حیرت کے دیدے وا کرنے والا جو جادو محمد عباس کی انگلیوں سے جلوہ گر ہوتا ہے، اسی کے حسن کا تقاضا ہے کہ وہ کسی رفتار کے جوش کی بجائے، ٹھہراؤ کے ایسے ہوش سے انجام دیا جائے کہ بلے بازوں سے تکنیکی خطا کے جواز بھی چھین لے۔
ایڈن مارکرم کی بھنویں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ بے یقینی سے انھوں نے پاس کھڑے امپائر ایلیکس وہارف کی جانب دیکھا۔ وہارف کے چہرے پر بھی تحیر آمیز مایوسی تھی اور کچھ ایسی ہی مایوسی سے رائن رکلٹن بھی سر جھٹکتے پویلین لوٹ رہے تھے۔
سینچورین پارک پر ڈھلتی ابر آلود شام میں محمد عباس کی انگلیوں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔
کچھ ہی لمحے پہلے جب شان مسعود نے عباس کی اس گیند پر ریویو لیا جو تاخیری سوئنگ کے بل پر رکلٹن کے بلے کو چکما دے کر پیڈ سے ٹکرائی تھی تو امپائر ایلیکس وہارف نے اس یقین سے اپنا سر نفی میں جھٹکا تھا کہ اس گیند کا سٹمپس سے ٹکرانا ممکن ہی نہ تھا۔
مگر جیسے سوئنگ کے جادوگر محمد آصف اپنی دھیمی رفتار کے باوجود عظیم بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن جایا کرتے تھے، کچھ ویسے ہی محمد عباس کی انگلیاں بھی گیند سے ایسی ایسی حرکات کروا لیتے ہیں جو بلے بازوں کے ساتھ ساتھ امپائرز کے لیے بھی دردِ سر بن جایا کرتی ہیں۔
محمد عباس کی جو گیند ٹونی ڈی زورزی کے ارمانوں کا انجام ٹھہری، وہ بھی اس قدر سوئنگ ہو کر اندر آئی تھی کہ ایلیکس وہارف کو انگلی اٹھانے سے پہلے کافی لمحے غور کرنا پڑا تھا کہ کہیں اس کا ’امپیکٹ‘ آف سٹمپ سے باہر ہی نہ ہو۔
حیرت کے دیدے وا کرنے والا جو جادو محمد عباس کی انگلیوں سے جلوہ گر ہوتا ہے، اسی کے حسن کا تقاضا ہے کہ وہ کسی رفتار کے جوش کی بجائے، ٹھہراؤ کے ایسے ہوش سے انجام دیا جائے کہ بلے بازوں سے تکنیکی خطا کے جواز بھی چھین لے۔
عباس اس نایاب قسم کے بولر ہیں جو رفتار کی کمی کو اپنی کمزوری نہیں بناتے بلکہ اسی کو اپنی قوت بنا کر تواتر سے بلے بازوں کے فارورڈ ڈیفنس کا امتحان لیے جاتے ہیں تا آنکہ کوئی ایک گیند نیوٹن کے سبھی اصولوں کو چکراتے ہوئے ایسی راہ سے اندر نہ آ جائے جو تمام تر عقلی توجیہات سے بھی ماورا ہو۔
یہ محمد عباس کا خسارہ نہ تھا، یہ پاکستان کا خسارہ تھا کہ ایسے ہنر کے باوجود انہیں ساڑھے تین برس تک ٹیم سے دور رکھا گیا کہ تب فیصلہ ساز احباب صرف ایکسپریس پیس کی یکطرفہ رو میں بہہ رہے تھے۔
جس بدقسمت عہد میں ’پیس از پیس یار‘ کی گردان نے زور پکڑا، حسنِ اتفاق سے یہ وہی سر سبز دور تھا جب پاکستان ٹیسٹ کرکٹ میں اپنے ہوم گراؤنڈز پر تاریخ کے نادر کلین سویپ بھگت رہا تھا اور سارے مباحث پچوں کی طبیعیات کے گرد گھوم رہے تھے۔
جبکہ جو بولر اپنی انگلیوں کے بل پر یہ مایوس کن نتائج پلٹ سکتا تھا، وہ انٹرنیشنل سرکٹ میں اپنی ہستی کا ثبوت دے دینے کے بعد بھی صرف قائد اعظم ٹرافی یا کاؤنٹی کرکٹ تک محدود کر دیا گیا تھا۔
حالانکہ یہ وہی محمد عباس تھے کہ جب آسٹریلیا کے خلاف دو ہی میچوں میں بیس وکٹیں حاصل کر ڈالیں تو سابق نمبر ون بولر ڈیل سٹین نے انھیں ٹیسٹ کرکٹ میں ’نیکسٹ بگ تھنگ‘ قرار دیا تھا مگر ایک اوسط سیریز کے بعد انھیں ڈراپ کر دیا گیا اور پھر پلٹ کر خبر تک نہ لی گئی۔
یہ کریڈٹ بہر صورت عاقب جاوید کی سلیکشن کمیٹی کو جاتا ہے کہ غالباً 2007 کے دورے پر محمد آصف کی کارکردگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے انھوں نے یہ جرات آموز داؤ کھیلا اور بالآخر یہ بار آور بھی ٹھہرا۔
حالانکہ عباس کے اس انتخاب پر بھی در پردہ کئی پنڈت نالاں ہوئے تھے کہ انھیں شاہین آفریدی پر ترجیح کیوں دی گئی۔ اسی میچ کے دوران بھی ایسی ہی کچھ مایوس آوازیں کمنٹری باکس کے راحت افروز گوشوں سے بھی اٹھی تھیں۔
مگر یہاں محمد عباس نے پہلے اپنے ڈسپلن سے جنوبی افریقی ٹاپ آرڈر کو کریز میں باندھا اور پھر جب وہ قدموں کے استعمال پر مائل ہوئے بھی، تو بے خطا لینتھ سے باؤنس ہوتی لیٹ سوئنگ نے ان کے اعصاب الجھا ڈالے اور پسپائی کو یقینی بنا دیا۔
حالانکہ اس ٹاپ آرڈر کو درپیش ہدف ایسا بھاری ہرگز نہ تھا کہ اعصاب پر گراں ہو پاتا۔
بارش کے طویل تعطل کے بعد بالاخر جب میچ کا آغاز ہوا تو بابر اعظم اور سعود شکیل نے قدموں کا وہ استعمال کیا جو مسلسل ربادا اور پیٹرسن کی لینتھ گڑبڑاتا رہا۔ قسمت نے بھی ان ہی کی یاوری کی اور کچھ قیمتی باؤنڈریز پاکستانی مجموعے میں شامل ہوئیں۔
مگر کھیل کا دوسرا گھنٹہ شروع ہوا تو مارکو یئنسن کی لینتھ اور باؤنس بابر اعظم کو پریشان کرنے لگا۔
انیس اننگز کے بعد بالآخر وہ نصف سنچری تو کر گئے مگر یئینسن کے تغیر آمیز باؤنسن نے بابر کی وکٹ سے انہدام کا وہ دروازہ کھولا کہ اگر سعود شکیل بیچ میں حائل نہ ہوتے تو شاید یہ ہندسہ بھی نہ چھوا جاتا جو بہرحال کسی مقابلے کی موہوم سی امید تو ہے۔
مگر اس قلیل ہدف کے تعاقب میں جو واضح اعتماد اور نفسیاتی برتری جنوبی افریقہ کو حاصل تھی، محمد عباس اور خرم شہزاد کے آرٹ نے وہ یوں ان کے دانتوں تلے سے کھینچی کہ سینچورین میں تیسری شام کا سورج ڈھلنے سے پہلے مقابلہ پھر برابر کا ہو گیا جہاں صرف ایک بہترین بولنگ سیشن سارے تخمینے ہوا کر سکتا ہے۔