موئن جو دڑو کو دریافت کرنے والے بنگالی ماہر آثارِ قدیمہ کا نام رکھلداس بینرجی تھا اور وہ محکمہ آثارِ قدیمہ کے ایک سینیئر افسر تھے جبکہ ان کے ساتھی دیارام سہانی نے قدیم شہر ہڑپا دریافت کیا تھا۔
یہ 20 ستمبر 1924 کا دن تھا جب برطانوی جریدے ’دا السٹریٹڈ لندن نیوز‘ نے اپنے صفحات پر ایک نئی دریافت کو جگہ دی۔ اس تحریر میں بتایا گیا تھا کہ انڈیا میں قدیم یونانی شہر موکنائی جیسے ہی قدیم شہر دریافت ہوئے ہیں۔
یہ مضمون پانچ ہزار سال پُرانے شہروں موئن جو دڑو اور ہڑپہ کے حوالے سے تھا اور اس خبر نے پوری دُنیا میں ایک سنسنی پھیلا دی۔
اس وقت تک لوگوں کو علم ہی نہیں تھا کہ انڈیا میں بھی ہزاروں سال پُرانی تہذیبوں کے کھنڈرات موجود ہیں۔
برطانوی جریدے کے لیے یہ مضمون انڈین محکمہ آثارِ قدیمہ کے سربراہ سر جان مارشل نے لکھا تھا اور اس کے ساتھ ان قدیم شہروں کے کھنڈرات کی تصاویر بھی شائع کی گئی تھیں۔
تاہم سر جان مارشل نے اس مضمون میں ایک اہم بات کا ذکر نہیں کیا تھا اور وہ بات یہ تھی کہ ان قدیم شہروں کو دریافت دو انڈین ماہرینِ آثار قدیمہ نے کیا تھا جن میں سے ایک شناخت کے اعتبار سے بنگالی تھے۔
موئن جو دڑو کو دریافت کرنے والے بنگالی ماہر آثارِ قدیمہ کا نام رکھلداس بینرجی تھا اور وہ محکمہ آثارِ قدیمہ کے ایک سینیئر افسر تھے جبکہ ان کے ساتھی دیارام سہانی نے قدیم شہر ہڑپہ دریافت کیا تھا۔
موئن جو دڑو
انڈین شہریوں کو اب اپنی سکول کی تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوا کہ رکھلداس بینرجی نے موئن جو دڑو کے کھنڈرات دریافت کیے تھے لیکن ابتدائی برسوں میں دنیا نے یہ نام نہیں سُنا تھا۔
موئن جو دڑو کی دریافت کے حوالے سے رکھلداس بینرجی نے سر جان مارشل کو ایک رپورٹ ارسال کی تھی جو کہ کہیں گُم ہو گئی تھی۔
حالہ برسوں میں گُم ہوجانے والی اس رپورٹ کو دوبارہ ترتیب دیا گیا۔
بنارس ہندو یونیورسٹی سے بطور پروفیسر منسلک آثارِ قدیمہ پر تحقیق کرنے والے محقق دیپن بھٹاچاریا کو رکھلداس بیرجی کی رپورٹ کی ایک نقل موصول ہوئی تھی اور وہ اس رپورٹ کی تاریخی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔
پروفیسر دیپن نے اس رپورٹ اور اس کے ساتھ موجود تصاویر کی کچھ کاپیاں بنائیں۔
پروفیسر دیپن کہتے ہیں کہ ’ان تمام چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے میں اصل رپورٹ کو دوبارہ ترتیب دینے میں کامیاب ہوگیا اور یہ میرا فرض تھا۔‘
پروفیسر دیپن انڈین آثار قدیمہ پر متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں انڈس ویلی تہذیپ پر لکھی گئی کتابیں بھی شامل ہیں۔
’موئن جو دڑو کی دریافت ایک حادثہ‘
رکھلداس بینرجی نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’تاریخی مقام موئن جو دڑو کی دریافت ایک حادثہ تھی اور یہ ایک اکتوبر 1917 میں پیش آیا جب میں قریب ہی ہرن کا شکار کر رہا تھا۔‘
’میں وہاں راستہ بھٹک گیا اور مجھے وہاں ایک پھاوڑا ملا (مٹّی کریدنے کا اوزار)، ایسے ہی اوزار کچھ برسوں پہلے سکھر ضلع کے پڑوس میں واقع علاقے روہڑی سے ملے تھے۔ یہ اوزار کولکتہ کے عجائب گھر میں رکھے ہیں۔‘
7 نومبر 1928 کے ’کولکتہ میونسیپل گیزیٹ‘ کے شمارے میں رکھلداس بینرجی نے اپنے کیریئر کے بارے میں لکھا تھا اور اس دریاست کے بارے میں بھی لکھا تھا جس نے انڈیا کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔
موئن جو دڑو کے مقام تک جانے سے قبل انھوں نے انڈیا کے آرکیولوجیکل سروے ڈیپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کی دوست سنیتی کمار نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ رکھلداس بینرجی دراصل اس خطے میں سکندرِ اعظم کی فتح کے جیت کے نشانات ڈھونڈنے گئے تھے۔
جب وہ موئن جو دڑو سے پونے واپس آئے تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ ڈاکٹر آر بھنڈارکر بھی کچھ برس قبل اس علاقے میں گئے تھے اور انھوں نے بتایا تھا کہ یہ آثارِ قدیمہ صرف چند سو سال پُرانے ہیں۔
تاہم رکھلداس بینرجی نے ہمت نہیں ہاری۔ پھر 1917 کے بعد وہ متعدد مرتبہ اس خطے میں آئے اور پھر بالآخر انھوں نے دریائے سندھ کے اطراف موئن جو دڑو کے کھنڈرات ڈھونڈ ہی لیے۔
ڈاکٹر رکھلداس بینرجی خود لکھتے ہیں کہ ’جب میں پوری طرح سے قائل ہو گیا کہ شاید موئن جو دڑو انڈیا کی سب سے قدیم تہذیب ہے تو میں نے سنہ 1922 میں وہاں کھدائی شروع کروا دی۔‘
بدھ مت کے سٹوپاز کے نیچے چھپی قدیم تہذیب
پروفیسر دیپن بھٹاچاریا کہتے ہیں کہ ’کھدائی سے قبل زمین کے اوپر کُشن سلطنت کے زمانے کا بدھ مت کا سٹوپا بنا ہوا تھا۔ یہ انڈس ویلی تہذیب کے بالکل اوپر تعمیر کیا گیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس کے نیچے موجود قدیم شہر کے کھنڈرات ایک حادثے کے نتیجے میں دریافت ہوئے تھے۔
رکھلداس بینرجی خود لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1921 میں میں لاڑکانہ ضلع کے مغرب میں واقع ایک مقام پر تھا کہ میں نے وہاں ایک گڑھا دیکھا اور میں نے اس میں ہاتھ ڈال دیا۔ اس وقت میرے ہاتھ پر چوٹ آئی اور لوگوں نے کہا کہ شاید مجھے کسی سانپ نے کاٹ لیا۔ جب میں نے سانپ کو مارنے کی کوشش کی تو میرے ہاتھ میں دس مرتبان آگئے جو کہ ساتھ ہی رکھے تھے۔‘
’ایک ایسے مرتبان میں پتھر سے بنی ایک چھری رکھی ہوئی تھی جس سے میری انگلی کٹ گئی تھی۔ ہر مرتبان میں ایک انسانی ہڈی اور کچھ میں چاول، جو، تمباکو اور شیشے کی چیزیں موجود تھیں۔‘
رکھلداس بینرجی مزید لکھتے ہیں کہ ’جب یہ چیزیں دریافت ہوئیں تو میں سمجھ گیا کہ انڈس ویلی کے جنوبی حصے میں موجود کھنڈرات انڈیا کے شمالی علاقوں میں دریافت ہونے والے کھنڈرات سے مختلف ہیں۔‘
ان کھنڈرات میں پہلے رکھداس بینرجی نے کھدائی کروائی اور بعد میں مدھو سوارپ بھٹ نے۔
رکھلداس بینرجی کے مطابق ’آخر کار جون 1924 میں، میں نے محکمہ آثار قدیمہ کے سربراہ سر جان مارشل کو اس دریافت کے بارے میں آگاہ کیا۔‘
سر جان مارشل نے یہ معلومات اور تصاویر ’دا السٹریٹڈ لندن نیوز‘ میں شائع کروائیں لیکن اس مضمون میں موئن جو دڑو دریافت کرنے والے رکھلداس بینرجی کا نام تھا اور نہ ہڑپہ دریافت کرنے والے دیارام سہانی کا۔
رکھلداس بینرجی کو ان کی زندگی میں کوئی سرکاری اعزاز نہ ملا
پروفیسر دیپن کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ لندن کے اخبارات میں چھپنے والی معلومات اور تصاوریر جان مارشل کی نہیں تھی بلکہ وہ دراصل رکھلداس بینرجی اور ان کے ساتھیوں کی ملکیت تھی۔‘
’اس کے باوجود بھی ان کی خدمات کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ سر جان مارشل بھی ایک بڑے سکالر تھے اور اس پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا لیکن کسی اور کی دریافت کو تسلیم کرنا بھی درست نہیں۔‘
ڈاکٹر دیپن کے مطابق جان مارشل کا کہنا تھا کہ رکھلداس بینرجی کی رپورٹ میں متعدد خامیاں تھی اور اس میں معلومات کی بھی کمی تھی۔
ہیرلڈ ہارگریوز وہ افسر تھے جو جان مارشل کے بعد محکمہ آثارِ قدیمہ کے سربراہ مقرر ہوئے تھے اور انھوں نے ہی رکھلداس کی رپورٹ انھیں واپس بھیجی تھی۔
ڈاکٹر دیپن کہتے ہیں کہ ’ہیرلڈ نے ایک خط میں رکھداس بینرجی کو بتایا کہ جان مارشل نے انھیں کہا ہے کہ وہ اصلی رپورٹ واپس رکھلداس کو بھیج دیں اور اگر وہ چاہیں تو اسے کہیں اپنے نام سے بھی شائع کروا سکتے ہیں۔‘
سنہ 1931 میں جان مارشل نے اپنی کتاب ’موئن جو دڑو، دا انڈس سول آئزیشن‘ شائع کی تھی اور انھوں نے اس میں رکھلداس بینرجی اور دیارام سہانی کا ذکر کیا تھا۔
تاریخ دان نینجوت لہیری نے رکھلداس بینرجی کی رپورٹ کے بارے میں تفصیل سے اپنی کتاب میں بھی لکھا۔ ان کے مطابق رکھلداس بینرجی کو جان مارشل کی کتاب شائع ہونے سے قبل اپنی اصل رپورٹ شائع کر دینی چاہیے تھی ’تاکہ غلط فہمی کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی۔‘
تاہم ڈاکٹر دیپن کہتے ہیں کہ ’مجھے شک ہے کہ شاید رکھلداس نے موئن جو دڑو کی رپورٹ واپس آنے کے بعد دوبارہ دیکھی ہی نہیں تھی کیونکہ وہ اس وقت وفات پا چکے تھے۔‘
تاہم کتاب شائع ہونے سے قبل ہی رکھلداس بینرجی 45 کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ انھوں نے خود محکمہ آثار قدیمہ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اس کے بعد بنارس ہندو یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔
ان کو اپنی زندگی میں کبھی بھی کوئی سرکاری اعزاز نہیں مل سکا۔
رکھلداس بینرجی پر مالی بدعنوانی کے الزامات
جان مارشل اور رکھلداس بینرجی کے اختلافات کے سبب انڈیا میں ایک تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔ رکھلداس بینرجی اس وقت کولکتہ میں انڈین میوزیم میں کام کر رہے تھے اور جان مارشل انڈین آرکیولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل تعینات ہو چکے تھے۔
تاریخ دان نینجوت لاہری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ کام کو لے کر جان مارشل اور رکھلداس بینرجی کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے تھے۔
کچھ مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ نوادرات کو خریدنے کے لیے جو ’قیمت‘ رکھلداس بینرجی ادا کرنا چاہتے تھے وہ جان مارشل کے مطابق اصل قیمت سے زیادہ تھی۔
نینجوت لاہری کے مطابق رکھلداس بینرجی نے متعدد بار جان مارشل کے احکامات کی خلاف ورزی کی تھی۔
جب بعد میں رکھلداس بینرجی نے ایک اور سرکاری ملازمت کے لیے درخواست جمع کروائی تو جان مارشل نے ان کے بارے میں منفی تاثرات کا اظہار بھی کیا۔ اسی سبب رکھلداس بینرجی کو وہ ملازمت نہیں مل سکی۔
رکھلداس بینرجی پر مدھیہ پردیش کے ایک مندر سے ایک قدیم مورتی ’غائب‘ کرنے کا الزام بھی لگا تھا۔
جب یہ مورتی غائب ہوئی اس وقت رکھلداس بینرجی اپنے دوستوں کے ہمراہ کہیں قریب ہی موجود تھے تاہم بعد میں انھوں نے یہ مورتی برآمد کروائی اور اسے مندر منتقل کر دیا گیا۔
موئن جو دڑو کا آخری دورہ
اس صورتحال میں رکھلداس بینرجی نے سر جان مارشل کو ایک خفیہ خط بھی لکھا اور کولکتہ منتقلی کی درخواست کی۔
کچھ دن بعد جان مارشل بمبئی حکومت کو رکھلداس بینرجی کو دوبارہ کولکتہ ٹرانسفر کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سنہ 1922 میں رکھلداس بینرجی کولکتہ جانے سے قبل آخری مرتبہ موئن جو دڑو آئے تھے۔ اسی وقت وہاں کھدائی شروع ہوئی تھی۔
اس وقت بدھمت سٹوپا کے نیچے سے آہستہ آہستہ موئن جو دڑو کی تہذیب واضح ہونا شروع ہوئی تھی۔ موئن جو دڑو کو رکھلداس بینرجی کی زندگی میں کبھی پزیرائی نہیں ملی لیکن اب اس کا شمار عالمی ورثے میں ہوتا ہے۔
موئن جو دڑو کے دروازے پر پاکستانی حکومت کی جانب سے لگائے گئے بڑے سے بورڈ پر بھی رکھلداس بینرجی کا نام لکھا گیا۔