منموہن سنگھ اپنی جنم بھومی دیکھنے پاکستان کیوں نہیں آنا چاہتے تھے؟

image

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال کا ’گاہ‘ نامی علاقہ دنیا والوں کے لیے ہی نہیں خود اس ضلع کے باسیوں کے لیے بھی گمنام تھا۔ مگر مئی 2004 کو اچانک اس غیر معروف قصبے کا چرچا پاکستان سے زیادہ پڑوسی ملک انڈیا میں ہونے لگا۔

اس کی وجہ اس وقت منتخب ہونے والے وزیراعظم کا یہاں پیدا ہونا تھا۔

گزشتہ روز انتقال کر جانے والے سابق انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ کا جنم 1932 میں اس وقت کی تحصیل چکوال میں رہائش پذیر گرمکھ سنگھ کے ہاں ہوا تھا۔

بچپن میں والدہ کی وفات اور والد کے پشاور میں کاروبار کی وجہ سے منموہن سنگھ نے اپنے دادا سنت سنگھ اور دادی جمنا دیوی کے زیر سایہ پرورش پائی۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی ملاقات جب وزیراعظم منموہن سنگھ سے ہوئی تو انہوں نے یادگار کے طور پر ان کے آبائی علاقے کی واٹر کلر پینٹنگ تحفے میں پیش کی۔

ان کی بیٹی دمن سنگھ کے مطابق یہ پورٹریٹ من موہن سنگھ کی خوابگاہ میں آویزاں رہتا تھا۔

اُس دور میں دونوں ملکوں کے میڈیا میں گاہ کے پرائمری سکول کے طلبہ کے ناموں والے رجسٹر کی تصاویر گردش کیا کرتی تھیں جس میں بطور طالب علم منموہن سنگھ کا نام بھی درج تھا۔

17 اپریل 1937 کو پرائمری سکول کے استاد دولت رام کے ہاتھوں درج تفصیل میں ان کا رول نمبر 187، ذات کوہلی اور والد کا پیشہ دوکانداری لکھا ہوا ہے۔

چکوال کی ریوڑیاں اور ’گاہ‘ کا پانی 

2008 میں منموہن سنگھ کانگرس کی کامیابی کے بعد دوسری بار انڈیا کے وزیراعظم بنے۔ ان کی بیٹی دمن سنگھ نے اپنی بہن ککی کے ساتھ مل کر ان کی یادداشتوں کو Strictly Personal کے نام سے مرتب کیا جو 2013 میں شائع ہوئی۔

چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد وہ چکوال شہر میں اپنے چاچا گوپال سنگھ کے پاس چلے گئے جہاں خالصہ ہائی سکول میں داخلہ لی۔

چکوال کے گاؤں ’گاہ‘ کا منظر جہاں منموہن سنگھ پیدا ہوئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

نو عمر منموہن سنگھ کا پسندیدہ مشغلہ چکوال کی گلیوں، بازاروں میں گھومنا اور شہر کی عمارتوں کو دلچسپی سے دیکھنا ہوتا تھا۔

دمن سنگھ نے سرچ انجن گوگل کی مدد سے چکوال کے بازاروں، گھروں، گردواروں اور سرکاری عمارتوں کی تصاویر ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے والد کو دکھائیں۔ طویل مدت گزر جانے کے باوجود منموہن سنگھ نے قدیم عمارتوں اور شہر کے راستوں کو درست طور پر شناخت کر لیا۔

انڈین وزیراعظم کی جنم بھومی کے پاکستان میں ہونے کا اثر دونوں ملکوں کے سفارتی  تعلقات پر بھی پڑا۔ ان کے آبائی گاؤں سے ان کے بچپن کے کلاس فیلو راجہ محمد علی انہیں ملنے دلی گئے۔

چکوال سے ان کے خاندان سے واقفیت رکھنے والے اور بچپن میں ان کے ساتھ کھیلنے والے دیگر لوگ بھی وقتاً فوقتاً انہیں ملنے اور اپنے علاقے کی جَم پَل کو انڈین وزیراعظم کے روپ میں دیکھنے کے لیے جانا شروع ہو گئے۔

وزیراعظم منموہن سنگھ کے لیے پاکستان سے ان کے آبائی علاقے کی مٹی  سے بھرا لفافہ وصول کرنے کا منظر بیان کرتے ہوئے دمن سنگھ لکھتی ہیں کہ ’ان کے چہرے پر جذباتی مسکراہٹ اور آنکھوں میں یادوں کی چمک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔‘

ان کی دوسری بیٹی ککی نے انہیں چکوال سے آئی پانی کی بوتل کو محویت اور مسرت سے تکتے ہوئے دیکھا۔

وزیراعظم منموہن سنگھ کے خاندان کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود وہ چکوال کی مشہور زمانہ ریوڑیاں کھانے سے باز نہ آئے۔

برطانوی فوج کی فتح کی مٹھائی کھانے سے انکار 

11 برس کی عمر میں والد انہیں اپنے ساتھ پشاور لے گئے جہاں اندرون شہر میں مہابت خان مسجد کے قریب ان کی خشک میوہ جات کی دکان تھی۔

پشاور کے علاقے بالا حصار میں واقع خالصہ ہائی سکول سے منموہن سنگھ نے 1945 میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔

ان کے والد نے قدیم شہر سے ذرا باہر بسنے والی آبادی گرو نانک پورہ میں اپنا گھر تعمیر کروایا۔ یہ علاقہ اس دور میں سکھوں اور ہندوؤں کی آبادی پر مشتمل تھا۔

گاہ کے پرائمری سکول کی تصویر جہاں سے منموہن سنگھ نے تعلیم حاصل کی۔ فوٹو: اے یف پی

ان کی بیٹی لکھتی ہیں کہ میں نے اپنے والد کو اندرون شہر کا نقشہ دکھانا شروع کیا۔ انہوں نے بہت انہماک سے قدیم عمارتوں، باغات، مسجدوں، مندروں اور سرکاری عمارات کے نام اور ان سے منسلک یادوں کو بتانا شروع کیا۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے نام پر انگلی رکھ کر انہیں بتانے لگے کہ وہ اپنے ہمسائے کی عیادت کے لیے اکثر وہاں جاتے تھے۔

دمن سنگھ نے اپنے والد کی پشاور کی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے لیڈی گریفتھ ہائی سکول کا ذکر جذباتی اور رومانوی انداز میں کیا ہے۔

’یہ لڑکیوں کا سکول تھا۔ وہاں ہمارے پڑوس سے ایک لڑکی پڑھا کرتی تھی۔ وہ لڑکی بہت ہی سندر تھی۔ اس کے والد قریبی علاقہ پبی میں ڈاکٹر تھے۔ اس کی والدہ کو ٹی بی کا مرض لاحق تھا۔‘

ان کی بیٹی ککی نے اس لڑکی کا نام پوچھا تو من موہن سنگھ کا جواب تھا ’میں بھول چکا ہوں۔‘

منموہن سنگھ کے لڑکپن کے پشاور میں بہت سارے سینما ہالز تھے۔ فلم دیکھنے کا شوق انہیں اکثر وہاں لے جاتا۔ بیٹی نے پسندیدہ فلم کا نام پوچھا تو بولے ’رام راجیا۔‘

اس وقت دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی کامیابی کا جشن ہندوستان بھر میں منایا گیا۔ پشاور کے خالصہ ہائی سکول میں طلبہ اور اساتذہ کے لیے مٹھائی کا بندوبست ہوا۔ 

13 سالہ منموہن سنگھ نے اپنے ساتھی طالب علموں اور کلاس فیلوز کو انگریزوں کی فتح کی خوشی میں بانٹی جانے والی مٹھائی کھانے سے منع کر دیا۔ یہ ان کے سیاسی شعور کی بیداری کا آغاز تھا ۔

ہاسٹل کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے کالج سے فارغ 

من موہن سنگھ نے مارچ 1947 میں پنجاب یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام میٹرک کا امتحان دیا۔ یہ واحد امتحان تھا جس کا رزلٹ کبھی بھی نہیں سنایا گیا۔ وجہ تقسیم ہند کے دوران مارچ میں پنجاب میں ہونے والے فسادات تھے۔

گاہ میں منموہن سنگھ کے گھر کو جلا دیا گیا۔ دادی کو پڑوسی مسلمان خاندان نے پناہ دی۔ جب گاؤں کے سارے غیرمسلم مرد مارے گئے تو پولیس نے ان کی دادی کو ریلیف کیمپ پہنچایا۔

جولائی 1947 میں ان کے والد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہجرت کر کے ہیلڈ وانی میں جا کر آباد ہو گئے۔

اگست کے بعد پشاور میں اپنی دکان اور گھر کا پتہ کرنے کے لیے جانے والے گر میکھ سنگھ پاکستان سے خالی ہاتھ واپس لوٹے۔

منموہن سنگھ نے نواز شریف کو انڈیا آنے کی دعوت دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

پنجاب کی تقسیم کے بعد 1947 میں انڈین پنجاب میں پنجاب یونیورسٹی کے قیام کا ایکٹ پاس ہوا تو منموہن سنگھ کی تعلیم کا ٹوٹا سلسلہ پھر سے بحال ہوا۔

انہوں نے 1948 میں دوبارہ میٹرک کا امتحان دیا۔ اس بار ان کے پاس تدریسی کتابیں تک نہ تھیں۔ لیکن منموہن سنگھ 850 میں سے 694 نمبر لے کر سکالرشپ کے حقدار ٹھہرے۔

منموہن سنگھ نے خالصہ کالج امرتسر میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔ والد ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر جلد ہی سائنسی مضامین میں ان کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ تھوڑے عرصے بعد انہیں کالج سے ہی نکال دیا گیا۔

کچھ  وقت کے لیے والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹایا مگر پھر دوبارہ ہندو کالج میں داخلہ لے لیا۔

بیٹی کے ساتھ اپنی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ خالصہ کالج چھوڑنے کی ایک اور وجہ ہاسٹل کی فیس ادا کرنے کی سکت نہ ہونا تھا۔

1950 میں انٹر کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ کالج میں وہ پنجابی سوسائٹی کے صدر اور کالج کے میگزین کے سٹوڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔

منموہن سنگھ نے کالج کی طلبہ یونین کا الیکشن بھی لڑا اور شکست سے دوچار ہوئے۔ سیاسی میدان میں یہ ان کی پہلی ناکامی تھی۔

انڈیا کی معاشی ترقی کے معمار

منموہن سنگھ کو انڈیا کی معاشی اصلاحات کابانی کہا جاتا ہے۔ 90 کے عشرے میں اکنامک افیئرز کے ایڈوائزر کے طور پر انہوں نے انڈیا میں معاشی لبرلائزیشن کی پالیسی متعارف کروائی۔

پرائیویٹائزیشن اور نجی شعبے کی ترقی کے لیے انفراسٹرکچر میں توسیع کا تصور برطانیہ کی نامور جامعات سے اکنامکس میں اعلٰی تعلیم کی بدولت انہیں حاصل ہوا۔

ہوشیار پور کالج سے معاشیات میں ماسٹر کرنے کے بعد انہوں نے سکالرشپ پر کیمبرج سے اکنامکس میں ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی میں ایک تحقیقی پروجیکٹ میں ملازمت کرنے کے بعد انہیں معروف برطانوی یونیورسٹی آکسفورڈ میں پی ایچ ڈی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔

جس وقت وہ آکسفورڈ میں زیرِ تعلیم تھے، پاکستان کی معروف ماہر تعمیرات یاسمین لاری بھی اپنے خاوند سہیل لاری کے ساتھ برطانیہ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ وہ اور منموہن سنگھ کا خاندان لندن میں پڑوسی تھے۔

منموہن سنگھ کو انڈیا میں معاشی اصلاحات کا معمار سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

یاسمین لاری نے اردو نیوز کو بتایا کہ منموہن سنگھ اکثر ان کے شوہر سے ملنے آتے تھے۔ دونوں کے درمیان برصغیر کی سیاست اور کلچر پر گفتگو اور بحث و مباحثہ ہوتا۔ وہ انتہائی دھیمے  مزاج کے مالک اور نفیس طبیعت رکھتے تھے۔

یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ بے انتہا قابلیت کے باوجود منموہن سنگھ دوسروں کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

جب منموہن سنگھ انڈیا کے مرکزی بینک کے گورنر تھے تو اپنے دورہ پاکستان میں وہ کراچی میں یاسمین لاری اور ان کے خاوند سے ملنے ان کے گھر بھی گئے۔

معاشیات میں ڈاکٹریٹ کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں ملازمت کی۔ پھر انڈیا کے پلاننگ کمیشن کے ایڈوائزر اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی حکومت میں انہیں اکنامک افیئرز کے سیکریٹری کے طور پر حکومتی مشینری کا حصہ بننے کا موقع ملا۔

1984 میں جب اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں تو دلی شہر میں سکھوں پر حملے اور ان کی املاک کو اگ لگائی جا رہی تھی۔ من موہن سنگھ، اندرا گاندھی کی آخری رسومات میں شریک ہونا چاہتے تھے مگر دوستوں نے خطرے کے پیش نظر انہیں مرکزی بینک کے گیسٹ ہاؤس میں روپوش ہونے کا مشورہ دیا۔

معاشی امور میں اپنے طویل تجربے اور فیم و فراست کی وجہ سے وہ 1990 کی دہائی میں وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کی حکومتوں میں اکنامک افیئرز کے مشیر کی حیثیت سے منسلک رہے۔

سیاست میں قدم رکھنے کے باوجود ان کا کوئی انتخابی حلقہ نہ تھا۔ کانگرس نے انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنوایا۔ وہ اس ہاؤس میں کانگرس کی طرف سے اپوزیشن لیڈر بھی منتخب ہوئے۔

حادثاتی وزیراعظم       

منموہن سنگھ کو دوسری مدت میں کانگریس سے شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

24 مئی 2004 کو کانگرس کی کامیابی کے بعد جب منموہن سنگھ کا نام وزیراعظم کے طور پر سامنے آیا تو انڈیا کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور حیرت کا اظہار ہونے لگا۔

وزارت عظمیٰ کے لیے ان کا نام پاکستان کے علاقے سیالکوٹ میں جنم لینے والے نامور انڈین صحافی اور سیاست دان کلدیپ نیر نے تجویز کیا تھا۔

کلدیپ نیر اپنی یادداشتوں کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کانگرس کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان سونیا گاندھی سے خود وزیراعظم بننے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ ارکان نے اجلاس میں دھرنا دے دیا اور کچھ نے ہال چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ سونیا کے بیٹے راہل گاندھی بھی اپنی والدہ کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے تھے۔

کلدیپ نیر انہیں ایک ناکام وزیراعظم قرار دیتے تھے جو سونیا گاندھی کی مرضی کے بغیر کوئی قدم اٹھانے کی جرات اور ہمت نہیں رکھتے تھے۔

وزارت عظمیٰ کی دوسری ٹرم میں انہیں کانگریس کے اندر سے شدید مزاحمت اور مخاصمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کے بزرگ رہنما پرناب مکھرجی اور پی چدم برم ان کے سخت خلاف تھے۔ وہ کسی حیثیت میں انہیں وزیراعظم ماننے کو تیار نہ تھے۔ اسی باعث ان کا دوسرا دور اندرونی رنجشوں اور اختلافات میں ہی گزرا۔

2013 میں ایک انڈین تجزیہ نگار سنجے بارہ نے منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے بارے میں تنقیدی کتاب ’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ کے نام سے لکھی۔

آج سے دو برس قبل اسی نام سے منموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے بارے میں فلم بھی بنائی گئی جس میں نامور انڈین اداکار اکشے کھنہ اور انوپم کھیر نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کی سرزمین سے جڑی یادوں کی وجہ سے وہ دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت اور دوستی کے خواہاں تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں دونوں ملکوں میں تنازعات کے اختتام کے لیے غیر معمولی پیشرفت اس سوچ کا واضح اظہار تھا۔

2009 میں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ان کی ملاقات ہوئی۔ پاکستان کی کوششوں سے 2019 میں سکھوں کے مقدس مذہبی مقام کرتار پور کی بحالی اور یاتریوں کو اس کی زیارت کی اجازت دینے کی تقریب میں بھی انہوں نے شرکت کی تھی۔

منموہن سنگھ  کو زندگی میں دو بار پاکستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔

منموہن سنگھ اپنے آبائی گاؤں جانے کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

پہلی بار 1967 میں جب وہ اقوام متحدہ سے وابستہ تھے تو ڈاکٹر محبوب الحق کو ملنے اسلام آباد گئے تھے۔ اس وقت انہوں نے اسلام آباد کے قریب سکھوں کے مقدس مذہبی مقام پنجہ صاحب کا دورہ کیا۔

دوسری بار 1984 میں پاکستان کی میزبانی میں ایشیا کے مرکزی بینکوں کے گورنرز کی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ پاکستان آئے تھے۔

دونوں بار انہوں نے اپنے آبائی علاقے میں اپنے گھر اور گاؤں کو دیکھنے کی خواہش نہیں ظاہر کی۔ وزیراعظم بننے کے بعد چکوال سے ملنے کے لیے آنے والے ملاقاتی انہیں اپنا چھوڑا ہوا گاؤں دوبارہ دیکھنے کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔

دمن سنگھ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ میری بہن نے ان کے ہاتھ میں چکوال سے لائی گئے پانی کی بوتل دیکھ کر پوچھا کہ کیا انہیں اپنی جنم بھومی دیکھنے کی خواہش ہے؟

’نہیں‘، انہوں نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’حقیقت میں نہیں۔ وہ ایسی جگہ ہے جہاں میرے دادا کو مارا گیا تھا۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.