سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد سوموٹو کی پاور واپس لے لی گئی ہے۔ سو موٹو اب نہیں لے سکتے۔ 26 ویں آئینی ترمیم بھی کلائمٹ فنانس جیسا بڑا ایشو ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔
لاہور میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے متعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم بھی کلائمٹ فنانس جیسا بڑا ایشو ہے، ہمیں موسمیاتی ایمرجنسی کے لئے مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، واٹر سیکیورٹی سمیت دیگر عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اربن پلاننگ ، ایگریکلچرل پلاننگ پر بات کرنا ہوگی۔ پاکستان میں کلائمٹ فنانس امید کی ایک کرن ہوگا ، یہ لوگوں کو سیکیورٹی دے گا، یہ بنیادی طور پر انسانی حق ہے ، آئینی اعتبار سے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کلائمٹ فنانس کی طرف جانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 7 سال میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، کیسز میں عدالتوں نے ہدایات جاری کیں لیکن گراونڈ پر کچھ نہیں ہوا، یہ دیکھا نہیں گیا کہ ریسورس ہے کہ نہیں، حکومت نے بھی اس کو فوکس نہیں کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ موسمیاتی ایمرجنسی کا پاکستان کو سامنا ہے، کلائمٹ فنانس ہی کلائمٹ جسٹس ہے۔ پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے اثر انداز ہے، عدالتوں نے ہمیشہ موسمیاتی ایمرجنسی کے کیسز کو سنجیدہ لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں انڈسٹریوں کو بند کرنے سے لیکر دیگر عوامل پر بات کی گئی، عمل درآمد کون کرے گا اس پر بات نہیں ہوئی، کلائمٹ فنانس پر بات ہی نہیں ہوئی۔ نیچر فنانس کے بغیر موسمیاتی ایمرجنسی سے لڑا نہیں جاسکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایڈمنسٹریشن کے مسائل ہیں، باکو میں حکومت نے اچھی کوشش کی، کلائمٹ ڈپلومیسی پر جلدی کام کرنے کی ضرورت ہے، حکومت کے پاس ابھی لگتا ہے اتنے پیسے نہیں ہیں،2017 میں میں قانون بنا لیکن ابھی تک اتھارٹی نہیں بنی،جٹ میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا، ہوسکتا ہے جلد بن جائے، عدالتیں سمجھتی ہیں کہ کلائمٹ فنانس کو بنیادی حق سمجھنا ہوگا۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔