔ ایران کی جابر حکومت نے شام میں بشار الاسد کو بچانے کے لیے 30 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ جس شخص پر انتے پیسے خرچ ہوئے وہ صرف 11 دن کی جنگ میں ہی برباد ہوگیا۔ ایران کی حکومت نے غزہ میں حماس کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔'
'حماس بھی اب معذور ہو چکی ہے۔ آپ کی حکومت نے لبنان میں حزب اللہ کو بچانے کے لیے 20 ارب ڈالر خرچ کیے اور صرف چند ہی ہفتوں میں حزب اللہ تباہ ہوگئی۔ آپ کی حکومت آپ کا پیسہ چُرا رہی ہے اور ضائع کر رہی ہے۔ یہ پیسہ ایران میں سڑکیں، سکول بنانے اور دیگر ترقیاتی کام پر بھی خرچ ہو سکتا تھا۔'
بشار الاسد کے دورِ اقتدار میں ایران اور شام کے درمیان گہرے تجارتی تعلقات بھی تھے۔ ایران نے شام میں نہ صرف سرمایہ لگایا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان کاروبار زائرین کے سبب بھی پھلتا پھولتا رہا۔
اب ایران کے پیسے کا کیا ہوگا؟
کموڈٹی انٹیلیجنس فرم کپلر کے مطابق گذشتہ کچھ برسوں سے ایران تیل کے 70 سے 80 ہزار بیرل یومیہ شام برآمد کر رہا تھا۔
اگر ہم اسے 60 ہزار بیرل بھی تصور کر لیں اور ایک بیرل کی قیمت 50 ڈالر لگا لیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران سالانہ ایک ارب ڈالر کا تیل شام بھیج رہ تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنہ 2011 سے سنہ 2024 تک ایران نے تقریباً 14 ڈالر کا صرف تیل شام بھیجا ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے شام کو ہتھیار، کارباری اشیا، گاڑیوں کے پرزے اور دوائیں بھی فراہم کی ہیں۔
کیا شام نے ان تمام اشیا کی مد میں ایران کو کبھی پیسے دیے؟ یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایران لبنان میں حزب اللہ کو بھی ضروری اشیا شام کے ذریعے ہی بھیجا کرتا تھا۔
یہاں تک کہ جب باغی گروہوں نے شامی حکومت کو شکست دینا شروع کی تب بھی شام میں ایرانی تیل بھیجا جا رہا تھا۔
8 دسمبر کو ٹینکر ٹریکر نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ 'بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی خبر سُن کر ایرانی ٹینکر نے خلیج سوئیز میں یو ٹرن لے لیا۔ یہ ایرانی جہاز 75 ہزار بیرل تیل شام کے لیے لے کر نکلا تھا، لیکن اب یہ واپس جا رہا ہے۔'
ایران کے عسکری اور سکیورٹی بجٹ میں بھی شام ایک اہم حصہ رہا ہے۔ ایران نے شام میں انفراسٹرکچر اور انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ اس کے علاوہ ایران زائرین دمشق میں شیعہ مزارات پر بھی ایک بڑی تعداد میں جایا کرتے تھے۔
اسی دوران ایران شام کے ساتھ مفت تجارت کے منصوبے پر کام کر رہا تھا اور ایرانی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک بِل کی بھی منظوری دے دی تھی۔
ایران کو امید تھی کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد ان تمام ترقیاتی کاموں کے طفیل اسے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ اسی لیے ایران نے شام میں سرکاری حکام کو بھی تعینات کر رکھا تھا۔
شام میں ایرانی سرمایہ کاری کی حقیقی لاگت کیا ہے؟
ایرانی پارلیمان کے سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کمشن کے رکن یعقوب رضازادی کے مطابق تقریباً 10 ہزار ایرانی شام میں تعینات تھے۔ جب ان سے شام پر ایرانی قرض کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ 'میرے پاس 30 ارب ڈالر کے قرض کے حوالے سے مصدقہ معلومات موجود نہیں لیکن میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔'
ایرانی حکومت کی پالیسی کے سبب ایسی معلومات اکثر منظرِعام پر نہیں آتی اور اس صورتحال میں ایرانی عوام اپنی ہی حکومت سے وضاحت کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ایران کے صحافی عباس عابدی نے فارسی اخبار 'ہم مہان' میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'سب سے پہلے ہمیں شفاف طریقے سے یہ بتایا جانا چاہیے کہ ایران نے شام میں کیا غلطیاں کیں اور ہم نے وہاں کتنا پیسہ خرچ کیا؟ آزاد ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایسی غلطیاں مستقبل میں بھی ہوتی رہیں گی۔'
اس کے علاوہ پارلیمانی کمیشن برائے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی حشمت اللہ نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ شام کی جنگ ایرانی عوام کی جنگ نہیں تھی اور حکومت کی جانب سے وہاں خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کے حوالے سے بھی کوئی وضاحت نہیں دی جا رہی۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کو ایرانی عوام کی زندگیاں اور املاک داؤ پر نہیں لگانے چاہییں۔ ان کے مطابق بھی شام پر کُل ایرانی قرض 30 ارب ڈالر ہے۔
نئی دہلی میں واقع جواہرلعل نہرو یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر آفتاب کمال پاشا کہتے ہیں کہ ایران نے بشار الاسد پر اربوں ڈالر خرچ کیے تھے اور اب یہ پیسہ واپس ملنا بہت مشکل ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایران اب شامی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوگیا ہے اور اب وہ اربوں ڈالر خود کو مضبوط کرنے پر خرچ کر پائے گا۔
'ایران کو اب لبنان میں حزب اللہ پر اور شام میں بشار الاسد پر اربوں ڈالر نہیں خرچ کرنے پڑیں گے۔ ایران فی الحال تو نقصان برداشت کر رہا ہے لیکن اب وہ یہ پیسہ خود پر لگا سکے گا۔'